حالی کی علمی مخالفت

سید تقی عابدی
حالی کی علمی مخالفت ادیبوں اور شاعروں کا مرغوب مشغلہ تھا ۔ اگرچہ سرسید ، شبلی نعمانی ، ڈپٹی نذیر احمد اور علامہ اقبال کی طرح حالی پر کفر کا فتوی نہیں لگایا گیا مگر حالی کی شخصیت اور فن کو مسلسل نشانہ بنایا گیا  ۔ حالی کے دور کے سیاہ اوراق بھی موجود ہیں ۔ مذہبی لوگ حالی کو سرسید کی بانسری اور نیچری کہتے تھے ۔ حالی نے جو اردو شاعری کی پاکیزگی کی مہم کو اپنا شعار بنایا تھا وہ بہت سے شاعروں اور ادیبوں کو کھلتا تھا ،کیونکہ وہ حالی کو اہل دل اور لکھنوی نہیں مانتے تھے ۔وہ حالی کو پانی پت کا ایک معمولی شاعر جانتے تھے ۔ دلّی دلّی کیسی دلّی ۔ پانی پت کی بھیگی بلی ۔ حالی کی مخالفت ان کی موضوعاتی نظموں سے شروع ہوچکی تھی ۔ مسدس حالی کی عوام میں پذیرائی ان کے مخالفین کے لئے خطرے کی گھنٹی محسوس ہورہی تھی ،جو فن برائے فن وہ بھی بطور تفنن کے قائل تھے ۔ حالی ایسی شاعری کی عفونت میں سنڈاس سے بدتر بتارہے تھے اور ایسے شاعروں کی موجودگی یا غیر موجودگی سے متاثر نہ تھے جیسا کہ انہوں نے مسدس میں اعلانیہ کہا تھا  ۔
یہ ہجرت جو کر جائیں شاعر ہمارے
کہیں مل کے خس کم جہاں پاک سارے
مقدمہ شعر و شاعری میں چوما چاٹی  کی شاعری پر شدید ردعمل نے لکھنؤ اور دلی کے رومانی شعراء کو حالی کے مقابل کردیا ۔ حالی کو درجنوں دشنام اور نازیبا خطوط ملنے لگے ۔ مختلف روزنامے اور رسالے مستقل طور پر حالی کے خلاف صف آراء ہوگئے جن میں حسرت موہانی کا اردوئے معلی ، سجاد حسین لکھنوی کا اودھ پنچ پیش پیش تھے ۔ حالی کے خلاف سوقیانہ ہجو لکھی جانے لگیں  ۔ اودھ پنچ کے سرورق پر کئی سال تک یہ شعر چھپتا رہا ۔
ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے
میدان پانی پت کی طرح پائمال ہے

حالی کو خالی ، جعلی ، مالی ، خیالی اور ڈفالی جیسے ناموں سے یاد کیا جانے لگا ۔ لکھنؤ اور دلی کے اہل زبان کہتے تھے یہ پانی پتی شخص کس جرأت سے اہل زبان کے ہم زبان ہی نہیں بلکہ مسیحائے زبان ہونے کی کوشش کررہا ہے ۔ حالی ان تمام باتوں کا خاموشی سے جواب دے رہے تھے اور ہمہ تن دن رات چمنستان شعر کی پاکیزگی میں مصروف تھے ۔ اردو دنیا اور دنیائے ادب کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معاصرین پر تخریبی تنقید نظر آتی ہے جیسے والٹیر کا حملہ شکیسپئر پر ۔ گوئٹے کا حملہ دانتے پر ۔ رشید و طواط کا حملہ خاقانی پر ۔ فرخی کا حملہ فردوسی پر ۔ احراری کا حملہ سعدی پر ۔ سودا کا حملہ میر پر ۔ شیفتہ کا حملہ نظیر پر ۔ رجب علی بیگ کا حملہ میر امن پر وغیرہ ۔ چنانچہ ہر ادب اور ہر دور میں تخریبی تنقید نظر آتی ہے ۔ یہاں ہم حالی کے چند معاصرین کی معاندانہ تنقید کو مستند حوالوں سے درج کرتے ہیں ۔
حسرت موہانی اردوئے معلی میں حالی پر سخت اعتراضات کرتے تھے ۔ ایک اسی قسم کا واقعہ تذکرہ حالی میں شیخ اسماعیل پانی پتی نے یوں لکھا ہے:۔
’’علی گڑھ کالج میں کوئی عظیم الشان تقریب تھی ۔ نواب محسن الملک کے اصرار پر مولانا حالی بھی اس میں شرکت کے لئے تشریف لائے اور حسب معمول سید زین العابدین مرحوم کے مکان پر فروکش ہوئے ۔ ایک صبح حسرت موہانی دو دوستوں کے ساتھ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ چند ادھر ادھر کی باتیں ہوا کیں  ۔اتنے میں سید صاحب موصوف نے بھی اپنے کمرے میں سے حسرت کو دیکھا ۔ ان میں لڑکپن کی شوخی اب تک باقی تھی ۔ اپنے کتب خانے میں گئے اور اردوئے معلے کے دو تین پرچے اٹھالائے ۔ حسرت اور ان کے دوستوں کا ماتھا ٹھنکا کہ اب خیر نہیں ۔ اور اٹھ کر جانے پر آمادہ ہوئے مگر زین العابدین کب جانے دیتے تھے ۔ خود پاس بیٹھ گئے ایک پرچے کے ورق الٹنا شروع کئے اور مولانا حالی کو محاطب کرکے حسرت اور اردوئے معلے کی تعریفوں کے پل باندھ دئے ۔ کسی کسی مضمون کی دو چار سطریں پڑھتے اور واہ خوب لکھا ہے کہہ کر داد دیتے ۔ حالی بھی ہوں ہاں سے تائید کرتے جاتے تھے ۔ اتنے میں سید صاحب مصنوعی حیرت بلکہ وحشت کا اظہار کرکے بولے ’’ارے مولانا دیکھئے آپ کی نسبت کیا لکھا ہے ۔ اور کچھ اس قسم کے الفاظ پڑھنا شروع کئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ حالی سے بڑھ کرمخرب زبان کوئی نہیں ہوسکتا ۔ اور وہ جتنی جلدی اپنے قلم کو اردو کی خدمت سے روک لیں اتنا ہی اچھا ہے۔ فرشتہ منش حالی ذرا مکدر نہیں ہوئے اور مسکراکر کہا کہ نکتہ چینی اصلاح زبان کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ کچھ عیب میں داخل نہیں ۔ کئی روز بعد ایک دوست نے حسرت سے پوچھا اب بھی حالی کے خلاف کچھ لکھوگے ؟ جواب دیا جو کچھ لکھ چکا اسی کا ملال اب تک دل پر ہے ۔ حالی کا یہ ضبط اور اعلی ظرفی بڑے بڑے مخالفوں کو شرمندہ اور نکتہ چینوں کو پشیمان کردیتی تھی ۔

جب حالی کی شاہکار کتاب ’’حیات جاوید‘‘ شائع ہوئی تو شبلی نعمانی نے اس کی سخت مخالفت کی ۔ مولوی عبدالحق چند ہم عصر میں لکھتے ہیں ’’میں نے حیات جاوید کا ایک نسخہ ان کو دیا تو دیکھتے ہی فرمایا ۔ یہ کذب و افترا کا آئینہ ہے‘‘ ۔ یہ جملہ سن کر عبدالحق دم بخود رہ گئے کیونکہ پڑھنے سے پہلے ایسی سخت رائے کیا معنی رکھتی تھی ۔ شبلی حبیب الرحمن خان شروانی کے خط میں حیات جاوید کو کتاب المناقب لکھتے ہیں ۔ ایک اور خط میں شروانی کو لکھتے ہیں وہ محض دعوے کرتے ہیں واقعات کی شہادت پیش نہیں کرتے ۔بہرحال میں حیات جاوید کو مدلل مداحی سمجھتا ہوں ۔ شبلی اپنے شاگرد عبدالسمیع کو حیات جاوید پر منفی ریویو لکھنے کے بعد لکھتے ہیں ’’میں کچھ مزید نہیں کہنا چاہتا تم مقلد نہیں مجتہد ہو پھر تقلید کیوں؟‘‘۔اب آئینے کا دوسرا رخ حالی کا کیریکٹر دیکھئے جسے عبدالحق نے اپنی کتاب چند ہم عصر میں دکھایا ہے ۔
’’ایک روز مولوی ظفر علی خاں مولانا حالی سے ملنے آئے اس زمانہ میں وہ ’’دکن ریویو‘‘ نکالتے تھے ۔ کچھ عرصہ پہلے اس رسالے میں ایک دو مضمون مولانا شبلی کی کسی کتاب یا رسالے پر شائع ہوئے تھے ان میں کسی قدر بے جا شوخی سے کام لیا گیا تھا۔ مولانا نے اس کے متعلق ظفر علی خاں صاحب سے ایسے شفقت آمیز پیرائے میں نصیحت کرنی شروع کی کہ ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور سرجھکائے آنکھیں نیچی کئے چپ چاپ سناکئے ۔ مولانا نے یہ بھی فرمایا کہ میں تنقید سے منع نہیں کرتا ، تنقید بہت اچھی چیز ہے اور اگر آپ لوگ تنقید نہ کریں گے تو ہماری اصلاح کیوں کر ہوگی ، لیکن تنقید میں ذاتیات سے بحث کرنا یا ہنسی اڑانا منصب تنقید کے خلاف ہے  ۔وحید الدین سلیم پانی پتی جنہیں حالی نے دنیائے اردو میں معروف کیا وہ بھی حیات جاوید کے بارے میں صدر یار جنگ حبیب الرحمان خان شروانی کو لکھتے ہیں ’’حالی نے دیباچہ میں جس امر کا وعدہ کیا وہ اس کو ایک شمہ بھی پورا نہیں کرسکے  ۔جہاں انہوں نے سرسید کی تفسیر کی بحث کی ہے یہ کہتے ہوئے کہ بحث طولانی ہوجائے گی ادھورا چھوڑ دیا ہے‘‘۔
بقول رشید حسن خان کہ حالی کو غالب کے بہت واقعات کا علم تھا وہ اگرچہ اپنے طور پر ان کو لکھتے تو بعض ایسی باتیں ضرور بیان میں آجاتیں جو ان کے نزدیک وضاحت طلب نہیں تھیں ۔ اس الجھن اور اس کشمکش سے چھٹکارا حاصل کرنے کا یہ طریقہ انہوں نے اختیار کیا کہ بعض اہم واقعات کے بیان میں اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے خود مرزا صاحب کے بیانات کو نقل کردیا ۔ اس طور پر سوانح نگار کی حیثیت سے ان کے کسی بیان کا جائزہ نہیں لیا ۔ اس طریقہ کار نے کئی واقعات کی واقعی شکل و صورت کو سامنے نہیں آنے دیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ لعن طعن ، گالی ، دشنام ، طنز، اعتراضات کے طوفان کو حالی نے ایک نرالے طریقے سے زیر کیا  ۔
کیا پوچھتے ہو کیونکر سب نکتہ چیں ہوئے چپ
سب کچھ کہا انہوں نے پر ہم نے دم نہ مارا
لیکن جیسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے مخالفت کا یہ طوفان جو خس و خاشاک کی کائنات تھا جلد ہی دب گیا اور حالی کی عظمت اور شان اپنی جگہ قائم رہی ۔

غل تو بہت یاروں نے مچایا پر گئے اکثر مان ہمیں
اردو تنقید پر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کے ناقدین عموماً سکے کے دو رخ پیش نہیں کرتے یا تو سراسر مدح ہوگی یا پھر ہر لفظ میں ذم و قدح کا پہلو ہوگا ۔ حالی کی حیات جاوید پر اعتراض کرتے ہوئے شبلی نعمانی نے کہا تھا یہ کتاب المناقب ہے مدلل مداحی ہے ، جب کہ خود شبلی نے جب مولانا انیس یا دبیر لکھا تو انیس کی مداحی اور دبیر کی قداحی لکھی ۔ حالی نے اپنی تینوں سوانح عمریوں میں یعنی حیات سعدی ، یادگار غالب اور حیات جاوید ان تینوں بزرگوں کی مدحت آرائی کی اور خود اس بات کا اقرار بھی کیا ہے کہ ابھی برصغیر میں کریٹکل بیوگرافی کا وقت نہیں آیا ہے  ۔ہم کہتے ہیں حالی سے تسامح ہوا ہے اگر وہ تذکرے دیکھ لیں تو معلوم ہوگا کہ تذکرہ نویس نے کسی طرح تخلیق کار کی شخصیت اور تخلیق کا ناحق خون کیا ہے ۔ کیا حالی کے استاد مصطفی خان شیفتہ نے نظیر اکبرآبادی کے ساتھ ظلم نہیں کیا ؟ کیا گلشن بے خار ، خار داری کی وجہ سے گلشن بے کار نہیں ہوا ؟ اصل تخلیق کار ایک پہاڑ ہوتا ہے اگر نقاد اس سے سرٹکرائیں تو سر پھوٹتا ہے پہاڑ نہیں ٹوٹتا ۔ ہم نے حالی کی شاعری اور ان کے نثری کلام پر ناقدین کے دونوں رخ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جن نقادوں نے رسمی طور پر تعریف کے دو جملے لکھ کر منفی بافی کا دفتر کھولا ہے جس میں انصاف سے کام لینے کی بجائے ذاتی فکر و تجربے سے اخذ کردہ تنقیص اور زم کا پہلو دکھایا گیا ہے جو علمی ، عقلی اور منطقی حوالوں سے ثابت نہیں ہوسکتا ہے ۔ ان ناقدین میں احسن فاروقی ، وحید قریشی اور کلیم الدین احمد سرفہرست ہیں ۔ ان ناقدوں نے نوکِ خار سے گل تخلیق کو تار تار کرنے کی ناکام کوشش کی ہے ۔
حالی کے منظوم اور نثری کلام پر کئی تبصرہ نگاروں نے کلیم الدین احمد کے تند و تیز جملے نقل کئے جنہیں بعض مقامات پر توڑ مروڑ کر کچھ جوڑ کر اور کچھ چھوڑ کر اس طرح بیان کیا کہ مسائل پر پوری روشنی نہیں پڑسکی اس لئے ہم نے کلیم الدین احمد کے ایک طویل مضمون حالی سے جو ان کی کتاب ’’اردو تنقید پر ایک نظر میں‘‘ شامل ہے اقتباسات بغیر کسی متن کی تحریف کے یہاں لکھ کر حالی کے مقدمہ اور شعر و شاعری کے بارے میں ان کا نظریہ پیش کررہے ہیں جہاں وہ حالی کی معمولی سی مغربی شاعری اور تنقید کی سہل نگاریوں یا ان سے واقفیت کو جرم سنگین بتا کر ان کی شخصیت اور تصنیف کا بہیمانہ قتل کرتے ہیں ۔ ان کی تنقید دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ انہوں نے حالی کے تمام ترکلام کا مطالعہ کیا ہے۔ شعر کی تاثیر کو ثابت کرنے کے لئے جو مثالیں حالی نے دیں کیا وہ آج بھی ضرب المثل نہیں ہیں۔ یہاں کون ناسمجھ ہے ۔ذیل کی عبارت پڑھ کر فیصلہ کیا جاسکتا ہے ۔

شعر کی تاثیر کو ثابت کرنے کے لئے وہ بہت سی مثالیں بھی دیتے ہیں ۔ چھ مثالوں سے ان کی ناسمجھی ظاہر ہوتی ہے لیکن اس ناسمجھی سے قطع نظر یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ جس تاثیر کا وہ ذکر کرتے ہیں وہ ہم نہیں ۔ شعر کا مقصد جذبات کو بھڑکانا نہیں ہے ۔ شاعری جذبات کی تعلیم و تربیت کرتی  ۔ انہیں برانگیختہ نہیں کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری کا اثر ہنگامی نہیں پائیدار ہوتا ہے ۔ اس سے ہماری روحانی ، جذباتی اور جسمانی زندگی خوشگوار ہوجاتی ہے  ۔ اچھے شعر جذبات کا بھڑکاتے نہیں ہیں اور جو شعر جذبات کو بھڑکاتے ہیں وہ اچھے نہیں ہوتے ہیں ۔ اصل یہ ہے کہ حالی کا معیار مادی ہے ۔وہ شعر کو زیادہ اہم نہیں سمجھتے ہیں ۔ اس غلط فہمی کا سبب یہی مادی معیار ہے وہ شعر کی تاثیر اور اس کے فائدہ کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اس خوش فہمی کا سبب بھی یہ مادی معیار ہے ۔ شعر کی ماہئیت سے بھی وہی بے خبری ہے جو شعر کی اہمیت سے تھی  ۔ حالی صرف میکالے کا قول نقل کرتے ہیں ۔ میکالے کی نقاد کی حیثیت سے کوئی وقعت نہیں ۔ اس کے قول کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں میکالے کے خیال میں (اور یہ خیال بھی ماخوذ ہے) ’’شاعری ایک قسم کی نقالی ہے ۔ یہ نقالی فن مصوری یا نقاشی کے مقابلہ میں نامکمل ہے لیکن اس کی دنیا وسیع ہے‘‘ خصوصاً انسان کا بطون صرف شاعری ہی کی قلمرو ہے ۔ میکالے کا یہ قول بھی صحیح نہیں کہ ’’نقالی مصوری یا نقاشی کے مقابلہ میں نامکمل ہے ۔ اگر آنکھوں کی تسکین کو معیار سمجھا جائے تو اس قول میں صحت ہوسکتی ہے لیکن آنکھوں اور کانوں کی تسکین کو کامل تسکین نہیں سمجھ سکتے ہیں ۔ تسکین ادھوری سی ہوتی ہے ۔ اس میں کچھ کمی محسوس ہوتی ہے۔ ہماری دماغی اور روحانی زندگی ہمارے جذبات اور احساسات کو جو تسکین شاعری میں ملتی ہے وہ کسی دوسرے فن لطیف میں نہیں ملتی اور نہ مل سکتی ہے ۔ میکالے کو اس حقیقت کا احساس نہ تھا اور حالی میں بھی اس احساس کی کمی نظر آتی ہے ۔
شاعری کے لئے جو شرطیں حالی ضروری سمجھتے ہیں وہ بھی سطحی اور کورانہ طور پر اخذ کی گئی ہیں ۔ یہ شرطیں تین ہیں  تخیل ، کائنات کا مطالعہ  ،تشخص الفاظ ۔ کلیم الدین احمد کولرج کے مقلد ہیں جو میکالے کے قائل نہیں اس لئے تمام غصہ بیچارے حالی پر نکالتے ہیں ۔ مغربی ناقدوں کے نظریات میں مشرقی نقاد کی طرح اختلاف رائے موجود ہے ۔ تنقید کا کھیل دو اور دو چار نہیں ہوتا ۔ اگر تخیل ، کائنات کا مطالعہ اور تشخص الفاظ سطحی شرطیں ہیں تو پھر اصلی شرطیں کلیم الدین احمد کیوں بیان نہیں کرتے ؟۔ حالی نے مغرب سے استفادہ کیا ۔ اس استفادے کا نتیجہ جو ہوا ظاہر ہے شاعرانہ فطرت کی خصوصیات اور شاعری کی اہم صفات پر حالی کی پوری بحث پر مجموعی نظر ڈالتے ہوئے ہمیں یہ نتیجہ نکالنا پڑتا ہے کہ جتنی زیادہ بحث اہم ہے حالی اتنے ہی زیادہ اس پر طبع آزمائی کے لئے نااہل ہیں ۔ جن علوم کی قابلیت اور جن فطری صلاحیتوں کی اس سلسلہ میں ضرورت تھی وہ ان میں نہ تھیں ۔ وہ ایک بحر بیکراں میں بے خطر کود پڑے ہیں اور ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں ۔ مگر ان کا کود پڑنا اور ہاتھ پاؤں مارتے رہنا ہی اہم ہے ۔ان کی تمام بحث کی یہ نوعیت ہے جیسے کہ کسی بڑی مکمل اور مربوط تصنیف میں سے کوئی طالب علم کوئی ادھر کی اور کوئی ادھر کی بات نوٹ کرے اور یہ سمجھے کہ وہ پوری کتاب پر حاوی ہوگیا ۔

افسوس یہ ہے کہ یہ حالی ہی تھے جنھوں نے اردو ادب کو مغربی قدروں اور لٹریچر سے روشناس کرایا ۔ اگر آزاد ، حالی نہ ہوتے تو کلیم الدین احمد کا وجود نہ ہوتا جنہیں یہ غصہ ہے کہ حالی اس مغربی دریا میں کیوں اترے اور اگر اترے تھے کیوں نہ پورے دریا کی پیراکی کی ۔ حالی نے کہیں یہ بات بالواسطہ یا بلاواسطہ نہیں کہی کہ انہوں نے مغربی لٹریچر پر عبور حاصل کیا وہ تو صرف مغربی قدروں کی نشان دہی اور مختصر تعارف کرکے چلے گئے ۔ کلیم الدین احمد کہتے ہیں کہ حالی فینٹسی اور امیجینیشن میں امتیاز نہیں کرسکتے ، لیکن جو تعریف انہوں نے لکھی ہے وہ بھی نامکمل اور ادھوری ہے ۔ وہ کہتے ہیں اگر مقدمے کو خضر راہ سمجھیں تو ترقی ممکن نہیں ۔ افسوس کی بات ہے کہ آج لکھنے والوں کا مطمح نظر حالی کی طرح محدود نہیں جب وہ بہترین مغربی ادب ، تنقیدی ادب سے واقفیت رکھتے ہیں ۔ اس کے باوجود کسی نے بھی مقدمہ شعر و شاعری سے بہتر تنقیدی کارنامہ پیش نہیں کیا ۔ یہ خیال ہے کہ ’مقدمہ شعر و شاعری‘ اردو میں بہتر تنقیدی کارنامہ ہے نہایت حوصلہ شکن ہے ۔ حالی کے کلام کے تابوت پر کلیم الدین احمد نے آخری کیل یوں ماری ۔ خیالات ماخوذ ، واقفیت محدود ، نظر سطحی ، فہم و ادراک معمولی ، غور و فکر ناکافی ، تمیز ادنی ، دماغ و شخصیت اوسط ۔ یہ تھی حالی کی کل کائنات ۔
ہم صرف یہی کہیں گے کہ تنقید نگار کو جذباتی نہیں ہونا چاہئے ورنہ اس کی ناقدانہ رائے قبول نہیں ہوتی ۔ کلیم الدین احمد کی رائے کو اکثر اس لئے پیش کرتے ہیں کہ ان تمام عیوب کے باوجود  حالی عمدہ ترین تنقید نگاروں میں شمار کئے جاتے ہیں اور مقدمہ شعر و شاعری علمی تنقید کی پہلی معتبر کتاب سمجھی جاتی ہے ۔ اگر مرغ یہ سمجھیں کہ اس کے ککڑکوں نہ کرنے سے سورج طلوع نہ ہوگا تو مرغ کی خوش فہمی ہے ۔ اردو تنقید کا کاروان اپنی ارتقائی منازل پر گامزن ہے۔ وارث علوی ’’حالی مقدمہ اور ہم‘‘ میں لکھتے ہیں ۔ نقاد جب حوالداروں کی طرح بات کرنا شروع کرتا ہے تو اس کا طرز گفتگو بھی کتنا غیر شریفانہ بن جاتا ہے ۔ جوش تنقید میں انہیں یہ تک خیال نہیں رہتا کہ حالی جیسے نقاد پر قلم اٹھاتے وقت ہمیں آداب گفتگو کی پاسداری کرنی پڑتی ہے ۔ حوالداری سے میرا کیا مطلب ہے اسے سمجھنے کے لئے محمد احسن فاروقی کے یہ جملے دیکھئے جو ان کی مقدمہ پر تنقید سے جستہ جستہ انتخاب کئے گئے ہیں ۔
’’ایسی باتیں پڑھ کر تو یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ ایسا شخص کسی طرح شاعری کرنے اور شاعری پر رائے دینے کا اہل ہی نہیں ہوسکتا‘‘ ۔
اس اخلاق کی وکالت میں انہوں نے بڑے دھوکے کھائے ہیں ۔ اور تنقید نگاری کی بہت سی غلط مثالیں قائم کی ہیں ۔ اس کی بدترین مثالیں مقدمہ کا وہ حصہ ہے جس میں مراثی کی اخلاقی نوعیت کو واضح کیا گیا ہے‘‘ ۔
’’یہاں وہ تنقید نگاری کے نقطہ نظر سے ایسا جرم کررہے ہیں جس کی تلافی نہیں ہوسکتی‘‘’’یہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کم علم کس قدر پرخطر ہوسکتا ہے‘‘ ’’جتنی زیادہ یہ بحث اہم ہے ، حالی اتنے ہی زیادہ اس پر طبع آزمائی کے لئے نااہل ہیں‘‘’’اگر احسن فاروقی مقدمہ کو ذرا غور سے پڑھتے تو حالی کا اسلوب نگارش انہیں آداب تنقید بھی سکھاتا‘‘ ۔اس طرح کا طرز بیان صرف فاروقی تک محدود نہیں بلکہ کلیم الدین احمد کہیں مقدمے کی تعریف کرتے ہوئے حالی کی نثر کے بارے میں اسے انفرادی خصوصیتیں عطا کرتے ہیں کہ حالی نے صاف اور سادہ طرز ایجاد کی ، لیکن اس طرز میں بے رنگی نہیں پھسپھساپن نہیں ، اس میں ایک لطافت ہے ، ایک جاذبیت ہے ، ایک رنگینی ہے اور یہ تنقیدی مسئلوں پر بحث کرنے کے لئے موزوں بھی ہے ۔ پھر حالی کی تنقید کے ہر جملے کو مغربی ترازو پر تولتے ہیں اور اس میں جو کچھ کم و کسر ہے اسی کو سب کچھ بتا کر فتوے صادر کرتے ہیں ۔ کلیم الدین کا فیصلہ سنئے ’’خیالات ماخوذ ، واقفیت محدود ، نظر سطحی ، ادراک معمولی ، غور و فکر ناکافی ، تمیز ادنی ، دماغ و شخصیت اوسط ۔ یہ تھی حال کی کل کائنات‘‘۔
وحید قریشی لکھتے ہیں ’’ادبی مسائل میں جہاں کہیں بھی دو بزرگوں میں اختلاف کا موقع آیا ، حالی اپنے اعتدال کا ترازو لے کر آگئے ۔ حالی کی دکان داری کا یہ انداز ان کی صلح جو طبیعت کا ترجمان اور ان کی شخصیت پرستی کا آئینہ دار ہے ، لیکن ان ہی دو راہوں پر ان کا تنقیدی نظام متزلزل نظر آتا ہے ۔ شاعری شائستگی کے زمانے میں ترقی پاتی ہے یا ناشائستگی کے زمانے میں ۔ اس پر انہوں نے مقدمے میں طویل بحث کی ہے ۔ مشکل یہ تھی کہ ہر دو آراء مغرب سے آئی تھیں ، جس کی پیروی کی انہوں نے قسم کھا رکھی تھی  ۔ مرحلہ نازک تھا لیکن فیصلہ قطعی ، اس لئے دونوں کو خوش کرنے کے خیال سے اور احترام کی خاطر انہوں نے درمیان کی راہ نکالی کہ پہلی بات بھی کسی قدر صحیح ہے اور دوسری بھی‘‘ ۔