حدیث

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب میری امت کے لوگ تکبر کی چال چلنے لگیں گے اور بادشاہوں کے بیٹے کہ وہ فارس و روم کے شاہزادے ہوں گے، ان کی خدمت کریں گے (بایں طور کہ اللہ تعالی اہل فارس و روم کے علاقوں اور شہروں کو مسلمانوں کے زیر نگیں کردے گا اور وہ فتوحات حاصل کریں گے تو اس کے نتیجے میں ان علاقوں اور شہروں کے نہ صرف عام آدمی، بلکہ بادشاہ و شاہزادے بھی قیدی بنائے جائیں گے اور مسلمان ان سب کو بطور غلام اپنی خدمات پر مامور کریں گے، تو ایسی صورت میں اللہ تعالی امت کے برے لوگوں کو بھلے لوگوں پر یعنی ظالموں کو مظلوموں پر) مسلط کردے گا‘‘۔ (ترمذی)

یہ حدیث شریف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے، کیونکہ آپﷺ نے اس حدیث کے ذریعہ ایک ایسی بات کی خبر دی، جو آئندہ زمانہ میں وقوع پزیر ہونے والی تھی اور آپ نے بطور پیش گوئی جو بات فرمائی وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔ چنانچہ یہ بات اسلامی تاریخ کی ایک عین حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے فارس و روم کے علاقے فتح کرلئے، وہاں کی بے شمار دولت مال غنیمت کے طورپر حاصل کی، ان علاقوں اور شہروں کے لوگوں کو قیدی بنایا اور بادشاہوں کی اولادوں تک کو غلام بناکر ان سے خدمت و چاکری کرائی۔ اس طرح ان کے اندر جب بڑائی کا احساس پیدا ہو گیا اور اخلاص کی جگہ جاہ و منصب اور مال و دولت کی محبت نے لے لی تو پھر اللہ تعالی نے ان پر ظالموں کو مسلط کردیا۔
حدیث شریف میں ’’مطیطاً‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی ’’دونوں ہاتھ پھیلاکر اتراتے ہوئے (یعنی مغرورانہ چال) چلنا۔ اسی سے لفظ ’’مط‘‘ ہے، جس کے معنی ازراہِ نخوت و تکبر ناک بھوں سکیڑنے اور اَبرو چڑھانے کے ہیں۔