جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

رشیدالدین

پی ڈی پی۔ بی جے پی اتحاد… موقع پرستانہ
دہلی میں وعدوں پر عمل آوری کا آغاز

کسی بھی کام میں کامیابی کیلئے نیت کا بڑا دخل ہوتا ہے اور عزم کے ساتھ نیک نیتی ہو تو عام آدمی بھی کارنامے انجام دے سکتا ہے۔ نئی دہلی میں اروند کجریوال نے عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کا آغاز کرتے ہوئے ثابت کردیا ہے کہ خدمت کا جذبہ رکھنے والوں کیلئے کوئی بھی طاقت رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ عوام سے وعدے کرنا اور پھر انتخابات کے بعد انہیں فراموش کردینا سیاسی جماعتوں کا کھیل ہے لیکن چونکہ عام آدمی پارٹی پر ابھی تک سیاسی رنگ نہیں چڑھا ، لہذا اس نے عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ آج کی سیاست کا دوسرا نام موقع پرستی ہے اور اقتدار و کرسی کیلئے نظریات اور اصولوں کو بھی قربان کردیا جاتا ہے ۔ سیاست میں کبھی عوامی خدمت ہی نصب العین ہوا کرتا تھا لیکن آج مفاد اور موقع پرستی کا راج ہے۔ اروند کجریوال نے برقی شرحوں میں 50 فیصد کٹوتی اور پانی کی مفت سربراہی کا اعلان کرتے ہوئے عوام کے ہمدرد اور خیر خواہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے سیاستدانوں کو نئی راہ دکھائی ہے۔ برقی اور پانی یقینی طور پر ہر سطح کے عوام کی بنیادی ضرورت ہے اور اسے فراہم کرنا ہر حکمراں کی ذمہ داری ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ رعایا پرور بادشاہوں کے دور میں پانی اور دیگر بنیادی سہولتیں مفت تھیں لیکن آج ان پر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے ۔ اروند کجریوال نے عوام سے کئے گئے وعدوں کو حقیقت میں ڈھالتے ہوئے وسائل کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ کرپشن سے پاک حکومت کا عزم رکھنے والے اروند کجریوال اور ان کی ٹیم کو پتہ ہے کہ بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کے خاتمہ کے ذریعہ سرکاری خزانہ کو لٹنے سے بچایا جاسکتا ہے ، لہذا برقی شرحوں میں کمی اور پانی کی مفت سربراہی کے فیصلوں پر بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ برقی اور پانی جیسی عوامی بنیادی ضرورت مہنگی ہوچکی ہے،

حکومت کی شاہ خرچیوں اور وی آئی پی کلچر کے خاتمہ کے ذریعہ اس رقم کو عوامی بھلائی پر خرچ کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ جہاں عزم صمیم اور نیک نیتی ہو تو کامیابی کی راہیں کھل جاتی ہیں جس کا جیتا جاگتا ثبوت عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔ اروند کجریوال نے جیسے ہی عوام کے حق میں فیصلے کئے، اس کا اثر ریلوے بجٹ پر دیکھا گیا۔ ریل کرایوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی نئی ٹرین کا اعلان ہوا۔ عام طور پر کرایہ میں اضافہ کے ذریعہ نئی ٹرینوں کے آغاز کی اسکیم پر عمل آوری کی جاتی ہے لیکن عام آدمی حکومت کے زیر اثر مرکز نے کسی بوجھ کے بغیر ریلوے بجٹ پیش کردیا۔ مرکز نے مسافرین کیلئے سہولتوں میں اضافہ اور بہتری کا اعلان کیا لیکن ان میں بیشتر سہولتیں پہلے ہی سے موجود ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دہلی اسمبلی کے نتائج اور عام آدمی حکومت سے سبق لیتے ہوئے مرکز ریلوے کرایوں میں کمی نہ سہی کم از کم پلیٹ فارم ٹکٹ کی برخاستگی کا فیصلہ کرتا جو عوام پر زائد بوجھ ہے۔ مسافرین کا کرایہ ہی پہلے سے ایک زائد بوجھ ہے، اس پر ان کے وداع اور استقبال کیلئے آنے والوں پر بوجھ عائد کرنا کہاں تک درست ہے ؟ جہاں نیت کا ذکر ہو تو وہاں نیتی کا بھی تذکرہ ضروری ہوجاتا ہے ۔ مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی نیت کے ساتھ نیتی بھی صاف نہیں جس کے نتیجہ میں مذہبی رواداری اور مذہبی آزادی سے متعلق دنیا بھر کی نصیحتوں کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے ۔ امریکی صدر براک اوباما نے دورہ ہند اور واپسی کے بعد ہندوستان کو دستور میں دیئے گئے مذہبی آزادی کے حق کی یاد دلائی۔ اوباما کے دباؤ کے زیر اثر وزیراعظم نریندر مودی نے نہ صرف عیسائیوں کی تقریب میں شرکت کی بلکہ مذہبی آزادی اور رواداری کے سبق کو دہرایا تاکہ عیسائی مذہب اور امریکہ کی خوشنودی حاصل کی جاسکے۔ اوباما کی نصیحتیں اور مودی کا اقرار ایک طرف جاری تھا تو دوسری طرف سنگھ پریوار کی اشتعال انگیزی بھی جاری رہی۔ مہنت ادتیہ ناتھ جو بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہیں، انہوں نے گھر واپسی کے مسئلہ پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے مودی کے دعوؤں کی ہوا نکال دی اور مدر ٹریسا اور کرسچن مشنریز کو نشانہ بنایا۔

یوں تو موہن بھاگوت نے کئی بار مسلمانوں کے خلاف بھی زہر اگلنے کا کام کیا لیکن مدر ٹریسا کے بارے میں ان کا بیان چونکا دینے والا تھا اور اس بیان نے نریندر مودی کو ’’دھرم سنکٹ‘‘ میں ڈال دیا ہے۔ مودی اس بیان کو قبول کرنے اور نہ ہی انکار کرنے کے موقف میں ہیں۔ ایک طرف اوباما تو دوسری طرف سارا سنگھ پریوار تھا جس کی طاقت پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی جاتی ہے۔ بی جے پی جس کی سیاسی سرپرست آر ایس ایس ہے، اس کے سر سنچالک کی زبان سے مدر ٹریسا کو نشانہ بنانے پر ساری حکومت سکتہ میں آگئی اور آج تک بی جے پی اور نہ ہی حکومت کی جانب سے کھل کر اس کی مذمت کی گئی۔ کل تک آر ایس ایس سے تعلق پر فخر کا اظہار کرنے والے وینکیا نائیڈو بھی یہ کہتے ہوئے اپنا دامن بچاتے رہے کہ کسی بھی انفرادی شخص کی رائے سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ موہن بھاگوت کے اس بیان کے پس پردہ مقاصد جو کچھ بھی ہوں لیکن ان کا بیان تلخ حقیقت پر مبنی ہے۔ کیا ملک میں مشنریز کی جانب سے انسانیت کی خدمت کے نام پر تبدیلی مذہب کی مہم سے انکار کیا جاسکتا ہے؟ مشنریز نے خدمت کے نام پر معاشی بدحال غریب دلتوں کے ساتھ مسلم خاندانوں کو بھی نشانہ بنایا اور اس کی کئی مثالیں خود تلنگانہ کے دیہی علاقوں میں دیکھنے کو ملیں گی۔ بعض مقامات پر اگر غریب مسلم خاندانوں کو اسلام سے پھیرنے میں ناکامی ہوئی تو ایک سازش کے تحت انہیں قادیانی بنادیا گیا۔ جب کسی کا جبری طور پر مذہب تبدیل نہیں کیا جاسکتا تو ٹھیک اسی طرح لالچ کے ذریعہ بھی اس کی اجازت نہیں۔ مشنریز دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے غریب مسلم خاندانوں کو مالی امداد کا لالچ دے کر نشانہ بنا رہے ہیں۔ خدمت کی آڑ میں جبری طور پر نہ سہی ، لالچ کے ذریعہ تبدیلی مذہب کیلئے راغب کیا جاتا ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہر دور میں اسلام اور مسلمانوں کو زیادہ خطرہ یہود و نصاریٰ سے رہا ہے۔ اس کام کیلئے دنیا بھر سے فنڈس حاصل ہوتے ہیں جس کا کوئی حساب نہیں۔ اس کام کے نتیجہ میں دلت کرسچن کی اصطلاح وجود میں آئی ہے اور دلت کرسچن کو ہندو دلتوں کے مساوی مراعات حاصل ہیں ۔ برخلاف اس کے جب کوئی دلت اسلام قبول کرتا ہے تو وہ دلتوں کے مراعات سے محروم ہوجاتا ہے۔ یقیناً ملک میں مشنریز کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

اقتدار کیلئے اصولوں سے انحراف کی بدترین مثال جموں و کشمیر میں دیکھنے کو ملی ہے جہاں نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے زبردست تضاد کے باوجود پی ڈی پی اور بی جے پی نے تشکیل حکومت کیلئے اتحاد کرلیا۔ یہ موقع پرستی کی انتہا اور شرمناک مفاہمت ہے۔ ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ہندوتوا کے نظریات رکھنے والی بی جے پی کو ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست پر اقتدار کا موقع حاصل ہوگا۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کا یہ دیرینہ خواب تھا اور حیرت ہے کہ کشمیریت اور کشمیری عوام کے حقوق کیلئے جدوجہد کا دعویٰ کرنے والی پارٹی پی ڈی پی نے بی جے پی کیلئے راستہ ہموار کیا۔ پی ڈی پی کیلئے ایسی کیا مجبوری تھی کہ اس نے اقتدار کیلئے ان اصولوں سے انحراف کرلیا جن کے نام پر وادی میں عوام کی تائید حاصل کی گئی تھی۔ بی جے پی سے اتحاد دراصل کشمیری عوام کے فیصلہ کی توہین اور عوامی فیصلے کی مخالفت ہے۔ انتخابات میں بی جے پی صرف جموں تک سمٹ کر رہ گئی جبکہ وادی اور لداخ میں رائے دہندوں نے اسے مسترد کردیا۔ دراصل عوامی رائے کے خلاف سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے بی جے پی سے اتحاد کا فیصلہ کرتے ہوئے پی ڈی پی نے اپنے زوال کا خود فیصلہ کرلیا اور اب اسے عوامی رائے کے خلاف جانے کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔ ہندوستان کا حصہ ہونے کے باوجود کشمیری عوام اور بالخصوص قیادت کا مزاج ہندوستانی مسلمانوں کے مزاج سے مختلف ہے۔ سابق میں نیشنل کانفرنس نے بابری مسجد کو بچانے میں ناکام کانگریس پارٹی سے اتحاد کیا تھا لیکن اب مفتی محمد سعید نے عمر کے اس حصہ میں چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے ایسی پارٹی سے اتحاد کیا ہے جو شہادت بابری مسجد میں ملوث ہے۔ جو ہاتھ مسجد کی شہادت میں استعمال ہوئے اور جو ہاتھ مسلمانوں کے خون ناحق سے رنگے ہوئے ہیں، ان سے پی ڈی پی نے ہاتھ ملایا۔

انہیں مسلمانوں، اسلام اور غیرت ایمانی کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہے۔ انہیں مسلم مسائل اور ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات سے کوئی تعلق نہیں۔ ملک میں یکساں سیول کوڈ کا نفاذ ابھی بھی بی جے پی کے ایجنڈہ میں شامل ہے۔ کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 صرف ریاست کا مسئلہ ہے لیکن بابری مسجد اور یکساں سیول کوڈ جیسے امور کا تعلق راست ایمان سے ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اس بات پر فخر ہے کہ کشمیری مسلمانوں نے ہندوستان کا حصہ رہنے کو ترجیح دی لیکن آج مسلمانوں کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ کہاں گئی ملی حمیت اور جذبہ ایمانی؟ کیا کشمیریت یہی ہے کہ پڑوسی ملک کے اشارہ پر کچھ حرکت کریں اور پھر اقتدار کیلئے ملی مفادات اور مسلمانوں کے جذبات کا سودا کرلیا جائے۔ اگر کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی تائید سے حکومت بنانا منظور نہ تھا تو پی ڈی پی کو چاہئے تھا کہ وہ دوبارہ عوام سے رجوع ہوتی۔ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی جانب سے تائید کی پیشکش کے باوجود بی جے پی سے اتحاد دراصل ہندوستانی مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی سازش ہے۔ مفتی محمد سعید کو عمر کے اس حصہ میں اقتدار کی ہوس اور اپنی جانشین محبوبہ مفتی کو مرکزی حکومت میں شامل کرنے کی خواہش نے اتحاد پر مجبور کیا۔ وہ دن دور نہیں جب پی ڈی پی مرکز کی نریندر مودی حکومت میں شامل ہوجائے گی۔ مودی سے ہاتھ ملانے سے قبل مفتی محمد سعید انتخابی مہم کے دوران ’’باپ بیٹی‘‘ سے متعلق ریمارکس کو بھول گئے۔ مودی نے کہا تھا کہ کشمیر کی ترقی میں باپ بیٹی رکاوٹ ہیں اور ان سے نجات دلانے تک کشمیر ترقی نہیں کرسکتا۔ مودی نے باپ بیٹی کو کشمیر کیلئے بدشگون قرار دیا تھا۔ اب دونوں نے سب کچھ بھلاکر ہاتھ ملالیا ہے۔ پی ڈی پی کی یہ موقع پرستی اور وادی میں بی جے پی کو مستحکم کرنے کی کوشش کا عوام جائزہ لے رہے ہیں۔ دہلی میں بی جے پی کے صفائے کے بعد پی ڈی پی نے کشمیر میں اسے اقتدار میں شامل کرتے ہوئے نہ صرف مسلمانوں بلکہ سیکولر عوام کی دل آزاری کی ہے۔ متضاد نظریات رکھنے والوں کا اتحاد کبھی دیرپا ثابت نہیں ہوسکتا۔ بقول علامہ اقبال ؎
تمہاری تہذیب خود اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا