جھوٹی مقبولیت نہیں‘ حقیقی محبت دیجئے

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
انسان نے اپنی زندگی سنوارنے کے لئے کئی جتن کررکھے ہیں اور اگر کوئی انسان بڑے عہدے پر ہوتا ہے تو اس کو اپنی زندگی مقبول بنانے کیلئے سو جتن کرنے پڑتے ہیں۔ اس کوشش کے حصہ کے طور پر تلنگانہ کے نئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی مقبولیت کے گراف کو دیگر مقبول انسانوں سے بلند کرلیا ہے۔ کے سی آر کو مختلف تنظیموں اور سروے کرنے والے اداروں نے مقبولیت کا تمغہ لگانا شروع کردیا ہے۔ اس طرح کے ایک سروے ’ انڈین آف دی ایئر 2014‘ ایوارڈ کیلئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو فلم اداکار عامر خان اور مائیکرو سافٹ کے سی ای او ستیہ ناڈیلا سے آگے رہنے کا اعلان کیا ہے۔ کے سی آر جب عامر خان کو مقبولیت کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ سکتے ہیں تو دیگر عام انسانوں کو یہ شبہ ضرور ہوتا ہے کہ سروے کرنے والوں نے دال میں کچھ کالا پیدا کردیا ہے۔ انڈین آف دی ایئر ایوارڈس کے 19ویں ایڈیشن میں مقبول عام وزراء کے زمرہ میں مسٹر کے چندر شیکھر راؤ سرفہرست قرار دیئے جاتے ہیں اور ان کے بعد عامر خان کا نام آتا ہے تو پھر یہ ایک سیاستداں کی صلاحیتوں اور اس کی کاوشوں کا مظہر کہی جائے گی۔ عامر خان بالی ووڈ کے اداکار ہیں اور ساری دنیا میں مقبولیت رکھتے ہیں ان کے مقابل تلنگانہ کے چیف منسٹر سب سے آگے ہیں تو پھر اس طرح کا سروے انسانوں کے خوابوں کو بکھیرنے کا کام کرے گا۔

کہتے ہیں کہ خواب بکھرجاتے ہیں مگر خواب مرتے نہیں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ چیف منسٹر کے سی آر نے بھی خواب دیکھ کر اپنا نام مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچایا ہوگا۔ یہ سروے کرنے والے ہی بہتر جانتے ہیں کہ ان کا پیمانہ کیا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچانے والوں نے انہیں فلاں فلاں شخصیتوں میں سرفہرست قرار دیا۔ جب ایک ریاستی لیڈر اور نومولود ریاست کے سربراہ کو مقبولیت کا حال یہ ہوسکتا ہے تو قومی سطح پر نسل کشی کا تمغہ رکھنے والے نریندر مودی کی مقبولیت تو یقینی ہے۔ اداکار عامر خان نے اپنی فلم ’’ پی کے ‘‘ سے اتنی شہرت حاصل نہیں کی ہوگی جتنی سروے کرانے والوں نے چیف منسٹر کے سی آر کو شہرت دلائی ہے۔ عامر خان نے تو ہندو دیوتاؤں کی پوجا کس طرح شروع ہوتی ہے اور کسی پتھر کو بھگوان مان کر اس کی پوجا کا آغاز کس طرح کرتے ہیں دکھایا ان کی جراء ت پر انگلیاں بھی اٹھی ہیں اور واہ واہ بھی ہوتی ہے۔ اداکار کے مقابل تلنگانہ میں عوام سے کئے گئے انتخابی وعدوں کو پورا نہ کرنے والے چیف منسٹر مقبول ہوتے ہیں تو پھر اس معاشرہ میں کیا نہیں ہوسکتا ہے۔ جب ریاست اور شہروں میں سرکاری اراضیات کو ہڑپ کر ناجائز قبضے کرلئے جاتے ہیں اور جن لوگوں نے ہزاروں ایکر اراضی پر قبضے کرلئے ہیں ان کی مقبولیت از خود ہوجاتی ہے۔ سروے کرنے والے پیدا کردیئے جاتے ہیں اور لوگ یقین بھی کرلیتے ہیں کہ واقعی کوئی انسان اتنا مقبول بھی ہوسکتا ہے۔

جب تاریخی چارمینار کے ایک کونے پر پتھر رکھ کر اس کو مندر کی شکل دیتے ہوئے مقبول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس طرح کے ڈرامائی واقعات کا سلسلہ ان ہی مقبول پسندوں کی کارستانیوں سے جاری رہتا ہے۔ مقبولیت کی آڑ میں اگر کوئی انسان من مانی فیصلے کرتا ہے تو دوسرے انسانوں کے لئے اس کے فیصلے عذاب بن جاتے ہیں اور کہیں بھی آپ کو مقبول لیڈر نظر آئے تو آپ اس کا شجرہ معلوم کرنے کی کوشش کریں تو یقیناً اس میں کہیں نہ کہیں سازش اور مکاری کی بو ضرور آئے گی۔ تلنگانہ تحریک کو آگے لے جانے کی اصل وجہ ایک خوشحال ریاست بنانا تھا مگر یہاں تو کے سی آر نے خود کو مقبول بنانے کی فکر میں ریاست کو کنگال کردینے کا مظاہرہ شروع کردیا ہے جو لوگ تلنگانہ تحریک کے لئے جمع ہورہے تھے وہ اب تقسیم ہوتے جارہے ہیں کیونکہ کسی ایک لیڈر کو دوسرے لیڈر کی من مانی اور مقبولیت کا خار برداشت نہیں ہوتا۔

آگے آگے دیکھیئے کہ تلنگانہ میں بی جے پی کس طرح اپنا اثر دکھانے کیلئے مقبولیت کی لہر کو توڑنے والوں کے پر کاٹ دے گی۔ بی جے پی نے ملک بھر میں مندوں کا جال بچھانے کے لئے اپنی محاذی تنظیموں کو کام پر لگادیا ہے۔ اب حیدرآباد کی تاریخی عمارت چارمینار سے متصل مندر کو مزید مقبول بنانے کے لئے کئی طاقتیں آگے آرہی ہیں۔ اس طرح کے عقائد کا سہارا لے کر سیاستدانوں نے جو ماحول برپا کیا ہے اس سے انسانی زندگیوں کو ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب لے جاتے ہیں۔ کل تک کے سی آر کا ساتھ دینے والے اب بی جے پی کے کنول کی پوجا کرنے کے لئے قطار بنائے ہوئے نظر آئیں گے پھر نئی ریاست تلنگانہ کو لوٹنے کی خاطر کئی لوگ بی جے پی جوائن کرلیں گے۔ کے سی آر کا ساتھ دینے والے ایسے کئی لیڈر بھی بی جے پی میں جائیں گے کیوں کہ وہ عمر کے اس حصہ میں پہونچ گئے ہیں کہ جہاں لیڈر وجئے شانتی کے پاس جاکر بھی ووٹ ہی مانگے گا۔ ایک وقت تھا جب وجئے شانتی کو لے کر ووٹ مانگا جاتا تھا اب وقت یہ آرہا ہے کہ ووٹ مانگنے کیلئے وجئے شانتی کے پاس جائیں گے کیونکہ اداکارہ سے سیاستداں بننے والی خاتون کو سیاسی میدان راس نہیں آیا ہے تو وہ ایک عام ووٹر ہی بن کر رہ گئی ہیں۔ گزشتہ دنوں شمس آباد ایر پورٹ پر بی جے پی قائدین کی آمد کے وقت بڑی گہما گہمی دیکھی گئی تھی جس سے ایر پورٹ پر دیگر مسافروں کو تکلیف بھی ہوئی، ان میں تلگو فلموں کے اداکاروں اور اداکاراؤں کے علاوہ دیگر اہم شخصتیں بھی شامل تھیں۔ فلموںکی وجہ سے جو مقبولیت ملتی ہے اب سروے کرنے والوں نے اس کا الٹا اثر دکھایا ہے۔ ایک سروے ، فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعہکسی فلم اداکار کو مقبولیت سے آگے لے جاسکتے ہیں ۔ کے سی آر کو بھی سروے کرانے والوں نے فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعہ عامر خان کی مقبولیت سے آگے بتانے کی کوشش کی ہے ۔ یہ خام خیالی ہے یا رشوت کا بازار، عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ عوام تو صرف کام چاہتے ہیں اور یہ کام کہیں دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ کے سی آر کی مقبولیت کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے، ان کے کاموں کا نہیں۔

چندرا بابو نائیڈو کو یہ دیکھ کر ضرور کوفت ہوررہی ہوگی کہ ان کے سامنے کے لیڈر نے مقبولیت میں ان سے کئی گنا اور کئی درجہ شہرت حاصل کرلی جبکہ شہرت کے حصول کے پینترے تو نائیڈو کو بھی اچھے آتے ہیں۔ یہ حیرت کی ہی بات ہے کہ کے سی آر کو چندرا بابو نائیڈو سے زیادہ مقبول بنایا گیا ہے۔ جھوٹ کہتی تو اس نزاکت سے کہتی کہ اس پر یقین آجائے۔ یہاں تو سارا معاملہ ہی گول ہے۔ اس طرح کے سروے کرانے کے پیچھے کس کا ہاتھ اور کس کا راز ہے یہ تو ان دو نوجوانوں کی لڑائی اور ان کے مکالموں کی طرح ہی ہے کہ ایک فلم کے منظر میں لڑائی ہوتی ہے اور مکالمے اس طرح مکہ بازی شکل اختیار کرتے ہوں تو یوں ماحول سامنے آتا ہے : ویلن کہتا ہے کہ کھڑے کھڑے تجھے تماشہ بنادوں گا۔ ہیرو کہتا ہے کہ کیوں تو کیا مداری ہے، تو ویلن : تیرے دانت نکال کر ہاتھ میں پکڑا دوں گا۔ ہیرو: کیوں ڈینٹسٹ ہے تو۔ ویلن: ایسی پھینتی لگاوں گا کہ سب کچھ ہضم ہوجائے گا۔ ہیرو:کیوں ہاضمولہ ہے تو۔ ویلن: اب انگلی اُٹھائی تو میرا ہاتھ اُٹھ جائے گا۔ ہیرو: کیوں بھکاری ہے تو۔ ویلن: ایک لات ماروں تو ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ ہیرو: کیوں گدھا ہے تو۔ ویلن : تنگ آکر جا تجھے چھوڑ دیا۔ ہیرو: کیوں جیلر ہے تو۔ یہاں ویلن اور ہیرو کی جگہ لوگ اپنی مرضی سے کے سی آر اور چندرا بابو نائیڈو کا تصور کریں تو کیا حرج ہے۔ فیس بک کو من مانی طریقہ سے اس تعمال کیا جاتا ہے ۔ حیدرآباد پولیس کانسٹبل نے بھی چارمینار پر ہنومان کی تصویر بٹھاکر اسے فیس بک پر پوسٹ کررہا الغرض سوشیل میڈیا سے سیاستدانوں سے لیکر عام انسانوں کو گمراہ کن دلدل میں پھنسانے کا کام لیا جارہا ہے ۔ سروے میں کس کو مقبول بنایا جائے ، اس میں کوئی دلیل تھی نہ کوئی حوالہ تھا، ان کے پاس عجیب لوگ تھے بس اختلاف رکھتے تھے۔ اس طرح کی بحث صرف بچکانہ حرکتوںکا ثبوت دیتی ہے اور سروے کرانے والوں نے کے سی آر کو عامر خان یا پھر کسی اور شخصیت کے آگے اونچا اٹھایا ہے تو پھر اس طرح کے بچکانہ سروے سے خود کے چندر شیکھر راؤ کو حیرت ہوئی ہوگی اور وہ اپنے ظرف کی وجہ سے ایسی بیہودہ باتوں پر دھیان نہیں دیں گے کیونکہ کے سی آر چار کروڑ عوام کے ہیرو ہیں انہیں جھوٹی شہرت کی نہیں بلکہ عوامی ہمدردی اور محبت کی ضرورت ہے۔
kbaig92@gmail.com