جیسے صحرا میں رات پھولوں کی

کے این واصف
سعودی عرب میں متعین کئے گئے سفیر ہند ڈاکٹر اوصاف سعید کا انڈین کمیونٹی کی جانب سے ریاض میں والہانہ خیرمقدم کیا گیا ۔ پچھلے جمعہ کی شب ان کے اعزاز میں ایک شاندار خیر مقدمی جلسے کا اہتمام کیا گیا ۔ اوصاف سعید نے اس سے قبل جدہ قونصلیٹ اور ریاض ایمبسی میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں۔ سعودی عرب میں یہ ان کی تیسری پوسٹنگ ہے ۔ اوصاف سعید ایک مقبول ترین سفارت کار مانے جاتے ہیں۔ ان کے جدہ میں قونصل جنرل ہوتے ہوئے کمیونٹی نے انہیں ’’عوامی سفارت کار‘‘ کے لقب سے نوازا تھا ۔ اوصاف سعید ہمیشہ عوام سے قریب رہ کر اپنی خدمات انجام دینے میں یقین رکھتے ہیں۔
ایک اسٹار ہوٹل میں منعقدہ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر اوصاف سعید نے کہا کہ کمیونٹی کسی قسم کی تعمیری تجاویز ، مشورے اور حقیقی مسائل سے آگاہ کرنے کیلئے سفارت خانے سے رجوع ہونا چاہتے ہیں یا مجھ سے ملنا چاہتے ہیں تو ایمبسی کے دروازے ان کیلئے ہمیشہ کھلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے اور کمیونٹی کے درمیان کوئی فاصلہ رکھے بغیر ملنا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر اوصاف سعید نے کہا کہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ یہاں بہت سی سرگرم اور فعال سماجی تنظیمیں موجود ہیں۔ انہوں نے سماجی تنظیموں سے کہا کہ وہ ہمیشہ کی طرح کمیونٹی کی مدد اور خدمت میں سفارت خانے کا ساتھ دیں تاکہ کمیونٹی کی دشواریاں اور مسائل بہ آسانی اور بروقت حل کئے جاسکیں ۔ ڈاکٹر اوصاف نے کہا کہ ایمبسی ہمیشہ اس بات کی خواہاں رہی ہے کہ سعودی عرب میں مقیم 30 لاکھ سے زا ئد ہندوستانیوں کا قیام مسائل اور مشاکل سے پاک رہے ۔ انہوں نے اس بات پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں مقیم ہندوستانی باشندے سعودی آجرین کی پہلی پسند ہیں۔ ڈاکٹر سعید نے ولیعہد محمد بن سلمان کے حالیہ دورۂ ہند کا حوالہ دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ہند۔ سعودی تعلقات میں نئے باب کھلیں گے اور دونوں ممالک کے رشتے ترقی کی نئی بلندیوں کو چھوئیں گے اور یہاں نئی صنعتوں کے قیام سے خارجی باشندوں کیلئے ملازمتوں کے مواقع بھی نکلیں گے جس سے بے شک ہندوستانیوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
اس موقع پر نائب سفیر ہند ڈاکٹر سہیل اعجاز خاں نے بھی خطاب کیا ۔ اس کے علاوہ کمیونٹی کی کچھ اہم شخصیات نے بھی اس تقریب سے خطاب کیا جن میں محمد شمیم ریجنل ڈائرکٹر لو لوہائپر مارکٹس ، انجنیئر محمد مبین صدر عثمانیہ یونیورسٹی المنائی اسوسی ایشن ، ڈاکٹر مصباح العافین صدر انڈین ریسرچرز اینڈ سائنٹسٹ اسوسی ایشن ، ڈاکٹر اشرف علی صدر آل انڈیا یونائٹیڈ سوسائٹی ، امتیاز احمد صدر تمل اسوسی ایشن ، نیاز احمد صدر بہار فاؤنڈیشن ، سماجی کارکنان کے شہاب ، محمد ضیغم خاں ، سید آفتاب احمد نظامی صدر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی ، سنتوش شٹی صدر کرناٹک اسوسی ایشن شامل تھے ۔ ان حضرات نے اپنے خطاب میں اپنی انجمن کی کارکردگی پر روشنی ڈالنے کے علاوہ کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں ایمبسی کو اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔
محفل کا آ غاز قراء ت کلام پاک سے ہوا اور ناظم محفل تقی الدین میر کے ابتدائی کلمات کے بعد ضیغم خاں نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا ۔ تقریب کے رسمی آغاز کے بعد کمیونٹی کی جانب سے ڈاکٹر اوصاف کو تہنیت پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ گلہائے خلوص و محبت کے پیش کرنے کا یہ سلسلہ کوئی دیڑھ گھنٹہ جاری رہا جس میں مختلف سماجی کارکنان ، مداحان اوصاف سعید اور سماجی تنظیموں کے سربراہان نے سفیر ہند کو پھول کے ہار ، گلدستے ، روایتی شال اور مومنٹوز پیش کرتے رہے ۔ کمیونٹی کا اپنے سفیر کے ساتھ اظہار محبت کا یہ طویل سلسلہ چلتا رہا اور اس دوران ہمارے ذہن میں مسلسل مخدوم محی الدین کی غزل ’’پھر چھڑی بات رات پھولوں کی…‘‘ گونجتی رہی ۔ کوئی 200 افراد نے ڈاکٹر اوصاف سعید کو گلہائے خلوص و محبت پیش کرتے رہے جو ڈاکٹر اوصاف کی عوامی مقبولیت کا غماز تھا ۔ آخر میں ہم نے دیکھا کہ اسٹیج کے ایک طرف تو پھول کے ہار اور گلدستو ں کا ایک ڈھیر سا لگ گیا ہے جو شائد یہ کہہ رہا تھا ۔
پھول کے ہار پھول کے گجرے
شام پھولوں کی رات پھولوں کی
غم کے بادل سے خوشی کی برسات تک
اسی ہفتہ کے دوران انگریزی اخبار سعودی گزٹ میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں ایک ہندوستانی فیملی کی درد بھری کہانی پیش کی گئی تھی ۔ بتایا گیا تھا کہ 3 تا 17 سال کی عمر کے آٹھ بچے اپنے والدین کے انتقال کرجانے کے بعد ریاض میں کس قدر کسمپرسی کی زندگی بسر کی ۔ پورا واقعہ یوں بیان کیا گیا تھا کہ یہ آٹھ بچے ایک سال کے عرصہ میں اپنے ماں اور باپ کے سائے سے محروم ہوئے اور گھر کے حالات ایسے تھے کہ ان کے ماں باپ دوا کیلئے تڑپتے تھے اور دیگر افراد خاندان کھانے کیلئے ترستے تھے ۔ محمد علی نامی ایک حیدرآبادی شخص جس کا ریاض میں خود کا ورکشاپ تھا ، وہ خود ایک ماہر کاریگر تھا جو کسی سعودی کفیل کی کفالت میں یہ ورکشاپ چلاتا تھا اور ایک خوشحال زندگی بسر کر رہا تھا ۔ محمد علی نے 2003 ء میں اپنی فیملی کیلئے ویزا حاصل کر کے بیوی عائشہ صدیقہ اور دو لڑکوں محی الدین علی اور ہدایت علی کو ریاض بلایا۔ اس کے بعد یہاں ان کے گھر مزید 6 اولادیں ہوئیں۔ اس طرح محمد علی کا ایک بڑا کنبہ ہوگیا ۔ آمدنی معقول تھی ، زندگی آرام سے بسر ہورہی تھی ۔ پھر حالات نے کروٹ لی ۔ محمد علی کی اپنے کفیل سے کچھ نااتفاقی ہوگئی ۔ کفیل نے ورکشاپ کو تالا ڈال دیا ۔ ذریعہ آمدنی اچانک ختم ہوگیا ۔ نہ صرف یہ بلکہ کفیل نے محمد علی کو حروب (مفرور شخص) کے زمرہ میں ڈال دیا ۔ واضح رہے کہ جس شخص کا نام حروب میں ڈ ال دیا جائے اس کی حیثیت ایک مجرم کی سی ہوجاتی ہے۔ اس کا نہ اقامہ تجدید ہوسکتا ہے ، نہ وہ کہیں کام کرسکتا کچھ عرصہ یوں توں کر کے گزرا پھر اچانک محمد علی کی بیوی سخت علیل ہوگئی ۔ رہی سہی پونجی بھی ختم ہوگئی ۔ ادھر بچوں کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا ۔ کچھ عرصہ بعد محمد علی کی بیمار بیوی انتقال کر گئی جس کے بعد حالات کا مارا محمد علی خود بھی سخت بیمار ہوکر صاحب فروش ہوگیا ۔ یعنی ان پر مصیبت کا ایک اور پہاڑ ٹوٹا ۔ گھرمیں کھانے کے لالے پڑے تھے اور اوپر سے صدر خاندان ستر پر آگیا ۔ چار و ناچار حالات نے اب بچوں کو کام کرنے پر مجبور کردیا ۔ دو بڑے لڑکے جن کی عمریں 15 ، 16 سال رہی ہوں گی وہ ادھر ادھر کار خانوں میں کام کر کے حلق تر کر نے کا انتظام کرنے لگے۔ اس بیچ شائد معقول علاج نہ ہونے کی وجہ سے محمد علی 8 مارچ 2019 ء کو جاں بحق ہوگئے۔ اس گھر پر ایک اور برق گری ۔ اس طرح یہ آٹھ بچے ایک سال کے عرصہ میں یتیم یسیر ہوگئے ۔ کفیل سے نا اتفاقی ہوجانے سے ان تمام افراد خاندان کے اقامے بھی تجدید نہ ہوپائے تھے۔ وہ تین سال سے بغیر اقامے کے غیر قانونی حیثیت میں زندگی گزار رہے تھے ۔ اپنی بیوی کے انتقال کے بعد محمد علی وطن لوٹ جانا چاہتا تھا ۔ مگر ان کا سفر ممکن نہ ہوسکا ۔اس لئے کہ اقاموںکی تجدید کے بغیر خروج نہائی (Final Exit) بھی نہیں لی جاسکتی ۔
آخر کار ان آٹھ بے یار و مددگار بچوں کے بارے میں ریاض میں مقیم ایک گروپ کو خبر ہوئی ۔ انسانی ہمدردی کا جذبہ رکھنے والے اس گروپ میں پانچ دوست شاہ نواز ، قیوم ، سلیم ، مصباح اور ظفر شامل تھے ، جن کو ان بچوں کی زبوں حالی کے بارے میں پتہ چلا۔ ان احباب نے بچوں کو اپنے گھر پناہ دی ۔ پھر انہوں نے ایک معروف سماجی کارکن کے شہاب سے رابطہ کیا ۔ شہاب اپنی بے لوث سماجی خدمات کیلئے انڈین کمیونٹی میں جانے جاتے ہیں ۔ وہ بلا لحاظ مذہب و ملت اور علاقہ کے سارے ضرورت مند ہندوستانیوں کی مدد کرتے ہیں۔ شہاب نے انڈین ایمبسی کے ذریعہ ان کی مدد کا بیڑا اٹھایا۔ ان بچوں پر واجب جرمانوں کو معاف کروایا اوران کے Exit Visas تیار کروائے ۔
اس بیچ ان بچوں کی پھوپی (محمد علی کی بہن) جو کینیڈا کی شہریت رکھتی ہیں اور برسوں سے کینیڈا میں مقیم ہیں ، کو ان بچوں کے بارے میں خبر ہوئی ۔ انہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کینیڈا کے کسی وزیر سے رابطہ کیا اور ان بچوں کی حالت زار بتائی اور کہا کہ وہ ان بچوں کی کفالت لینا چاہتی ہیں۔ اس پر حکومت کینیڈا نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ریاض میں کینیڈا کے سفارت خانے کو ہدایت جاری کی اور فوری طور پر ان بچوں کو کینیڈا کا ویزا جاری کرے۔ یہاں کینیڈین ایمبسی نے جمعہ کے چھٹی والے دن انہیں فوری کینیڈا کا ویزا جاری کیا اور یہ بچے کینیڈا سے انہیں ساتھ لے جانے ریاض آئے ہوئے پھوپی زاد بھائیوں کے ہمراہ کینیڈا کیلئے پرواز کیا۔ اس طرح ان بچوں کی درد بھری کہانی کا ختتام خوشگوار ہوا۔ بچے اب اپنی پھوپی کے ساتھ ایک اچھی اور آرام دہ زندگی گزاریں گے۔ قابل ستائش ہیں ان بچوںکی پھوپی جنہوں نے ان بچوں کی پرورش کی ذمہ داری لے لی اور اپنی کوششوں سے ان بچوں کو کینیڈا منتقل کروالیا۔ انسانیت اور انسانی ہمدردی کا یہ جذبہ دنیا میں عام ہو تو دنیا میں بے سہارا بچے یا ضرورت مند انسان پریشان رہیں گے ۔ نہ در بدر بھٹکیں گے ۔ یہاں قابل صد ستائش ہے حکومت کینیڈا اور کینیڈین ایمبسی ریاض جس نے اپنی منصبی ذمہ داری سے سواء انسانی بنیادوں پر اس فیملی کی مدد کی ، انہیں فوری ویزا فراہم کیا ۔ اس ساری کارروائی کے چلتے سماجی کارکن شہاب دن و رات ان بچوں کے ساتھ رہے ۔ ہم ان کے اس جذبہ کو سلام کرتے ہیں۔ یہاں بہت ساری سماجی کارکنان ہیں لیکن شہاب کا جذبہ کسی اور میں نہیں ۔ حکومت ہند نے بجا طور پر کچھ سال قبل ان ہیں ’’پرواسی بھارتیہ سمان‘‘ ایوارڈ سے نوازا جس کے وہ سوفیصد مستحق ہیں۔