حسرت موہانی ۔ ایک باکمال شاعر

ڈاکٹر امیر علی
سید فضل الحسن حسرت موہانی 1881ء کو موہان ضلع اناؤ (یوپی) میں پیدا ہوئے ۔ حسرت کی ابتدائی تعلیم موہان میں ہوئی اور وہیں سے انھوں نے مڈل کا امتحان کامیاب کیا ۔ اس کے بعد فتح پورے گئے اور وہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ 1903 میں علی گڑھ سے بی اے کی تکمیل کی ۔ سید سجاد حیدر یلدرم اور مولانا شوکت علی ان کے خاص ساتھیوں میں تھے ۔ حسرت موہانی کی عربی تعلیم مولانا سید ظہور الاسلام کے زیر نگرانی ہوئی اور فارسی کی تعلیم مولانا نیاز فتح پوری کے والد مولانا محمد امیر خان سے حاصل کی ۔ حسرت موہانی اس اعتبار سے بڑے خوش نصیب تھے کہ انھیں نانی اور والدہ دونوں کا پیار ملا ، اور ان دونوں خواتین کے ادبی اور شعری ذوق ہی نے حسرت کو شعر و شاعری کی طرف مائل کیا ۔ حسرت کی شاعری عاشقانہ شاعری ہے جس میں کہیں بھی سستی قسم کی لذت پرستی نہیں ملے گی ۔ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ کیف ومستی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے ۔ حسرت نے عاشقانہ زندگی کی بہترین مرقع کشی کی ہے اور ان کی کہی ہوئی نظم نما غزلیں اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں ۔ آج بھی حسرت کے اشعار میں وہی چاشنی اور جذب کی کیفیت برقرار ہے ۔ حسرت نے اپنی شاعری میں عاشقانہ زندگی کو اپنی شاعری سے پرکشش بنادیا۔ ان کے اشعار میں ترنم ، دلکشی اور سوز و گدا جگہ جگہ پایا جاتا ہے ۔ چنانچہ حسرت فرماتے ہیں ۔
رنگ سونے میں چمکتا ہے طرح داری کا
طُرفہ عالم ہے ترے حسن کی بیداری کا
کٹ گیا قید میں ماہ رمضان بھی حسرتؔ
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا
حسرت ازل سے ہی عشق کا جذبہ لیکر پیدا ہوئے تھے وہ سانس بھی لیتے تھے تو انھیں معلوم ہوتا تھا کہ عشق کی چھری ان کے قلب و جگر میں پیوست ہورہی ہے ۔ حسرت کے یہاں عشق میں سادگی ، تسلیم و رضا ، اور ادب و احترام ہے ۔ والہانہ جذبات ، لطافت زبان اور نزاکت الفاظ و بیان حسرت کا مخصوص رنگ ہے ۔
حسرت نے قدیم اساتذہ سخن کے دیوان حاصل کرکے ان کا انتخاب شائع کیا ۔ ان کی اس سعی کی بدولت جرأت ، حاتم ، سوز ، میر حسن ، قائم اور مصحفی کا کلام ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا ۔ اس کے علاوہ فنی حیثیت سے نکات سخن، محاسن سخن اور معائب سخن حسرت کے یہ رسالے خاص اہمیت رکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ حسرت نے ’’دیوان غالب‘‘ معہ شرح بھی شائع کی تھی جو اردو ادب میں خاص اہمیت کی حامل ہے ۔ حسرت نے غزل کی زبان کو اظہار کی نئی توانائی اور رعنائی بخشی ۔ حسرت صرف عشقیہ شاعری میں ہی ملکہ نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کے یہاں تغزل کی چاشنی ، پرکاری ، کیف وسرمستی ، رنگینی و معاملہ بندی کے بھی اعلی نمونے ملتے ہیں ۔ حسرت کے اشعار میں حسن تاثیر اور شعریت مکمل طور پر موجود ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی بحروں میں بڑے بڑے مضامین نظم کرنا حسرت کے فن کی نمایاں خوبی ہے ۔ غزل کو اپنے پیش رو کے بعد حسرت ہی نے زندہ کیا اور اس کو نیا آہنگ اور لب و لہجہ عطا کیا ۔ وہ بلاشبہ جدید غزل کے رمز شناس ہیں ۔ حسرت کی شاعری کا رشتہ مومن سے ملتا ہے ۔ ان کے یہاں مومن کی نازک خیالی ، ترکیبوں کی بندش اور گھلاوٹ جگہ جگہ اپنی بہاریں دکھاتی ہیں ۔ حسرت کے کلام میں ایک اہم خوبی یہ ہے کہ وہ شاعری کے عروض و قوافی سے پوری طرح واقف تھے جس کی وجہ سے ان کے کلام میں انفرادیت پائی جاتی ہے ۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو ۔
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طُرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
کٹ گئی احتیاط عشق میں عمر
ہم سے اظہار مدعا نہ ہوا
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
دیکھنا بھی تو انھیں دور سے دیکھا کرنا
شیوۂ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا
نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبیٔ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
کس قدر دشوار تھی ہم پر جدائی آپ کی
بارے پھر اللہ نے صورت دکھائی آپ کی
جس سے حسرت ہوگئی زیر و زبر بزم سماع
کس قیامت کی غزل مطرب نے گائی آپ کی
حسرت موہانی ہندوستان کی جنگ آزادی کے ان عظیم مجاہدوں میں سے ایک تھے جنھوں نے انجام سے بے پروا ہو کر انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے کا نعرہ دیا ۔ انھوں نے ایسے وقت میں ہندوستان کی کامل آزادی کا ریزولیوشن پیش کیا تھا جبکہ اس کا تصور محال تھا کیونکہ ہندوستان کی جنگ آزادی کی تحریک اپنی طفولیت کی منزل میں تھی ۔ حسرت موہانی ایک سچے محب وطن اور عظیم مجاہد آزادی تھے ، انھوں نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا ۔ مولانا حسرت موہانی نے ملک کی کامل آزادی کی تائید میں بہت کچھ لکھا جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور انگریزی حکومت کے پاؤں میں لغزش پیدا ہوگئی تھی اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ حسرت کو ’’ہندو مسلم اتحاد‘‘ بہت عزیز تھا ۔وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان کی دو بڑی قوم ’’ہندو اور مسلمان‘‘ اپنے باہمی اختلافات کو فراموش کرکے آپس میں اتحاد و یگانگت کے ساتھ رہیں اور ہندوستان کی جنگ آزادی کو کامیاب بنائیں ۔ ملک کے سبھی قومی رہنماؤں سے حسرت کے گہرے مراسم تھے اور سبھی حسرت کی شخصیت اور شاعری کے مداح تھے اور حسرت کے کارناموں سے متاثر تھے ۔
حسرت موہانی بڑے خوددار انسان تھے ۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بڑی سے بڑی مشکلوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا ۔ حسرت زیادہ کی تلاش میں نہیں رہتے تھے بلکہ گزر بسر پر ہی یقین رکھتے تھے ۔ مگر وہ ہمیشہ تنگ دست رہے مگر اس تنگ دستی میں بھی ثابت قدم رہے ۔ وہ دولت اور شہرت سے ہمیشہ بے نیاز رہے اور فقیری سے ہمیشہ اپنا رشتہ جوڑے رکھا ۔ سادگی ان کے مزاج میں اس درجہ پیوست تھی کہ ہمیشہ اس میں مگن رہے ۔ حسرت بڑے سچے اور نڈر انسان تھے جنھوں نے ہر جگہ بے خوف و خطر اور اپنے انجام سے بے پروا ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ حسرت جیسے قلندر مزاج مرد مجاہد ، باکمال شاعر اور بے باک صحافی جو صدیوں میں مشکل  سے پیدا ہوتے ہیں ۔ حسرت اردو شاعری کی آبرو ہیں ، اور غزل کے منفرد شاعر ہیں ۔ حسرت نے اپنی ساری مندگی فقیری اور خودداری میں گزاردی اور اس زندگی کا لطف اسی فقیری اور خودداری میں ہے جس کا مظاہرہ حسرت اور بیگم حسرت دونوں نے کیا ہے ۔

حسرت موہانی نے طویل عمر پائی ۔ حسرت کے دوست احباب کا حلقہ بہت وسیع تھا اور اس میں دولت مند اور اوسط درجہ کے لوگ شامل تھے اور سبھی لوگ حسرت کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے اور حسرت کی دل سے عزت کرتے تھے ۔ حسرت بھی اپنے دوست احباب اور اپنے چاہنے والوں کا بڑا احترام کرتے تھے ۔ حسرت کے امیروں اور دولت مند لوگوں سے بھی گہرے مراسم تھے ۔ وہ امیروں اور رئیسوں سے بھی ملتے اور غریبوں سے اکڑتے نہ تھے اور غریبوں اور مستحق لوگوں کی بروقت مدد کیا کرتے تھے ۔ یہ تھا شائستہ تہذیبی ورثہ جس کے حسرت تنہا وارث تھے ۔ قید و بند کی سختیوں نے ان میں ثابت قدمی، مستقبل مزاجی ، استقلال اور خودداری کا مادہ پیدا کردیا تھا ۔ جس کو وہ آخری دم تک اپنی زندگی کا ایک حصہ سمجھتے رہے ۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد مولانا حسرت موہانی یو پی اسمبلی اور مرکزی دستور ساز اسمبلی کے ممبربھی منتخب ہوئے مگر حسرت کی صحت 1949ء سے آہستہ آہستہ گرنے لگی تھی وہ کبھی بیمار پڑجاتے اور ٹھیک ہوجاتے تھے ۔ غرض یہ سلسلہ اسی طرح بہت دنوں تک چلتا رہا ۔ مولانا حسرت موہانی اپنی زندگی میں 13 حج کئے ۔ اور آخرکار 13 مئی 1951ء کو اپنی جان ، جان آفریں کے سپرد کردی اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے اور لکھنؤ کے انوار باغ کے فرنگی محل قبرستان میں آپ کے جسد خاکی کو سپرد لحد کردیا گیا ۔