جی۔20 چوٹی کانفرنس

اقبالؔ بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا  ہے
گفتار کا یہ غازی تو بناکردار کا غازی بن نہ سکا
جی۔20 چوٹی کانفرنس
دنیا کی 20 بڑی معاشی طاقتوں نے مل کر معاشی ترقی اور پیداوار میں اضافہ کے لئے تمام پالیسیوں کو استعمال کرنے کا عہد کیا۔ حالیہ برسوں میں معاشی ترقی کی شرح میں توقع کے مطابق اضافہ نہیں ہوا۔ معاشی ترقی میں کمی کو دور کرنے کے لئے جی 20 چوٹی کانفرنس کے مندوبین نے دو روزہ اجلاس کے دوران مختلف تجاویز پر غور کیا۔ ایک طرف جی 20 کانفرنس میں شریک قائدین عالمی معاشی صورتحال پر غور کررہے ہیں تو دوسری طرف ان کے قائدین کے سامنے عالمی دہشت گردی کا مسئلہ بھی سنگین رُخ اختیار کئے کھڑا تھا۔ دہشت گردی کے بڑھتے واقعات عالمی معاشی ترقی کو متاثر کررہے ہیں۔ مالیاتی اداروں کی صورتحال اور سرمایہ مارکٹ میں ہونے والی اتھل پتھل سے بھی مسائل پیدا ہونا یقینی ہے۔ اس لئے احتیاط کے ساتھ پوری قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی معاشی اُمور کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ معیشت کا انحصار امن پر ہے، مگر ان عالمی 20 بڑی طاقتوں نے اس کے قیام پر توجہ دینے کی کوشش ضرور کی لیکن شام، عراق، لیبیا، مصر، مشرق وسطیٰ کے بعض علاقوں میں چند ناعاقبت اندیشانہ کارروائیوں کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کو دور کرنے پر غور نہیں کیا گیا۔ اس وقت شام سے نکل کر دیگر ملکوں میں پناہ لینے والے لاکھوں بے سہارا لوگوں کے مستقبل کا سوال بھیانک شکل لیتے دنیا کے سامنے کھڑا ہے۔ بڑے پیمانے پر پیدا ہونے والے پناہ گزین بحران کو دور کرنے کے لئے تمام ممالک کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی۔ پناہ گزینوں کو آسرا دینے اور ان کے ساتھ انسانی بنیادوں پر بہتر سلوک کرنے کے لئے سیاسی حل نکالنے کی ضرورت ہے۔ جی 20 چوٹی کانفرنس کے موقع پر ہی وزیراعظم نریندر مودی نے برکس قائدین سے کہا کہ وہ ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال کریں، مگر جس عالمی ماحول میں دہشت گردی کا سایہ چھا جاتا ہے، وہاں دہشت گردی ہی ایک گرماگرم اور نازک موضؤع بن جاتا ہے۔ وزیراعظم نے اس نازک صورتحال کی جانب عالمی قائدین کی توجہ مبذول کروائی۔ برکس گروپ میں ہندوستان، روس، چین، برازیل اور جنوبی آفریقہ شامل ہیں۔ آئندہ سال برکس کی قیادت ہندوستان کررہا ہے۔ ہندوستان کو اس گروپ میں اہمیت حاصل ہے۔ ترکی میں منعقد ہوئی جی 20 چوٹی کانفرنس میں میزبان ملک کے سربراہ رجب طیب اردغان نے بھی عالمی امن کی جانب توجہ دینے پر زور دیا۔ امن کے بغیر معاشی ترقی کے نشانہ کو حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ ترکی میں موجود ان عالمی قائدین کو یہ عہد کرنا چاہئے تھا کہ عالمی معیشت کو بہتر بنانے پر دھیان دینے کے ساتھ غریب ملکوں اور غربت کے خاتمہ کے لئے اب تک کی گئی کوششوں کے کیا نتائج برآمد ہوئے۔ صدر بارک اوباما اور سعودی عرب کے شاہ سلمان بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔ ان قائدین نے شام کی صورتحال پر تبادلہ خیال ضرور کیا مگر ساڑھے چار سال سے خانہ جنگی کا شکار اس ملک کو جلد سے جلد امن نصیب کرنے پر جامع پالیسی وضع نہیں کی گئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی سلامتی کو جو خطرات پیدا ہوئے ہیں، یہ سنگین مسئلہ ہے۔ اس میں پناہ گزینوں کا بحران بھی یوروپ کے لئے نازک بنتا جارہا ہے۔ صدر ترکی رجب طیب اردغان کو خصوص کر شام کے بحران کو فوری حل کرنے میں عین دلچسپی ہے۔ اس مسئلہ میں گہرائی سے غوروخوض کی ضرورت تھی۔ گزشتہ 10 سال سے سالانہ منعقد ہونے والی اس چوٹی کانفرنس کو اس مرتبہ شام کی جنگ اور پیرس کے دہشت گرد حملے پر خاص کر غور کرنے کی ضرورت پڑی تو اس خانہ جنگی سے ہونے والی ڈھائی لاکھ نفوس کی اموات اور 10 ملین افراد کے بے گھر ہونے کے مسئلہ کا فوری حل نہیں نکالا جاسکا۔ چوٹی کانفرنس میں شریک روس اور امریکہ کا شام کے تعلق سے برعکس موقف بھی صورتحال کو جوں کا توں چھوڑ رہا ہے۔ یوروپی یونین نے پناہ گزین بحران سے نمٹنے کیلئے جو اقدامات کئے ہیں، اس پر عمل آوری کے لئے رکن ملکوں پر زور دیا گیا لیکن اس بحران پر یوروپی یونین کے رکن ممالک کا ردعمل ہنوز سامنے نہیں آیا۔ جی 20 چوٹی کانفرنس کی میزبانی کرنے والے ملک ترکی نے اب تک پناہ گزینوں کے حق میں بہتر کام انجام دیئے ہیں۔ جی 20 کے دیگر ملکوں جیسے ہندوستان کے علاوہ ارجنٹینا، آسٹریلیا، برطانیہ، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، انڈونیشیا ، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی آفریقہ، جنوبی کوریا، امریکہ اور یوروپی یونین کو اس بحران کے تعلق سے متحدہ غوروخوض کرنے کی ضرورت ظاہر کی جارہی ہے۔