جو لوگ محنت کرتے وہ شکایت نہیں کرتے

محمد مصطفی علی سروری
منصور کی عمر صرف 10 برس تھی جب اس کے والد کا انتقال ہوگیا تھا ، منصور کے گھر میں اس کی چھ بہنیں اور وہ دو بھائی تھے ویسے بھی منصور کوئی بہت بڑے گھر سے تعلق نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی کوئی بہت بڑے پرائیویٹ اسکول میں پڑھتا تھا ۔ جب وہ سات برس کا تھا تب سے ہی وہ اپنے والد کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے لگا تھا ۔ منصور کے والد ہی نہیں والدہ بھی کام کرتی تھی ، یہ لوگ کیا کام کرتے تھے ، وہ بھی جان لیجئے اخبار بنگلور مرر کے مطابق منصور کے والدین دن بھر کچرا چنا کرتے تھے اور پھر اس کچرے کو الگ کر کے اس میں سے قابل استعمال اور فروخت ہونے والے سامان کو نکال کر بیچا کرتے تھے ، اس وقت بھی ایک مہینے کے دوران منصور تقریباً 500 کیلو تک کچرا چن لیا کرتا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد منصور چونکہ گھر میں سب سے بڑا تھا تو 9 بھائی بہنوں کی کفالت کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر ہی آن پڑی ، منصور اب اپنی ماں کے ساتھ کچرا چننے اور پھر اس کو الگ کر کے بیچنے کے کام میں لگ گیا ۔ اپنے گھر کے قریب میں ان لوگوں نے ایک دکان بھی لگالی جہاں پر دیگر کچرا چننے والے آتے اور اپنا کچرا اور دوبارہ قابل استعمال چیزیں فروخت کرتے ۔ اب تو روزانہ ہی منصور کی دکان پر 500 کیلو تک اسکراپ اور کچرا آنے لگا تھا ۔ آج منصور شہر بنگلور میں Dry Waste Collection Centre چلاتا ہے۔ سال 2015 ء میں جب پیرس ، فرانس میں عالمی موسمیاتی تبدیلی کی کانفرنس منعقد ہوئی تو منصور کو اس میں تقریر کرنے اوراپنے تجربات سنانے کی دعوت دی گئی ۔ منصور چونکہ انگریزی سے واقف نہیں تھا تو اس کیلئے باضابطہ طور پر ایک ٹرانسلیٹر رکھا گیا تھا ۔ پیرس کی کانفرنس میں منصور نے اپنی زندگی کی کہانی کو سنایا اور بتلایا کہ کس طرح سے اس نے کچرا چننے سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور آج بنگلور شہر میں کچرے سے قابل استعمال اشیاء کو نکال کر بیچنے کا کام کر رہا ہے ۔ آج منصور کے ہاں 12 لوگ کام کرتے ہیں اور ایک مہینے کے دوران منصور 10 تا 12 ٹن کچرے کو جمع کر کے اس میں سے قابل استعمال اشیاء نکال کر فروخت کرنے کا کام کرتا ہے۔

قارئین اکرام آپ حضرات سوچ رہے ہوں گے کہ منصور کی کہانی سے ہمیں کیا لینا دینا بھئی ، کچرا تو ہمیشہ سے نکلتا ہی رہا ہے اور ہمیشہ سے ہی کچھ لوگ ایسے رہے ہیں جو کچرے میں سے کام کی اور دوبارہ قابل استعمال چیزیں نکال کر اپنی گزر بسر کا سامان پیدا کرلیتے ہیں ۔ قارئین میں بڑے ہی ادب و احترام کے ساتھ دراصل یہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ ہم مسلمانوں کو خاص کر حلال طریقے سے کمائی کرنے کیلئے ممکن ہر کوشش کرنی چاہئے اور اب روٹی روزی کمانے کے طریقے بدل گئے ہیں، جی ہاں آپ حضرات اپنے محلوں اور گلی کوچوں میں روزانہ کچرا لے جانے والے جن آٹو ٹرالیوں کو دیکھتے ہیں کیا آپ نے سوچا ہے کہ وہ لوگ ماہانہ کتنا کمالیتے ہیں ۔ بظاہر گندے کپڑے اور میلی کچیلی حالت میں ’’اماں کچرا‘‘ کی آواز لگاکرآپ کے گھر سے کچرا لے جانے والے لوگوں کو GHMC کی جانب سے آ ٹو کی ٹرالی فراہم کی گئی ہے اور ایک آٹو ٹرالی کو تقریباً 800 گھروں سے ہر روز کچرا جمع کرنے کام دیا گیا ہے اور یہ کچرا لے جانے والے ہر گھر سے 50 روپئے ماہانہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ تو وہ رقم ہے جو GHMC نے طئے کر رکھی ہے اور اگر ہم اس حساب سے اندازہ لگائیں تو پتہ چلے گا کہ ایک آٹو ٹرالی والا لوگوں کے گھروں سے کچرا اٹھاکر ہی ماہانہ 40 ہزار جمع کرلیتا ہے اور پھر اس کچرے سے قابل استعمال یا دوبارہ استعمال اشیاء کی فر وخت سے ہونے والی آمدنی کا سرکار کو کوئی حساب بھی نہیں دیتا ہے۔
GHMC کی جانب سے ابھی تک دو ہزار کچرا جمع کرنے کے آٹو ٹرالیاں تقسیم کی گئی ہیں۔ 7 ڈسمبر 2017 ء کی تلنگانہ ٹوڈے کی ایک خبر کے مطابق مجلس بلدیہ نے اب مزید 500 کچرا جمع کرنے والی گا ڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انجنیئرس اور ڈاکٹرس کتنا کماتے ہیں ، مجھے نہیں معلوم ہے لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف مجلس بلدیہ کے حدود میں جملہ 2500 کچرا جمع کرنے کی ٹرالیاں ہوجائیں گی اور ہر ایک ٹرالی چلانے والا ماہانہ 40,000 (چالیس ہزار) کمائے گا ۔ بہت سارے احباب اس بات سے بھی اتفاق کریں گے کہ ان کے ہاں سے کچرا لے جا نے والا ان سے ماہانہ 100 روپئے لیتا ہے۔

کچرا جمع کر کے ہم اپنے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں اور اس کچرے کی نکاسی کے لئے پیسے ادا کر کے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسری جانب اس کچرے کو ٹھکانے لگا کر اور دوبارہ قابل استعمال بناکر لوگ ماہانہ ہزاروں کی آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔
کیا جناب آپ کیا ہمارے بچوں کو اب کچرا چننے کیلئے بول رہے ہیں ، دماغ تو صحیح ہے نا آپ کا ؟ ارے قوم کے بچوں کی ترقی کی بات کرو بچوں کو ڈاکٹر بناؤ انجنیئر بناؤ ، آئی اے ایس بناؤ ، ساری دنیا کہہ رہی ہے مسلمانوں کو تعلیم حاصل کر کے آگے بڑھنا چاہئے اور آپ کا مشورہ ہے کہ کچرا جمع کر کے Recycle کر کے پیسے کماؤ ۔
جی ہاں میں مسلم قوم کے نوجوانوں کو محنت کر کے کمانے کی ترغیب دلا رہا ہوں ۔ اسکراپ کا کاروبار اور کچرے میں سے قابل استعمال اشیاء نکال کر فروخت کرنے کا کاروبار میری معلومات کے مطابق حرام نہیں ہے ۔
ہاں موبائل فون چوری کرنا حرام ہے ، شراب پینا حرام ہے ، نشہ آور اشیاء کا استعمال حرام ہے ، جوا سٹہ سب حرام ہے ۔ گاڑی ہی نہیں گاڑیوں کا پٹرول چرانا حرام ہے ۔ کاروبار کے نام پرلوگوں سے پیسے جمع کر کے دھوکہ دینا حرام ہے ۔
تعلیم سے میں نے کبھی کسی مسلمان کو نہیں روکا ہے لیکن مسلمان بچے کیسی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انجنیئرنگ کا کورس تو چار سال کا ہے مگر بعض بچے ایسے ہیں جواس سے بھی زیادہ وقت اس ڈگری کے حصول کیلئے لگا رہے ہیں اور کورس کی تکمیل کے بعد بھی اپنے جیب خرچ تک کے بھی پیسے والدین سے لے رہے ہیں۔ ایک تعلیم تو وہ بچے بھی حاصل کر رہے ہیں، جن کا تعلق افغانستان سے ہے ۔ حیدرآباد دکن کے ایف بی کے صفحے پر 11 ڈسمبر 2017 ء کو ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی جس میں بتلایا گیا کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے دو طلباء جو اسٹوڈنٹ ویزا پر حیدرآباد آئے تھے ، اب اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے افغانی روٹیاں بناکر بیچ رہے ہیں اور اخراجات ہی نہیں بلکہ منافع بھی کما رہے ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق عبداللہ اور اس کے دوست نے وجئے نگر کالونی ملے پلی کے پاس افغان روٹی کی ایک دکان کھول لی ہے ۔ جہاں پر وہ روزانہ صرف روٹیاں بیچ کر 6 ہزار روپئے کما رہے ہیں۔ ان کی دکان ہر روز اور سال کے 365 دن کھلی ہے اور رو زانہ چھ ہزار کے اوسط سے افغانی روٹیاں بیچ کر یہ افغان طلباء ہر ماہ ایک لاکھ اسی ہزار کمارہے ہیں۔ صرف افغانستان کے طلبہ ہی محنت کر کے پڑھائی نہیں کرتے ، ہندوستانی طلباء بھی محنت کرتے ہیں۔
اخبار انڈین اکسپریس میں 16 ڈسمبر 2017 ء کو ایک ایسے ہی محنتی نوجوان کی خبر شائع ہوئی ہے ۔ سید سلمان نام کا یہ لڑکا ایک زمانہ میں ممبئی کے فٹ پاتھ پر گھوم گھوم کر کاروبار کیا کرتا تھا ۔ حاجی علی کے سگنل پر کتابیں فروخت کرتا اور ممبئی کے فٹ پاتھ پر ہی اس کی زندگی گزرتی تھی ۔ ممبئی میں گھوم پھر کر پیسے کمانے والے نوجوان سید سلمان نے پیسے کماکر اپنی اعلیٰ تعلیم کیلئے خود ہی اپنی مدد آپ کی اور آج ٹیکساس امریکہ میں آگے کی تعلیم حاصل کررہا ہے۔ ICICI اگرچہ ایک پرائیوٹ بینک ہے اور یہ بینک کسی کو انجنیئر نہیں بناتا اور نہ ہی ان کا کوئی انجنیئرنگ کالج ہے مگر اپنی Corporate Social Responsibility کے تحت اس بینک کی اکیڈیمی فار اسکل نے سال 2013 ء سے لیکر اب تک حیدرآباد اور تلنگانہ کے 7,300 بیروزگار نو جو انوں کو مختصر مدتی ٹریننگ دیکر نوکری حاصل کرنے میں مدد کی ۔ اخبار Hans India اگست 2017 ء کی رپورٹ کے مطابق ICICI کی اکیڈیمی نے صرف ٹریننگ ہی نہیں دی بلکہ ٹریننگ کے بعد سو فیصدی بچوں کو نوکری بھی دلوائی جن کی تنخواہیں 10 ہزار سے لے کر 25 ہزار تھی۔ جن بچوں نے ٹریننگ حاصل کی ان کی قابلیت دسویں کامیاب سے لے کر ڈگری کامیاب تھی۔ ان مثالوں کے ذریعہ سے جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ حیدرآباد و تلنگانہ میں Job اور بز نس کا مارکٹ پوری طرح بدل گیا ہے ۔ انجنیئر ضرور بیکار ہوسکتا ہے مگر ایک گریجویٹ 25 ہز ار کی تنخواہ کما سکتا ہے اور کما رہا ہے ۔ محنت سے جی چرانے والا فری میں تعلیم حاصل کر کے بھی نوکری حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتا ہے ۔ محنت میں یقین رکھنے والے کچرے کا کاروبار کر کے بھی لاکھوں کمالیتے ہیں اور پیسہ کمانے کیلئے پیسے کو ضروری سمجھنے والے لاکھوں کا بزنس شروع کر کے بھی نقصان ہی میں رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین رکھنے والا محنتی کم پیسوں سے بھی کام شروع کر کے نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کیلئے بھی روزگار کے مواقع بنالیتا ہے ۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی پیاری تعلیم دی کہ ’’دینے والا ہاتھ بہتر ہے لینے والے ہاتھ سے‘‘ اور ہم مسلمان کیا بوڑھا کیا جوان اپنے ہاتھوں میس کاسہ گدائی لئے کھڑے نظر آتے ہیں۔ جوان شادی کیلئے جہیز مانگ رہا ہے ۔ پڑھائی کے لئے اسکالر شپ اور جاب کیلئے ریزرویشن ۔ یہ تو لڑکوں کا حال ہے اور ممبئی کی 30 سالہ خاتون رضوانہ شیخ نے اولا کیاب کے لئے بطور ڈارئیور کام کرتے ہوئے ثابت کیا کہ جو لوگ محنت کرنا پسند کرتے ہیں وہ شکایت نہیں کرتے۔
sarwari829@yahoo.com