جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

رشیدالدین

دہلی …کانگریس کا ہاتھ عام آدمی پارٹی کے ساتھ
مظفر نگر متاثرین کی زبوں حالی…مسلم قیادت کی بے حسی
کانگریس نے گزشتہ عام انتخابات میں نعرہ لگایا تھا کہ ’’کانگریس کا ہاتھ عام آدمی کے ساتھ‘‘ لیکن یہ ہاتھ عام آدمی کے ساتھ تو نہ ہوسکا بلکہ عام آدمی پارٹی کے ساتھ ہوگیا۔ اسی نعرہ پر بھروسہ کرتے ہوئے 2009 ء کے عام انتخابات میں عوام نے کانگریس کا ساتھ دیا لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں عوام کے مسائل میں کمی اور مدد کیلئے یہ ہاتھ دراز ہونے کے بجائے مسائل میں اضافہ کا سبب بنا جس کے نتیجہ میں عوام نے کانگریس کے ہاتھ کا ساتھ چھوڑ کر اسے ہاتھ دے دیا۔ عوام کے درمیان اصول پسندی اور اصول پسند سیاست کی دہائی دی جاتی ہے لیکن جب انتخابات کی گھڑی آئے تو اصول پسندی موقع پرستی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور نام نہاد اصول پسندوں کے چہروں سے نقاب اترنے لگتی ہے۔ جب معاملہ اقتدار کا ہو تو اصول پسندی کو بالائے طاق رکھ کر عوامی مفاد کے نام پر شخصی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ دہلی میں ان دنوں یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ کانگریس کے 15 سالہ اقتدار میں بدعنوانیوں اور کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے کے بعد عام آدمی پارٹی نے اسی کانگریس کے سہارے پر حکومت قائم کرلی ۔ جس ہاتھ کو کرپشن میں لت پت کہا گیا تھا، تشکیل حکومت کیلئے اسی داغدار ہاتھ کو سہارے کے طور پر تھام لیا گیا۔

اس طرح عوام کو پاک و صاف بدعنوانیوں اور کرپشن سے پاک حکومت کا خواب دکھاکر عام آدمی پارٹی نے عام آدمی کو ہاتھ دے دیا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اروند کجریوال پر سیاسی رنگ چڑھنے لگا ہے ۔ ظاہر ہے کہ سیاست چیز ہی ایسی ہے کہ اس نے کسی اصول پسند کو بھی نہیں بخشا۔ دہلی میں عوام کا فیصلہ معلق اسمبلی کے حق میں آیا، ایسے میں کسی اتحاد کی کوئی گنجائش نہیں تھی تو پھر کانگریس کی تائید سے حکومت قائم کرنا اصول پسندی کے مغائر نہیں تو کیا ہے ؟ رائے دہندوں نے کانگریس یا بی جے پی کی تائید کے ساتھ حکومت کی تشکیل کے حق میں فیصلہ نہیں دیا۔ 70 رکنی اسمبلی کا جائزہ لیں تو رائے دہندوں نے عام آدمی پارٹی کو اہم اپوزیشن کا رول ادا کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ 32 ارکان کے ساتھ بی جے پی واحد بڑی جماعت بن کر ابھری جبکہ عام آدمی پارٹی 28 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ عوام نے عام آدمی پار ٹی کو تشکیل حکومت کا اختیار اور اس کے لئے درکار طاقت نہیں دی۔ جب بی جے پی نے چار ارکان کی کمی کے سبب تشکیل حکومت سے انکار کردیا تو عام آدمی پارٹی کو ایسی حماقت نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اسے دوبارہ عوام سے رجوع ہوکر واضح مینڈیٹ حاصل کرنا چاہئے تھا، بجائے اس کے کہ کانگریس کی مدد سے حکومت سازی کی پہل کی جاتی۔ اقتدار کون حاصل کرنا نہیں چاہتا ، وہ بھی ایسے وقت جبکہ وہ سامنے موجود ہو۔ ارون کجریوال نے تشکیل حکومت کی خوشی میں انتخابی مہم کے دوران کانگریس اور بی جے پی کی تائید حاصل نہ کرنے کے بارے میں اپنے بچوں کی قسم کو بھی بھلادیا ہے۔

انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کانگریس اور بی جے پی کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا۔ انا ہزارے کے ساتھ شروع کردہ تحریک کی بنیاد ہی کانگریس حکومت کے اسکامس اور بدعنوانیوں کے خلاف تھی۔ کانگریس پارٹی، حکومت، قیادت اور سسٹم کے خلاف جدوجہد کرنے پر دہلی کے عوام نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا لیکن کجریوال نے کانگریس کی غیر مشروط تائید کی آڑ میں تشکیل حکومت کو ترجیح دی ہے۔ انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد بھی کجریوال نے کسی کی تائید لینے یا دینے کو خارج از امکان قرار دیا تھا لیکن ایسی کیا مجبوری تھی کہ جس کے خلاف جنگ کی گئی اسی کا ہاتھ تھام لیا جائے۔ جہاں تک عوامی رائے حاصل کرتے ہوئے حکومت تشکیل دینے کا سوال ہے ، عام آدمی پارٹی نے عوام سے جو وعدے کئے تھے، عوام ان کی جلد تکمیل کے انتظار میں ہیں۔ لہذا انہوں نے بھاری بوجھ سے راحت کی امید کے ساتھ حکومت سازی کی تائید کی ۔ جب خوش کن وعدے ہوں تو عوامی تائید کا حاصل ہونا فطری ہے۔ کانگریس کی غیر مشروط تائید اور عام آدمی پارٹی کی جانب سے حکومت کی تشکیل دونوں بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔ دونوں نے عوامی فیصلے اور جمہوری اصولوں کا مذاق اڑایا ہے۔

تشکیل حکومت کے باوجود تضادات برقرار ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے تائید کے حصول کے سلسلہ میں کانگریس اور بی جے پی کو 18 نکات پر مشتمل مکتوب روانہ کیا تھا ۔ کانگریس نے ان نکات کا جواب دیئے بغیر صرف غیر مشروط تائید پر اکتفا کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اروند کجریوال نے 18 نکات پر کانگریس کا موقف جانے بغیر کس طرح تائید کو قبول کرلیا اور اب عوام سے کئے گئے وعدوں کا کیا ہوگا ؟ کانگریس ایک طرف منشور کی بنیاد پر تائید کا دعویٰ کر رہی ہے تو دوسری طرف یہ دھمکی بھی دی کہ سیاسی انتقام کی صورت میں وہ خاموش نہیں رہے گی ۔ مطلب صاف ہے کہ اگر شیلا ڈکشٹ یا ان کے وزراء کے خلاف جانچ یا کارروائی کی کوشش کی جائے تو کانگریس تائید سے دستبردار ہوجائے گی ۔ اروند کجریوال نے تشکیل حکومت کے اندرون 15 یوم جن لوک پال بل کی منظوری کے علاوہ برقی شرحوں میں 50 فیصد کٹوتی اور فی خاندان 700 لیٹر پانی کی مفت سربراہی جیسے وعدے کئے ہیں۔ لیکن حلف برداری سے ایک دن قبل انہوں نے جن لوک پال بل کے سلسلہ میں یہ کہہ کر دامن بچانے کی کوشش کی کہ کسی ریاست کو قانون سازی کیلئے مرکز کی اجازت کا لزوم عائد کردیا گیا ہے۔

دیگر دو وعدوں پر بھی عمل آوری ان کیلئے آسان نہیں۔ کجریوال نے یہ کہہ کر رائے دہندوں کو حیرت میں ڈال دیا کہ تمام مسائل کی فوری یکسوئی کیلئے ان کے ہاں کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہے۔ حکومت بننے سے قبل مرکز نے عام آدمی پارٹی کے بیرونی فنڈس کے معاملہ کی تحقیقات کا اعلان کیا جبکہ کجریوال کانگریس قائدین کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جو پارٹی حکومت کی باہر سے تائید کرے ، اس کی حکومت جب تحقیقات کا اعلان کردے تو پھر حکومت کے استحکام کی ضمانت کیا ہوگی ۔ ان تضادات کے ساتھ آخر حکومت کس طرح چل پائے گی ؟ دونوں پارٹیاں مل کر آخر کس کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ یہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا نہیں تو اور کیا ہے ؟ کیا کانگریس اپنے مستقبل کے بارے میں مایوس ہوچکی ہے ؟ دہلی کی طرح ملک کے دوسرے علاقوں میں کیا وہ عام آدمی پارٹی کی بی ٹیم بن کر رہ جائے گی؟ کانگریس غیر مشروط تائید کے نام پر دراصل سیاسی داؤ پیج سے ناواقف اروند کجریوال اور ان کے ساتھیوں کو امتحان میں ڈال کر انہیں ناکام ثابت کرنا چاہتے ہے۔ یہ مشروط تائید نہیں بلکہ کانگریس کا پھندا اور جال ہے جس میں عام آدمی پارٹی پھنس چکی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے قائدین عوامی تائید کے زعم پر اقتدار کے مزے لوٹنے میں لگ جائیں گے اور تائید کے نام پر کانگریس اقتدار پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرے گی۔ اگر حکومت گرتی ہے تو اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ عام آدمی پارٹی ہو کہ کانگریس کسی نے یہ نہیں کہا کہ بی جے پی کو اقتدار سے روکنے کیلئے یہ اتحاد کیا گیا ہے۔

دہلی میں اصول پسند سیاست کا انجام کچھ اس طرح دیکھنے کو ملا تو دوسری طرف اترپردیش کے مظفر نگر کے فساد متاثرین پر سیاست گرما چکی ہے۔ 4 ریاستوں میں پارٹی کی شکست کے بعد 2014 ء عام انتخابات کیلئے پارٹی نے نئی روح پھونکنے کی کوششوں میں مصروف کانگریس کے یوراج راہول گاندھی کو مظفر نگر متاثرین کی بے ساختہ یاد آگئی۔ وہ اچانک مظفر نگر کے ریلیف کیمپس پہنچے اور ان کی زبوں حالی کا مشاہدہ کیا ۔ راہول نے کیمپس کے معائنہ کے بعد پارٹی کی جانب سے کسی طرح کی امداد کا اعلان تو نہیں کیا لیکن اکھلیش یادو حکومت کو نصیحت کی اور ذمہ داری کا درس دیا۔ راہول گاندھی کی آمد کے موقع پر بعض متاثرین نے سیاہ پرچموں کے ساتھ مظاہرہ کیا تو راہول نے کہا کہ متاثرین کے بھیس میں سماج وادی کارکن تھے ۔ اس کے جواب میں ملائم سنگھ یادو کچھ اس طرح تلملا اٹھے کہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ریلیف کیمپس میں ایک بھی متاثر نہیں بلکہ کانگریس اور بی جے پی کارکن ہیں۔

ملائم سنگھ کا یہ بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور متاثرین کی توہین ہے ۔ ستمبر میں فسادات کے بعد سے 50 ہزار افراد سے زائد افراد بنیادی سہولتوں سے محروم ریلیف کیمپس میں بے یار و مددگار زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ آج تک بھی مظفر نگر کی صورتحال قابو میں نہیں ہے۔ انسانی حقوق اور سماجی تنظیموں کے مطابق گجرات کے بعد مظفر نگر کے فسادات منصوبہ بند تھے ۔ اقلیتوں کے چمپین ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملائم سنگھ یادو کیا اس حقیقت کو فراموش کرسکتے ہیں کہ اترپردیش میں ان کی پارٹی کا اقتدار اور اقلیتوں کے ووٹ کی بھیک کا نتیجہ ہے۔ کلیان سنگھ سے دوستی کے سبب ملائم سنگھ کا سیکولرازم بھی ڈگمگانے لگا ہے۔ جاریہ سال فرقہ وارانہ فسادات میں اترپردیش سارے ملک میں سر فہرست رہا۔ اگر ملائم سنگھ کے بیان کو درست مان لیا جائے تو یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ جبکہ یو پی کے چیف سکریٹری نے ملائم سنگھ کے بیان کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ حقیقی متاثرین ہی ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں۔ انہوں نے اعلیٰ سطحی کمیٹی کے حوالے سے بچایا کہ اب تک 40 معصوم بچوں کی اموات واقع ہوچکی ہیں۔ قومی میڈیا نے ریلیف کیمپس کو مسلم بچوں کے قبرستان سے تعبیر کیا ہے۔ کیا یہ مرنے والے بچے بھی کانگریس اور بی جے پی کے کارکن تھے ؟ ستمبر میں فساد ہوا لیکن آج تک متاثرین امداد سے محروم ہیں۔ متاثرین کی زبوں حالی کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ مسلم سیاسی ، غیر سیاسی جماعتیں ، تنظیمیں اور قیادت بھی برابر کی ذمہ دار ہیں۔ انتہائی شرم کی بات ہے کہ مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے بعض موقع پرست خود ساختہ رہنما ملائم سنگھ کے بیان کی تائید کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے پیش نظر راجیہ سبھا کی نشست ہو۔ دہلی میں تشکیل حکومت کیلئے غیر اصولی اتحاد ہو یا پھر مظفر نگر متاثرین کے نام پر سیاست ان حالات پر علامہ اقبال کا یہ مصرعہ کہا جاسکتا ہے ؎
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا