جگن ناتھ آزادؔ (م۔25 جولائی 2005 ء)

ابن غوری
ارض ہندوستان نے اردو ادب میں تین آزاد پیدا کئے، شمس العلماء محمد حسین آزاد، مولانا ابوالکلام آزاد اور پروفیسر جگن ناتھ آزاد۔ آخرالذکر اپنے مولد کے لحاظ سے پاکستانی(لاہوری) تھے۔ وطن ثانی اگرچہ ہندوستان ہوگیا تھا لیکن وطن مالوف سے قلبی ، قلمی اور قدمی تعلق آخر عمر تک برابر قائم رہا ( چنانچہ حکومت پاکستان نے اپنے ملک کا ترانہ ان سے بھی لکھوایا تھا)
علامہ اقبال کے ایسے عاشق زار کہ غالباً سارا کلام انہیں ازبر تھا(اس طرح انہیں حافظ اقبال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا)۔ دنیا بھر میں اقبال پر کہیں سمینار ہوئے اور آزاد اس میں مدعو نہ ہوں اس کا تصور مشکل تھا ۔ نہ صرف اردو میں بلکہ انگریزی میں بھی ۔ حیدرآباد دکن وہ دیوانہ وار آتے رہے اور شعری محفلوں میں داد پاتے رہے۔ اپنے ابتدائی مجموعہ کلام کا انتساب اقبال کے نام اس طرح کیا ہے  ؎
ترے کلام نے بخشا مجھے مذاق سخن
ہے تیری نذر یہ مجموعہ کلام مرا
اقبال پر ان کے مرثیہ کے چند اشعار یہ ہیں  ؎
اقبال ، اے جہان معانی کے تاج وار
اے رومی و ثنائی و غالب کی یادگار
معنی کو تجھ پہ فخر تخیل پہ تجھ کو ناز
نازاں تھا تجھ پہ مشرق و مغرب کا ہردیار
آتش کا سوز ، گل کی مہک ، برق کی تڑپ
سوجاں سے ہوگئے ترے تخیل پر نثار
گیان پیتھ ایوارڈ یافتہ فراق گورکھپوری نے ’’بے کراں‘‘ کے  پیش لفظ میں آزاد کی یوں تحسین کی ہے ، ’’آزاد کی شاعری میں جو صفت سب سے زیادہ جاذب نظر اور دلکش ہے وہ آزاد کی وہ نیکی اورانسانیت ہے جس میں تصنع کا نام نہیں۔ ان کی شاعری رہ رہ کر دلوں کو کھینچتی ہے ۔ آزاد کے تخیل اور فن اور ان کی ذہنی نشو و نما کو سیراب کرنے والے ایک طرف تو بلند ترین مغربی ادب اور علوم ہیں اور دوسری طرف رچے ہوئے فارسی اور اردو ادب کے کارنامے ہیں‘‘
سردار جعفری نے ’’وطن میں اجنبی’‘ پر یوں تبصرہ کیا ہے ۔
آزادکا موضوع دکھیا انسانیت اور اس کی تمنائیں ہیں۔ اس کے ہر شعر میں ماحول کی سخت گیری کا احساس ہے جس نے اس کی شاعری کو گمبھیر بنادیا ہے لیکن اس دم گھونٹ دینے والی فضاء سے باہر نکل آنے کی خواہش نے اس کی شاعری میں تڑپ اور حوصلہ مندی پیدا کی ہے۔
نئے ہندوستان کے مسلمانوں پر آزاد کی نظم ’’بھارت کے مسلمان‘‘ ایک ناقابل فراموش احسان ہے جس نے تقسیم وطن کے زخموں پر مرہم کا کام کیا (اور آج بھی جمہوریت کے زخموں کیلئے اس سے یہی کام لیا جاسکتا ہے)
افسوس کہ ہم نے اپنے ایسے شریک غم شاعر کو بھلادیا ۔ اس نظم کا ایک بند یہ ہے:
بھارت کا تو فرزند ہے بے گانہ نہیں ہے
یہ دیس ترا گھر ہے تو اس گھر کا مکیں ہے
تابندہ ترے نور سے اس گھر کی جبیں ہے
کس واسطے افسردہ و دل گیر و حزیں ہے
پہلے کی طرح باغ وطن میں ہو نواخواں ، بھارت کے مسلماں !
ایک دوسری نظم کا ایک شعر یہ ہے   ؎
اس طرح مسلم رہے ہندوستان کی گود میں
جس طرح رہتا ہے بچہ اپنی ماں کی گود میں
وہ خود بھی وطن زدہ تھے اور اس کرب کا اظہار انہوں نے بار بار سفر پاکستان کر کے اپنے کئی اشعار میں کیا ہے ۔ تین شعر نمونۃً پیش ہیں۔
کہتے ہیں کہ آتاہے مصیبت میں خدا یاد
ہم پر تو وہ گزری کہ خدا بھی نہ رہا یاد
دل میں نہ غم تازہ بسا لاتا میں
اے کاش نہ یوں جلد پلٹ آتا میں
اشجار وطن کی چھاؤں میں دم لینے
اے کاش ذرا اور ٹھہر جاتا میں
اس خادم الحروف نے اقبال کے تقریباً تمام فکری اشعار (234) موضوعات پر مرتب کر کے اس کا مسودہ ، موصوف کی خدمت میں ارسال کیا تھا جواباً یوں تحریر فرمایا : ’’یہ ا قبالیات میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ عاشقان کلام اقبال کیلئے ایک نادر تحفہ ہے ۔ ایک بڑا علمی ، ادبی اور قومی اہمیت کا کام کیا ہے ‘‘۔(الحمداللہ یہ کتاب بہ نام ’’کلام اقبال: موضوعاتی ترتیب‘‘(ص 445 ) شائع ہوچکی ہے ۔ زم زم پبلشرس کراچی نے بھی اسے شائع کیا ہے۔)
آخرمیں اس عاشق اقبال کے چند اشعار درج کئے جاتے ہیں :
گرفتاری بشر کی ہے فقط دل کی گرفتاری
کہ دل آزاد ہو تو آدمی آزاد ہوتا ہے
نظر ان کی زباں ان کی میں کس کو معتبر سمجھوں
نظر کچھ اور کہتی ہے زباں کچھ اور کہتی ہے
چمن والو ، سنبھل کراس زمانے میں بسر کر نا
کہ ا کثر باغباں کے بھیس میں صیاد ہوتا ہے
مقام وعظ کہاں اور مقام راز کہاں
مقام وعظ ہے منبر، مقام راز ہے دار
بڑی بیش قیمت ہے اقلیم دل
کہاں اس کی وسعت کہاں روم ورے
رگوں سے بتیاں گوندھو بتاؤ خون کو تیل
اور اسطرح سے چلو مشعلیں جلائے ہوئے
صحرائے محبت کے عازم کاخدا حافظ
ہر ذرہ صحرا میں صحرا کی ہے پہنائی
عقل کے سو لباس ہیں پھر بھی وہ مطمئن نہیں
عشق پہن کے مست ہے ایک دریدہ پیرہن
میں نے پوچھا جو ، زندگی کیا ہے
ہاتھ سے گر کے جام چھوٹ گیا
نہ پوچھو کیا گزرتی ہے دل خوددار پر اکثر
کسی بے مہر کو جب مہرباں کہنا ہی پڑتا ہے
قسم ہے جور دشمنان کی تجھے
کرم دوستاں کی بات نہ کر
زندگی ہے، تمام سوز و گداز
اے غم دوست ، تیری عمر دراز
شاعر کے مجموعہ ہائے کلام کے نام یہ ہیں
(1) بے کراں (2) ستاروں سے ذروں تک (3) وطن میں اجنبی (4) نواے پریشاں (5) بچوں کی نظمیں (6) جست جو (7) بوے رمیدہ (8) طویل نامکمل نظم ’’جمہور نامہ‘‘۔
کہانی ، ہے تو اتنی ہی ، فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں ، اورآدمی افسانہ بن جائے