حرمین میں وتر کی نماز

سوال : رمضان المبارک میں بہت سے لوگ عمرہ و زیارت کیلئے حرمین شریفین جاتے ہیں۔ عرض کرنا یہ ہے کہ حرمین میں نماز تراویح کے بعد وتر کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے اور امام صاحب دو رکعت پر سلام پھیردیتے ہیں۔ تیسری رکعت ایک اور سلام سے ادا کرتے ہیں۔ کیا حنفی حضرات حرمین شریفین میں وتر کی نماز امام کے پیچھے ادا کرسکتے ہیں یا نہیں ؟
حبیب محسن، نامپلی
جواب : احناف کے لئے وتر کی نماز میں شافعی وغیرہ امام کی اقتداء اس وقت جائز ہے جبکہ وہ وتر کی تینوں رکعتیں متصل پڑھیں یعنی دو رکعت کے بعد سلام نہ پھیریں۔ جو امام وتر میں دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے ہیں حنفی حضرات کا ان کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے۔ فتاوی امداد الفتاح المعروف بہ فتاوی شرنبلا لیہ ص : 428 میں ہے ۔ و یشترط لصحۃ الاقتداء بالشافعی و نحوہ فی الوتر وصل رکعاتہ الثلاثۃ فیؤدیہ بتسلیمۃ واحدۃ ، فان سلم علی راس رکعتین منہ لا یصح وھو قول الاکثر۔
چونکہ حرمین شریفین میں وتر کی نماز دو سلام کے ساتھ ادا کی جاتی ہے ۔ لہذا جو حنفی حضرات رمضان شریف میں عمرہ و زیارت کی غرض سے مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ جاتے ہیں ان کو چاہئے کہ وتر کی نماز تنہا ادا کریں۔ امام کی اقتداء نہ کریں۔

رمضان میں تہجد باجماعت پڑھنا
سوال : مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ ماہِ رمضان میں ہمارے یہاں نماز تہجد اور اجتماعی دعاوؤں کا اہتمام ہوتا ہے۔ نماز تہجد کی جماعت بھی ہوتی ہے ۔ ان کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیا ایسی دعاؤں اور نماز میں شرکت کرنا جائز ہے ؟
حافظ عبید اللہ، محبوب نگر
جواب : رمضان میں تہجد کی نماز باجماعت ادا کی جاسکتی ہے کیونکہ رمضان میں صحابہ کے نفل نماز باجماعت پڑھنے کا ثبوت ہے ۔ مذکور السوال دعاء اورنماز تہجد میں شرکت کی جاسکتی ہے۔

کن چیزوں پر کتنی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے
سوال : زکوٰۃ کن کن چیزوں پر واجب ہے اور ان کے نصاب کیا کیا ہیں ؟
احمد ولی اللہ ، مستعد پورہ
جواب : زکوٰہ چار قسم کے اموال پر فرض ہے : (1) سائمہ جانوروں پر (2) سونے چاندی پر (3) ہر قسم کے تجارتی مال پر (4) کھیتی درختوں کی پیداوار پر ، ( اگرچہ اصطلاحاً اس قسم کو عشر کہتے ہیں) ۔ ان اقسام کے نصاب علحدہ علحدہ ہیں۔
چاندی سونے اور تمام تجارتی مال میں چالیس واں حصہ زکوٰۃ فرض ہے ۔ چاندی کا نصاب دو سو درہم یعنی 425 گرام 285 ملی گرام ہے۔ اس سے کم چاندی پر زکوٰۃ نہیں۔ زکوٰہ تول کردینا چاہئے، درہم یا روپئے کی گنتی خلاف احتیاط ہے۔ سونے کا نصاب بیس مثقال یعنی 60 گرام 755 ملی گرام ہے۔ اس پر 40 واں حصہ زکوٰۃ فرض ہے۔ سونے چاندی کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے ۔ زکوٰۃ ادا کرتے وقت سونے چاندی کی جو قیمت ہو، اس کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی ۔ زکوٰۃ ادا کرتے وقت نقد رقم کے بجائے سونے یا چاندی کی زکوٰۃ اسی جنس میں بھی ادا کی جاسکتی ہے ۔ تجارتی مال کا نصاب بھی یہی ہوگا ۔ تجارتی مال وہ مال ہے جو فروخت کرنے کی نیت سے لیا ہو۔ اس کا نصاب مال کی قیمت کے اعتبار سے ہوگا ۔ یعنی اگر کل مال کی قیمت 425 گرام 285 ملی گرام چاندی یا 60 گرام 755 ملی گرام سونے کی قیمت کے برابر ہو یا اس سے زائد ہو تو سال گزر جانے پر اس کی زکوٰۃ ، چالیسواں حصہ دینا فرض ہے۔
چاندی سونے میں اگر کسی اور چیز کی ملاوٹ ہے مگر وہ غالب نہیں تو وہ کالعدم ہوگی ۔ اگر غالب ہے تو اس میں زیر نصاب جنس کی مالیت کی زکوٰۃ ہوگی ۔ سائمہ جانوروں کے بارے میں شرط ہے کہ وہ جنگلی نہ ہوں اور یہ کہ تجارت کی نیت سے پا لے جائیں۔ پانچ اونٹوں پر زکوٰۃ فرض ہے ۔ اس کے لئے ایک بکری ( نر یا مادہ) زکوٰۃ ہوگی ۔ پچیس اونٹوں میں ایک اونٹنی جس کا دوسرا برس شروع ہوچکا ہو۔
چھتیس اونٹوں میں ایک اونٹنی جس کا تیسرا برس شروع ہوچکا ہو۔ اسی طرح ایک خاص تعداد کے مطابق زکوٰۃ بڑھتی جائے گی جس کی تفصیل کتب فقہ میں آئی ہے ۔ گائے بھینس کے سلسلے میں تیس گایوں بھینسوں میں ایک گائے یا بھینس کا بچہ جوایک برس کا ہو۔ اسی طرح آگے تعداد بڑھنے پر ایک خاص شرح کے مطابق زکوٰۃ بھی بڑھتی جائے گی ۔ بھیڑ ، بکری میں چالیس کے لئے ایک بھیڑ یا بکری ، ایک سو سے زائد ہوں تو ہر سو میں ایک بکری۔

رمضان میں شاپنگ کے نام پر بے حیائی
سوال : ماہ رمضان میں مرد و خواتین کے شاپنگ کے حیلے سے بازاروں میں چہل قدمی اور بے حیائی عام ہوتے جارہی ہے جس سے مسلمانوں کی تہذیب اور ان کی طرز زندگی کا لوگوں پر غلط اثر ہورہا ہے۔ برائے کرم شریعت اسلامیہ میں حیاء کی جو تاکید آئی ہے وضاحت فرمائیں۔
نام ندارد
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے پہلے سے اہل عرب میں ‘ تمام تر شرافت و نجابت کے باوجود ‘ شرم و حیاء کا بہت کم رواج تھا‘ لوگ ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہونے میں قباحت نہ سمجھتے تھے‘ حتی کہ کعبہ کا طواف بھی بعض قبائل برہنہ ہوکر کرتے تھے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیدائشی طور پر شرم و حیا کا پیکر تھے۔ حضرت ابو سعیدؓ فرماتے ہیں : ’’ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشد حیاء من العذراء فی خدرھا ‘‘ (مسلم ‘ 4 : 1809 حدیث 2320 ) ‘ یعنی آپؐ پردہ دار دوشیزہ سے بھی زیادہ حیادار تھے ۔ آپؐ نے حیا کو ایمان کا شعبہ قرار دیا ہے (البخاری‘ 14:1 ‘ الایمان ‘ باب 16 ) ۔ آپؐ کے نزدیک حیاء ہی انسان کا اصل سرمایہ ہے‘ اگر وہ نہ رہے تو انسان جو چاہے کرے ’’ اذا لم تستحی فافعل ماشئت ‘‘ (البخاری ‘ کبا الادب ‘ ابو داؤد 149:5 ‘ حدیث 4797 ‘ ابن ماجہ ‘ حدیث 3418 ‘ احمد بن حنبل : مسند ‘ 273:5 ) ۔ فرط حیاء کا یہ عالم تھا کہ آپؐ عموماً قضائے حاجت کے لئے اتنی دور نکل جاتے کہ وہاں تک کسی دیکھنے والے کی نگاہ نہ پہنچتی … (ابو داؤد ‘ کتاب الطہارۃ) اور آپؐ اس وقت تک اپنا تہہ بند نہیں اٹھاتے تھے‘ جب تک آپؐ زمین پر بیٹھ نہ جاتے… یا اس کے قریب نہ ہوجاتے۔ اور اگر آپؐ کو کوئی ایسی بات کسی کو سمجھانا پڑتی تو آپؐ اشاروں کنایوں میں بات سمجھاتے ‘ گویا آپؐ نے اپنی گفتگو میںبھی کبھی ’’ فحش پن ‘‘ کو اختیار نہیں فرمایا (قاضی عیاض : الشفاء ‘ ص 52 ) … عموماً میت کو غسل دیتے وقت اس قسم کی بے احتیاطی ہوجاتی ہے‘ مگر آپؐ نے یہ دعا (گویا وصیت) فرمائی کہ اے اللہ ! اس کی آنکھیں پھوڑدے جو میرا ستر دیکھے ‘‘ (ابو داؤد : السنن) ‘ چنانچہ آپؐ کو کپڑوں سمیت غسل دیا گیا (ابو داؤد ‘ 2503:3 ‘ حدیث 3141 ‘ ابن ماجہ ‘ حدیث 1464 ) ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ اسلام میں حیاء کی کیا اہمیت ہے۔لیکن افسوس ہے کہ آج مسلم معاشرہ میں بے حیائی‘ بے پردگی روز بروز پروان چڑھتی جارہی ہے‘ جواسلامی روح کے خلاف ہے۔خصوصیت سے ماہ رمضان تو عبادتوں کا مہینہ ہے، اس مہینہ میں بے حیائی اور خلاف شرع بازاروں میں گھومنا اللہ کی رحمت سے محرومی کا باعث ہے۔

نابالغ کے مال پرزکوٰۃ کا حکم
سوال : میری لڑکی آٹھ سال کی ہے۔ میں اس کی شادی کے لئے سونا جمع کرتا ہوں، ہر سال دو تین تولہ سونا خریدتا ہوں۔ اب تک میں نے اس کے نام سے گیارہ تولے سونا جمع کیا اور وہی اس کو استعمال کرتی ہے۔ کیا ہر سال اس کی وجہ سے اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ؟ مجھے معلوم نہیں۔ اگر اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تو اب تک جتنے سالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کی گئی اس کی زکوٰۃ نکالنا ضروری ہے ؟
سید عبدالجلیل، مراد نگر
جواب : نابالغ لڑکا یا لڑکی پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ البتہ ان کی جانب سے صدقہ فطر کی ادائی اور قربانی واجب ہے ۔ ’’ الزکوٰۃ فرض علی المخاطب ‘‘ (قاضی خان مطبوعہ بر عالمگیری ج : 1 ، ص : 225 ) و اما شرائط الوجوب منھا الیسار و ھو ما یتعلق بہ وجوب صدقۃ الفطر دون ما یتعلق بہ وجوب الزکوۃ واما البلوغ والعقل فلیس بشرط حتی کان للصغیر مال یضحی عنہ ابوہ او وصیۃ من مالہ (عالمگیری ج : 4 کتاب الاضحیۃ) ۔صورت مسئول عنھا میں جو سونا خریدکر بچی کو دیا گیا ہے اگر بچی کو مالک بنایا گیا ہے تو بچی پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی ۔ اگر ملکیت ماں کی ہو صرف استعمال کے لئے بچی کو دیا گیا تو ایسی صورت میں ماں پر زکوٰ ۃ واجب ہوگی اور جس سال نصاب ہوا ، اس سال سے اب تک کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔

وتر کی قضاء
سوال : احادیث کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی کہ رات کی آخری نماز (نماز وتر) ہے۔ نیز وتر کی نماز تہجد کی نماز کی ادائیگی کے بعد پڑھنا بہتر ہے ۔ وغیرہ وغیرہ۔ زید ا لحمد و للہ ان روایات کے علم میں آنے کے بعد نماز وتر ’’ نماز تہجد کے بعد ادا کرنے کی ممکنہ کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں مزید چند ضروری معلومات کی ضرورت آپ کی طرف رجوع ہونے کی وجہ بنی ۔ امید کہ تشفی بخش معلومات فراہم کی جاکر مشکور فرمائیں گے۔ – 1 اگر نیند سے بیدار نہ ہو اور فجر کی اذاں ہوجائے تو کیا نماز وتر کی قضاء ادا کرنا ہوگا ۔ یعنی کیا نماز وتر کی قضاء ہے ؟ – 2 نماز وتر کی ادائیگی کے دوران فجر کی اذاں سنائی دے تو کیا نماز وتر ادا ہوجائے گی ؟ – 3 دوران رمضان تراویح کے بعد مساجد میں نماز وتر باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ کیا زید کو سابق کی طرح نماز تہجد کے بعد ہی نماز وتر ادا کرنا چاہئے یا نماز تراویح کے بعد باجماعت نماز وتر ادا کرنی چاہئے ؟ کونسا عمل افضل ہوگا ؟
عبدالاحد سعدی، بارکس
جواب : فرض نماز یا واجب نماز ترک ہوجائے تو اس کی قضاء لازم ہے اور واجب الوتر کا وقت عشاء کا وقت ہے، اس لئے فجر کے وقت میں کوئی وتر ادا کرے یا وتر فوت ہوجائے تو اس کی قضاء لازم ہے۔ رمضان المبارک میں تنہا واجب الوتر پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ باجماعت ادا کی جائے تاکہ جماعت کا ثواب بھی حاصل ہوجائے۔

جمعہ کی نماز میں بوقت اقامت کب کھڑا ہونا چاہئے
سوال : بعض مساجد میں جمعہ کے دن خطبہ ثانیہ کے بعد امام صاحب کی طرف سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ تمام اصحاب کھڑے ہوکر صف بندی کریں اور سل فون بند کرلیں۔ امام صاحب کے حکم کی بناء ۔ عموماً تمام لوگ صف بندی کرتے ہیں البتہ بعض اصحاب بیٹھے رہتے ہیں اور حی علی الفالح کے وقت کھڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے صف بندی میں خلل پیدا ہوجاتا ہے اور بعد میں پیچھے سے لوگ صف بندی کرتے ہیں۔ اقامت کے وقت کھڑے رہنے والوں کا عمل درست ہے یا بیٹھنے والوں کا عمل صحیح ہے ؟
براہ کرم تشریح شریعت کے مطابق فرمائیں تو مناسب ہے
محمد مصلح الدین، ملے پلی
جواب : عام پنجوقتہ نمازوں میں بوقت اقامت امام مصلی کے قریب موجود ہو تو امام اور مقتدی سب کو حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا چاہئے اور اقامت کے وقت امام مصلی کے پاس موجود نہ ہو پیچھے سے آرہا ہو تو جس صف سے وہ گزرے وہ صف کھڑی ہوجائے اور یہ حکم آداب نماز سے ہے ۔ مراقی الفلاح ص 135 فصل من آدابھا میں ہے : (و) من الادب (القیام) ای قیام القوم والامام وان کان حاضر اتقرب المحراب (حین قیل) ای وقت قول المقیم (حی علی الفلاح) لأنہ أمربہ فیجاب وان لم یکن حاضرا یقوم کل صف حتی ینتھی الیہ الامام فی الاظھر۔ البتہ جمعہ کی نماز میں امام خطبہ ختم کرتے ہی اقامت شروع کردینی چاہئے۔ امام کو خود بیٹھنے کا موقع نہیں رہتا اور جب امام کھڑے رہے تو سارے مقتدیوں کو کھڑے ہوکر صف بندی کرنی چاہئے۔