حج بدل بیٹا کرے یا کوئی اجنبی بھی کرسکتا ہے

سوال : حج بدل ‘ والد مرحوم کے نام سے کرانا ہو تو خود بیٹے کو کرنا چاہئے یا کسی حاجی کو ہی اس نیک کام کیلئے بھیجنا چاہئے تاکہ صحیح ارکان و مناسک ادا کرسکے یا کوئی رشتہ دار یا جانے پہچانے کے ذریعہ حج بدل کرواسکتے ہیں ؟ جواب تک حج نہ کیا ہو۔ میرا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی حج نہ کیا ہو تو اس کا بھی حج ہوجائے گا اور حج بدل بھی ہوجائے گا‘ اس طرح میرا مقصد بھی پورا ہوگا اور ایک غریب کا فائدہ بھی ہوجائے گا۔
معین احمد، ورنگل

جواب : ایک صحابی رسول نے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میری والدہ انتقال کر گئی ہیں کیا میں ان کی طرف سے حج بدل ادا کرسکتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی ماں کی طرف سے حج بدل کرنے کی اجازت دی‘ چنانچہ محیط سرخسی ص : 119 میں ہے : ولو احج ا لوارث عنہ رجلا اوحج عن نفسہ سقط عن المیت حجۃ الاسلام ان شاء اللہ لما روی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سألہ رجل وقال ان امی ماتت ولم تحج افأ حج عنھا فقال علیہ السلام نعم
پس امام سرخسی نے مذکور الصدر کتاب میں وضاحت کی ہے کہ وارث (مثلا بیٹا) اپنے ماں باپ کی طرف سے خود حج بدل کرسکتا ہے یا کسی دوسرے سے بھی حج بدل کرواسکتا ہے اور دوسرے میں اس کے قریبی رشتہ دار اور اجنبی سب داخل ہیں۔ تاہم کسی ضرورت مند سے حج بدل کروائیں تو وہ مرحوم کی طرف سے حج بدل کی نیت کے ساتھ اپنے حج کی نیت نہیں کرسکتا‘ وہ صرف مرحوم کی طرف سے حج بدل کی نیت کریگا۔ ردالمحتار جلد 2 ص 661 مطلب شروط الحج عن ا لغیر عشرون مطبعہ دارالفکر بیروت میں ہے : الخامس عشر : أن یحرم بحجۃ واحدۃ فلوأ ھل بحجۃ عن الأمرثم باخری عن نفسہ لم یجز الا ان رفض الثانیۃ۔ البتہ آپ کے والد مرحوم فریضہ حج ادا کرچکے تھے اور آپ اب ان کے ایصال ثواب کیلئے حج کرنا چاہتے ہیں یا کسی کو کروانا چاہتے ہیں تو اسی صورت میں آپ کسی ضرورت مند کے فرض حج کا انتظام کردیں اور وہ اپنا فرض حج ادا کرے اور اس کا ثواب آپ کے والد مرحوم کیلئے ایصال کردیں تو یہ شرعاً جائز ہے ورنہ ایک ساتھ فرض حج اور حج بدل کا احرام باندھنا شرعاً درست نہیں۔ درمختار باب الحج عن ا لغیر جلد دوم میں ہے : الأصل أن کل من أتی بعبادۃ مالہ جعل ثوابھا لغیرہ وان نواھا عندالفعل لنفسہ بظاہر الادلہ واما قولہ تعالیٰ: وان لیس للانسان الا ماسعی ای الا اذا وھبہ لہ ۔ اور ردالمحتار میں قولہ : (بعبادۃ ما) کے تحت ہے: ای سواء کانت صلاۃ أوصوما أوصدقۃ أوقراء ۃ أو ذکرا أو طوافاً أو حجا أو عمرۃ أو غیر ذلک الخ۔

شوہر سے نااتفاقی اور حج کو روانگی
سوال : میری بیٹی اور داماد دونوں ملکر تین سال سے مسلسل میرے ساتھ حج کیلئے درخواست دیتے آرہے ہیں۔ مگر تین سالوں میںبھی ہمارا نام نہیں آیا۔ اب چوتھی بار 2013 ء میں بغیر ڈرا کے نام آجائے گا ۔ میںاور میری بیٹی آئندہ سال حج پر جانے کی پوری تیاری کرلئے ہیں ۔ مگر افسوس کہ میری بیٹی اور داماد میں حالات بگڑ گئے ہیںاور وہ لوگ میری بیٹی کو لاکر میرے گھر چھوڑدیئے ہیں اور لڑکی بھی واپس جانا نہیں چاہتی۔ حج پرجانے کیلئے مزید ایک سال سے زیادہ وقت ہے پتہ نہیں اس عرصہ میں کیا حالات ہوں گے ۔ اگر حالات بہتر ہوں گے تو سفر حج کی خوشیاں لوٹ آئیں گی ورنہ ان تین سال کی محنت کا کیا حل نکلے گا اللہ اور اللہ کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ ان تمام حالات میں کیا میں اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ آئندہ سال 2013 ء میں حج پر لے جاسکتا ہوں یا نہیں ؟
مکرم الدین، شاہ گنج
جواب : عورت کے لئے سفر حج میں شوہر یا عاقل و بالغ محرم دو میں سے کسی ایک کا ہونا شرط ہے۔در مختار جلد 2 صفحہ 510 مطبعہ دار الفکر بیروت کتاب الحج کے آغاز میں ہے: (و) مع (زوج أومحرم) ولو عبدا أوذمیا أوبرضاع (بالغ عاقل والمراھق کبالغ) اور عورت کے سفر حج میں اس کا محرم ساتھ ہو تو پھر شوہر بیوی کو فریضہ حج ادا کرنے سے منع نہیں کرسکتا۔ اسی میں ہے : ولیس لزوجھا منعھا عن حجۃ الاسلام اور رد المحتار میں ہے : (ولیس لزوجھا منعھا) أی اذا کان معھا محرم والا فلہ منعھا کما یمنعھا عن غیر حجۃ الاسلام۔
پس صورت مسئول عنہا میں آپ کی صاحبزادی اپنا فریضہ حج ادا کر رہی ہوں اور اس کے سفر حج میں آپ (والد) ساتھ ہوں تو وہ حج پرجاسکتی ہیں۔ محرم ساتھ ہونے کی صورت میں شوہر کو منع کرنے کا حق نہیں ہے۔

گاڑی فروخت کرنے پر کمیشن لینا
سوال : مجھے میری آمدنی کے بارے میں کچھ شک و شبہ ہے ‘ میری مصروفیت یہ ہے کہ میں گاڑی ‘ مکان ‘ پلاٹ کے مالکین سے گفتگو کرتا ہوں اور ان کیلئے خریدار فراہم کرتا ہوں اور جب خریدار گاڑی ‘ زمین یا مکان خرید لیتا ہے تو میں اپنا نفع ان سے حاصل کرتا ہوں۔ عموماً اس کو کمیشن کہتے ہیں۔ اس طرح کا عمل شرعی لحاظ سے درست ہے یا نہیں ۔
عزیز احمد، مراد نگر
جواب : اگر کوئی شخص گاڑی ‘ زمین یا مکان کی خریدی میں کسی کی مدد کر رہا ہے۔ اس کی خاطر اپنا وقت دے رہا ہے اور اس کا معاوضہ لے رہا ہے ۔ دوسرے معنی میں وہ بحیثیت ایجنٹ کام کر رہا ہے اور کمیشن لے رہا ہے تو شرعاً یہ جائز ہے۔ عالمگیری جلد 4 ص : 441 میں ہے : واذا أخذ السمسار أجر مثلہ ھل یطیب لہ ذلک تکلموا فیہ قال الشیخ الامام المعروف بخواھرزادہ یطیب ذلک و ھکذا عن غیرۃ والیہ اشار محمد رحمہ اللہ تعالیٰ فی الکتاب ھکذا فی فتاوی قاضی خان۔

بیوی کی تجہیز و تکفین کے مصارف
سوال : ہمارے عزیزوں میں ایک خاتون کا انتقال ہوا ‘ وہ صاحب جائیداد تھیں‘ ان کے شوہر با حیات ہیں اور ان کو تین لڑکے ہیں جو ماشاء اللہ اچھا کماتے ہیں۔ بیوی کے انتقال کے بعد ان کی تدفین کے بارے میں کچھ دقت پیش آئی۔ ان کے آبائی قبرستان میں جگہ تھی لیکن ایک قبر کیلئے ذمہ دار حضرات نے تقریباً چالیس ہزار روپئے کا مطالبہ کیا ۔ بالآخر وہ رقم شوہر نے ادا کردی ۔ اس طرح تجہیز و تکفین کے اخراجات کی تکمیل ہوئی۔ تقریباً پچپن ہزار روپئے تجہیز و تکفین پر خرچ ہوئے ۔ اب مرحومہ کی جائیداد تقسیم ہونے والی ہے ۔ شوہر کا کہنا ہیکہ تجہیز و تکفین پر جو رقم خرچ ہوئی ہے وہ رقم ان کو ان کے حصہ کے علاوہ ادا کی جائے ۔ ایسی صورتحال میں شرعی احکام کیا ہے۔ مطلع فرمائیں۔
محمد الیاس ، دبیرپورہ
جواب : بیوی کی تجہیز و تکفین کے مصارف ازروئے شرع شوہر پر واجب ہیں۔ اگرچہ بیوی مالدار کیوں نہ ہو اور شریعت میں یہ قاعدہ مقرر ہے کہ زندگی میں جس پر نفقہ واجب ہے۔ وفات کے بعد اس کی تجہیز و تکفین کے مصارف بھی اسی پر واجب رہیں گے ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 1 میں ہے : واختلف فی الزوج والفتوی علی وجوب کفنھا ان ترکت مالا اور ردالمحتار کے اسی صفحہ میں ہے : الاصل فیہ أن من یجبر علی نفقتہ فی حیاتہ یجبر علیھا بعد موتہ ۔
پس مرحومہ کی تجہیز و تکفین کے مصارف شوہر کے ذمہ رہے۔ شوہر کو مقررہ حصہ رسدی کے علاوہ تجہیز و تکفین کے مصارف متروکہ مرحومہ سے نہیں ملیں گے۔

مرحوم کی ناراضگی کو دور کرنا
سوال : زید کا انتقال ہوگیا، زید خالد نامی شخص سے ناراض تھا اور خالد کو ناراضگی کی وجہ معلوم تھی تو اب خالد زید کی ناراضگی کو دور کرنا چاہے تو کیا طریقہ اپنانا چاہئے ؟
محمد فیروز، فلک نما
جواب : موت و حیات کا بھروسہ نہیں، اس لئے کسی شخص سے اختلاف ہوجائے یا دلوں میں کدورت و ناراضگی پیدا ہوجائے تو حتی المقدور پہل کرتے ہوئے اپنی رنجش کو دور کرلینا چاہئے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : لیس الواصل المکافی ولکن الواصل الذی اذا انقطعت رحمہ و صلھا (ترمذی) ترجمہ : صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو صلہ رحمی کے عوض میں حسن سلوک کرتا ہو ، حقیقت میں صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب اس سے تعلق منقطع ہوجائے تو وہ اس تعلق کو قائم کرلے اور اگر صلح صفائی سے قبل کوئی شخص انتقال کرجائے اور وہ کسی معقول وجہ سے کسی دوسرے شخص سے ناراض تھا تو مرحوم کی ناراضگی کو دور کرنے کیلئے دعاء مغفرت کرتے رہے اور ہوسکے تو ایصال ثواب کا اہتمام کرے۔

حج کے بعض امور میں مرد و خواتین کیلئے علحدہ احکام
سوال : حج اور عمرہ کے دوران صفا و مروہ کی سعی میں دو سبز میل ہوتے ہیں‘ ان سبز میل کے درمیان تیزی سے چلنے دوڑنے کا حکم ہے۔ کیا یہ حکم عمر رسیدہ خواتین کیلئے بھی ہے ؟ یا ان کیلئے کچھ گنجائش ہے کیونکہ میری عمر ساٹھ سال سے متجاوز ہے اور میرا وزن بھی زیادہ ہے‘ خود میرا چلنا دشوار ہے۔ ایسی حالت میں ان دوہرے میل کے درمیان میرا تیزی سے چلنا نہایت دشوار و تکلیف دہ ہے ۔ اگر آپ اس سلسلہ میں شرعی احکام سے واقف فرمائیں تو مہربانی ہوگی ؟
وجیہہ بیگم، مہدی پٹنم
جواب : حج کے ارکان و اعمال مرد و خواتین کیلئے یکساں ہے‘ تاہم چند امور میں خواتین کیلئے علحدہ احکامات ہیں۔ مثلاً مرد حضرات کو تلبیہ بہ آواز بلند پڑھنا چاہئے اور عورت ایسی آواز میں پڑھے گی کہ صرف اسی کو سنائی دے۔ اسی طرح طواف قدوم میں مرد کو رمل کرنے کا حکم ہے ‘ خواتین کو نہیں۔ نیز صفا و مروہ کی سعی کے دوران دو سبز میل کے درمیان تیزی سے دوڑنا مردوں کیلئے ہے‘ خواتین کیلئے مطلق نہیں۔ خواہ وہ عمر رسیدہ ہوں یا نہ ہوں۔ اسی طرح عورتوں پر حلق نہیں ہے ‘ وہ صرف قصر (بال کم ) کریں گی ۔ عالمگیری جلد 1 ص : 235 میں ہے : ولا ترفع صوتھا بالتلبیۃ کذا فی الھدایۃ بل تسمع نفسھا لا جماع العلماء علی ذلک کذا فی التبیین ولا ترمل ولا تسعی بین المیلین ولا تحلق رأسھا ولکن تقصر۔

بہو کو زکوۃ دینا
سوال : زید بیروزگار ہے ، اس کے بیوی بچے اور وہ خود باپ کے زیر پرورش ہیں، زید کے والد وظیفہ یاب ہیں، وہ ہر ماہ حکومت کی جانب سے بینک میں جمع ہوتا ہے ، جہاں سے وظیفہ یاب اپنی پنشن حاصل کرتاہے ۔ جزوی طورپر پس اندازی کے طور پر بینک میں اس قدر رقم جمع ہوجاتی ہے جس پر زکوۃ واجب ہوجاتی ہے۔ کیا یہ زکوۃ کی رقم زید کی بیوی کو دی جاسکتی ہے ؟
وکیل احمد، مشیرآباد
جواب : بہو کو زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے ۔ بشرطیکہ وہ مستحق زکوٰۃ ہو یعنی اس کے پاس نصاب کے برابر سونا چاندی یا اس کی مقدار میں سرمایہ نہ ہو ۔ بہ الفاظ دیگر اس پر خود زکوۃ قرض نہ ہو تو اس کو زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔