جو کانٹے بو کے زمین سے گلاب مانگتے ہیں

پارلیمنٹ سیشن سے قبل پھر مندر کی سیاست
سیمی فائنل … راجستھان میں کانگریس کے اچھے دن

رشیدالدین
پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس سے عین قبل سنگھ پریوار کو رام مندر کی یاد آگئی۔ جب کبھی انتخابات کا موسم آتا ہے ، سنگھ پریوار رام مندر مسئلہ کو ہوا دینے لگتا ہے۔ جب بھی بی جے پی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی جذباتی مسائل چھیڑ دیئے گئے۔ اب جبکہ لوک سبھا کے عام انتخابات قریب ہیں، اس مسئلہ کے ذریعہ حکومت کی ناکامیوں کی پردہ پوشی کی کوشش کی جارہی ہے۔ پارلیمنٹ میں رام مندر کی تعمیر کیلئے قانون سازی کے مطالبہ میں شدت پیدا کرنے دہلی میں ریالی منظم کی گئی۔ اس کے علاوہ ایودھیا کے متنازعہ مقام پر سنتوں نے اجلاس منعقد کیا۔ 5 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی سنگھ پریوار کو مندر کی یاد ستانے لگی۔ حالیہ عرصہ میں آر ایس ایس ، وی ایچ پی اور شیوسینا نے مندر کے نام پر ہندوؤں کو متحد کرنے کی کوشش کی ۔ نفرت کے ایجنڈہ کے ساتھ سماج کو بانٹنے کی کوششوں پر حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ کیا ملک کے قانون ساز ادارہ اسی لئے ہیں کہ وہاں عبادتگاہوں کی تعمیر یا انہدام کے فیصلے ہوں۔ عوام اپنے نمائندوں کو بنیادی مسائل کے حل کیلئے منتخب کرتے ہیں۔ حکومت جانتی ہے کہ رام مندر کیلئے قانون سازی ممکن نہیں کیونکہ اراضی کی ملکیت کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے ۔ اگر قانون سازی کرنی ہے تو مندر سے قبل شہید کی گئی مسجد کی دوبارہ تعمیر کے حق میں کی جانی چاہئے جسے سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود شہید کردیا گیا۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی کے قائدین قانون سازی یا آرڈیننس کے سلسلہ میں بیانات دے رہے ہیں لیکن وزیراعظم نریندر مودی نے آج تک اس مسئلہ پر لب کشائی نہیں کی۔ دراصل وہ خود بھی چاہتے ہیں کہ مسئلہ گرم رہے تاکہ 2019 عام انتخابات میں کام آئے۔ سنگھ پریوار کو ناراضگی اس بات پر ہے کہ سپریم کورٹ نے مقدمہ کی فوری سماعت سے انکار کرتے ہوئے جنوری کے پہلے ہفتہ میں سماعت کی تاریخ مقرر کی۔ سنگھ پریوار عدلیہ کو بھی اپنی مرضی مطابق چلانا چاہتا ہے۔

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کے خلاف ریمارکس کئے گئے ، ان میں بعض مرکزی وزراء بھی شامل تھے۔ اگر یہی بیانات کسی اور طبقہ کی جانب سے دیئے جاتے تو توہین عدالت کا مقدمہ درج ہوجاتا۔ پانچ ریاستوں کے چناؤ میں بھی اس مسئلہ کو خوب اچھالا گیا اور اب لوک سبھا چناؤ کا ایجنڈہ طئے ہورہا ہے۔ بی جے پی کیلئے یہ آخری سہارا ہے ۔ اسمبلی چناؤ میں اگر بی جے پی کو شکست ہوتی ہے تو منافرت کے ایجنڈہ پر انحصار کیا جائے گا ۔ اگر مظاہرہ بہتر رہا تو پھر ترقی کا نعرہ برقرار رہے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام نفرت اور سماج کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کے ایجنڈہ سے عاجز آچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی سیاسی فائدہ اٹھانا ہو ، اس مسئلہ کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سنگھ پریوار، آر ایس ایس اور بی جے پی کو مسئلہ کی یکسوئی سے دلچسپی نہیں اور وہ ہمیشہ اسے زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ عرصہ میں رام مندر کی کسی بھی تحریک کو عوامی تائید حاصل نہیں ہوئی ۔ گزشتہ ماہ وشواہندو پریشد اور شیوسینا نے ایودھیا میں لاکھوں افراد کو جمع کرنے کا اعلان کیا لیکن دونوں کو مایوسی ہوئی۔ مقررہ وقت سے قبل ہی پروگرام کو ختم کرنا پڑا۔ آر ایس ایس نے دہلی سے ایودھیا تک سنکلپ یاترا کا آغاز کیا جس کے اہتمام میں آر ایس ایس کی تمام محاذی تنظیمیں شامل تھی لیکن یاترا کے آغاز میں 100 افراد بھی جمع نہیں ہوئے۔ آر ایس ایس کی اپیل کا جب یہ حشر ہوا تو دوسری تنظیموں کا کیا ہوگا۔ رام مندر مسئلہ سے عوام کی عدم دلچسپی دراصل اس کی ناراضگی کا ثبوت ہے۔ مذہب کے نام پر سیاست اب چلنے والی نہیں۔ عوام کو بنیادی مسائل پر توجہ چاہئے ۔ آزادی کے 70 سال بعد بھی غربت ، بیروزگاری ، بیماری اور بھوک مری جیسے مسائل سے نجات حاصل نہیں ہوئی ۔ عوام کی عدم دلچسپی اور مذہبی ایجنڈہ کو مسترد کرنے کے باوجود 2019 ء میں اسی ایجنڈہ کو مسلط کرنے کیلئے ماحول کو بگاڑا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی جو محض 33 فیصد ووٹ کے ذریعہ برسر اقتدار آئی ہے ، اسے پھر ایسے سنہری مواقع حاصل نہیں ہوں گے ۔ کانگریس کی کمزوری اور اپوزیشن کے ووٹ کی تقسیم کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوا تھا لیکن اب 2019 ء میں اپوزیشن جماعتیں متحد ہورہی ہیں۔

ملک کی پانچ ریاستوں کے چناؤ میں سیاسی جماعتوں کی قسمت کا فیصلہ ووٹنگ مشینوں میں بند ہوچکا ہے ۔ رائے شماری کیلئے دو دن باقی ہے اور یہ نتائج 2019 ء عام انتخابات کے سیمی فائنل سے کم نہیں۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں رائے دہی کے فوری بعد پانچ ریاستوں کے بارے میں جو اگزٹ پول منظر عام پر آئے ہیں ، وہ بی جے پی کیلئے حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ اگزٹ پول کے مطابق راجستھان میں بی جے پی اقتدار سے محروم ہوجائے گی اور کانگریس برسر اقتدار آسکتی ہے جبکہ مدھیہ پردیش میں کسی بھی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔ جہاں تک چھتیس گڑھ کا سوال ہے ، وہاں رمن سنگھ کی بی جے پی حکومت دوبارہ اقتدار میں رہے گی۔ تلنگانہ میں قومی نیوز چیانلس کا اگزٹ پولس ٹی آر ایس کے حق میں ہے جبکہ مقامی اداروں نے عوامی اتحاد کی کامیابی کی پیش قیاسی کی ہے۔ راجستھان میں اقتدار سے محرومی بی جے پی کیلئے بڑا جھٹکا ہے اور کانگریس کے اچھے دنوں کے آغاز کی علامت ثابت ہوسکتا ہے ۔ مدھیہ پردیش میں ہنگ اسمبلی سے شیوراج سنگھ چوہان حکومت کی عدم مقبولیت اور عوامی ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے۔ علحدہ ریاست چھتیس گڑھ کے قیام کے بعد سے رمن سنگھ ریاست میں اپنی گرفت مضبوط کئے ہوئے ہیں۔ تلنگانہ ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کا بہتر مظاہرہ قومی سیاست میں اہم تبدیلی کا آغاز ثابت ہوگا۔ راہول گاندھی نے غیر بی جے پی جماعتوں کو متحد کرنے کی جو کوشش شروع کی ہے ، اس میں یقیناً پیشرفت ہوگی۔ تلنگانہ میں راہول گاندھی اور چندرا بابو نائیڈو کا ایک ہی اسٹیج سے مہم چلانا غیر بی جے پی جماعتوں کو متحد کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ بی جے پی کو تینوں ریاستوں میں اقتدار کی برقراری کا یقین تھا اور وزیراعظم نریندر مودی نے پارٹی کی ساری طاقت کو جھونک دیا تھا ۔ باوجود اس کے کہ عوام نے کارکردگی کی بنیاد پر بی جے پی حکومت کے خلاف فیصلہ سنایا ہے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ تینوں ریاستوں کے مایوس کن مظاہرہ کے بعد بی جے پی جذباتی مسائل کو اپنے ایجنڈہ میں سرفہرست رکھے گی۔ چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ نے تلنگانہ اور راجستھان میں اپنی متنازعہ تقاریر کے ذریعہ پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے۔ راجستھان میں بی جے پی سے وابستہ کئی اقلیتی قائدین نے یوگی ادتیہ ناتھ کی تقاریر کے بعد پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ۔ ریاستوں کے نتائج کے بعد اس بات کا امکان بھی ہے کہ نریندر مودی پارٹی کو مزید نقصان سے بچانے کیلئے لوک سبھا کے انتخابات مقررہ وقت سے قبل کرانے کا فیصلہ کریں گے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 2014 ء میں نریندر مودی نے اپنی مقبولیت کا جو گراف بنایا تھا، وہ تیزی سے گرنے لگا ہے ۔ مخالف عوام فیصلوں کے علاوہ نفرت کے سوداگروں کو کھلی چھوٹ نے انصاف پسند اور جمہوریت پر ایقان رکھنے والی طاقتوں کو مایوس کردیا ہے۔ نریندر مودی نے اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف مظالم پر کوئی کارروائی نہیں کی ، برخلاف اس کے حکومت میں شامل افراد نے گاؤ رکھشکوں اور قاتلوں کی کھلے عام تائید اور گلپوشی کی۔ گاؤ رکھشا کے نام پر تشدد کا سلسلہ ملک میں ابھی تھما نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں اترپردیش میں گاؤ رکھشکوں نے ایک پولیس عہدیدار کو اسی کی سرویس ریوالور سے گولی مارکر ہلاک کردیا ۔ اترپردیش میں امن و ضبط کی صورتحال ابتر ہوچکی ہے اور نفرت پھیلانے والی تنطیموں کو حکومت کی کھلی سرپرستی حاصل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 2019 ء میں بی جے پی کا نفرت پر مبنی ایجنڈہ کس حد تک کارگر ثابت ہوگا اور اپوزیشن اتحاد، بی جے پی سے مقابلہ کرنے کیلئے عوام کی تائید حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوگا ؟ الغرض اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ 2019 ء کا فائنل بی جے پی اور کانگریس زیر قیادت اتحاد کے درمیان ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ 11 ستمبر سے شروع ہونے والے لوک سبھا کے سرمائی اجلاس پر اسمبلی نتائج کا اثر کس حد تک پڑے گا ۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف متحدہ موقف اختیار کریں گی اور رام مندر پر آرڈیننس کا مسئلہ بھی ایوان میں مباحث کا موضوع بن سکتا ہے۔ بی جے پی 2019 ء چناؤ کو پیش نظر رکھتے ہوئے فرقہ پرستی کے ایجنڈہ کو پارلیمنٹ میں پیش کرسکتی ہے۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے کیا خوب کہا ہے ؎
عجیب لوگ ہیں ان پر تو رحم آتا ہے
جو کانٹے بو کے زمین سے گلاب مانگتے ہیں