ج2جون کو حکومت کی دعوت افطار کا بائیکاٹ کرنے سوشیل میڈیا پر اپیل

مسجد یکخانہ عنبرپیٹ کی شہادت کے مسئلہ پر حکومت کی خاموشی پر ناراضگی کا اظہار ضروری
حیدرآباد۔28مئی (سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ کی دعوت افطار کا بائیکاٹ کیا جائے کیونکہ حکومت شہر حیدرآباد میں سڑک کی توسیع کے نام پر مسجد کی شہادت کی ذمہ دار ہے اور حکومت کی جانب سے عدالت میں بھی یہ کہا جا رہاہے کہ سڑک کی توسیع کیلئے حاصل کی گئی جگہ کیلئے معاوضہ ادا کیا جاچکا ہے۔عنبر پیٹ مسجد یکخانہ کے انہدام کے بعد کی صورتحال کے باوجود مسلمانان تلنگانہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے مسجد کی از سر نو اسی جگہ تعمیر کے متعلق اب تک کوئی واضح اقدامات نہیں کئے گئے اور نہ یہ تیقن دیا جا رہاہے کہ مسجد دوبارہ اسی جگہ پر تعمیر کی جائے گی۔ عنبرپیٹ میں مسجد کی شہادت پر اب تک چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا بلکہ حکومت کی جانب سے عدالت میں ایڈوکیٹ جنرل نے مسجد کی شہادت کا دفاع کیا جو کہ حکومت کا موقف تسلیم کیا جا رہاہے۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے 2 جون کو دعوت افطار کے اہتمام کا اعلان کیا گیا ہے جس میں سیاسی قائدین ‘ علمائے کرام ‘ مشائخین عظام اور معززین شہر کو مدعو کیا جائیگا۔ اس کے علاوہ ریاست کے تمام اضلاع میں مختلف مساجد میں دعوت طعام کا اہتمام کیا جائے گا ۔ شہر میں مرکزی دعوت افطار کے بائیکاٹ کیلئے مختلف گوشوں سے اپیل کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا جا رہاہے کہ مسجد یکخانہ کی ازسر نو دوبارہ اسی مقام پر تعمیر کے سلسلہ میں اقدامات کئے جائیں اور مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد اور تلنگانہ وقف بورڈ کو ہدایت دی جائے کہ وہ شہید کی گئی مسجد کی دوبارہ وقف بورڈ کے ذریعہ تعمیر کے اقدامات کئے جائیں۔سوشل میڈیا پر کی جا رہی اپیل میں تلنگانہ راشٹر سمیتی کی تائید کرنے والی مسلم تنظیموں اور ذمہ داروں سے بھی خواہش کی گئی ہے کہ وہ دعوت میں شرکت نہ کرکے حکومت سے اپنی ناراضگی اور احتجاج درج کروائیں کیونکہ بلدیہ کی جانب سے مسجد کی شہادت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مسجد کی دوبارہ تعمیر کی کوشش کرنے والوں کے خلاف بھی پولیس کی جانب سے مقدمات درج کئے گئے ہیں اور ان نوجوانوں کی گرفتاری کو ماہ رمضان کے سبب زیر التوا رکھا گیا ہے ۔ ٹی آر ایس کی تائید میں مہم چلانے والی مسلم تنظیموں کے ذمہ داروں کو اخبارمیں مذمتی بیانات کی اجرائی تک محدود رہنے کی بجائے عملی طور پر دعوت افطار میں احتجاج یا دعوت افطار کا بائیکاٹ کرنے کا چیالنج کرنے والی سوشل میڈیا پوسٹ میں یہ کہا جا رہاہے کہ دعوت میں شرکت کرنے والوں کے خلاف عوامی برہمی پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ 40 فیصد مسلم آبادی والے شہر میں مسجد کی شہادت کے باوجود ذمہ داران ملت خاموش تماشائی ہیں اور مسجد کی دوبارہ تعمیر کے سلسلہ میں پیشرفت نہیں ہو پائی ہے ۔