جو حادثہ ہوا بستی میں ٹل بھی سکتا تھا

محمد مصطفی علی سروری
رات کے بارہ بجے کا وقت ہوچکا تھا۔ شہر کے بازار بند ہوچکے تھے۔ اکا دکا کاروبار کرنے والی ٹھیلہ بنڈیاں بھی اب اپنے کاروبار کو سمیٹ کر واپسی کی راہ پر گامزن تھیں۔ شہر حیدرآباد کی سڑکوں پر ٹریفک بھی بہت کم تھی اور خاص طور پر دھول پیٹ، پرانا پل کی سڑک پر تو بہت ہی کم لوگ سفر کر رہے تھے کیونکہ وہاں پر باضابطہ چیکنگ بھی چل رہی تھی۔ ایسے میں ایک لڑکی ٹووہیلر گاڑی پر سوار وہاں آتی ہے۔ اکسائز والوں کو چیکنگ کرتا دیکھ کر ٹھہر جاتی ہے، پھر ایک گلی میں مڑ جاتی ہے۔ شائد راستہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہاں سے نکل کر پھر دوسری گلی میں جھانکنے کی کوشش کرتی ہے۔ اکسائز والے لڑکی کو دیکھ کر بالآخر روک ہی لیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیا ماجرا ہے۔ لیکن لڑکی تعلیم یافتہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ اکسائز والوں سے الجھ پڑتی ہے کہ ’’کیا رات میں اپنی گاڑی چلانا بھی جرم ہے، جو اس کو روکا جارہا ہے۔‘‘
لڑکی سے تھوڑی سی بات چیت کے بعد ہی اکسائز والے بھانپ لیتے ہیں کہ اس لڑکی کا مسئلہ کچھ گڑبڑ ہے۔ لڑکی سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کا فون نمبر دے۔ لڑکی اپنے آپ کو ایک اسٹوڈنٹ بتلاتی ہے اور کافی بحث کے بعد اپنے گھر والوں کو فون کر نے پر تیار ہوتی ہے اور اکسائز پولیس والے لڑکی کے ماں باپ سے بات کر کے انہیں دھول پیٹ بلا لیتے ہیں۔ لڑکی کے گھر والوں کو یہ سن کر بڑا تعجب ہوتا ہے کہ ان کی لڑکی آدھی رات کو اپنی گاڑی لے کر گھر سے باہر نکلی ہوئی ہے۔ خیر سے جب ماں باپ بھی وہاں پہنچتے ہیں، تو لڑکی بالآخر ایک ایسی بات کا انکشاف کرتی ہے کہ ماں باپ اور اکسائز والے بھی تعجب میں پڑجاتے ہیں۔ آدھی رات کے وقت وہ لڑکی دھول پیٹ کا رخ اس لیے کرتی تھی کہ اس کو نشہ کرنے کے لیے گانجہ چاہیے تھا۔ لڑکی کو گانجہ پینے کی عادت اس کے کالج کے دوستوں سے تحفہ میں ملی تھی اور ماں باپ چونکہ دونوں ہی سروس میں تھے اور جاب کرتے تھے تو انہوں نے اپنی لڑکی کو ہمیشہ پاکٹ منی کے طور پر بہت ساری رقم دینا ضروری سمجھا تھا اور کالج کی یہ اسٹوڈنٹ ان پیسوں کے ذریعہ اپنے لیے نشہ خریدا کرتی تھی، لیکن ایک مرتبہ والدین کو بھی احساس ہوگیا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ تو انہوں نے اچانک اپنی لڑکی کو پاکٹ منی دینا بند کردیا۔ ادھر لڑکی کو نشہ کی لت پڑچکی تھی اور نشہ کرنے کے لیے جب پیسے نہیں تھے تو لڑکی بڑی پریشان ہوگئی اور لڑکی کے دوستوں نے اس کی اس پریشانی کا بھی حل ڈھونڈ نکالا اور کہا کہ اگر وہ خود گانجہ بیچنا شروع کردے تو اس کو اپنے نشے کے لیے سہولت ہوجائے گی۔ یوں کالج کی ایک نوجوان لڑکی گانجہ کی تلاش میں آدھی رات کو دھول پیٹ پہنچتی ہے تو اکسائز والوں کو دیکھ کر گانجہ بیچنے والے سبھی رفو چکر ہوجاتے ہیں اور لڑکی گانجہ بیچنے والوں کو تلاش کرتے ہوئے نشہ کی حالت میں اکسائز والوں کے ہاتھوں پکڑی جاتی ہے۔
قارئین یہ قصہ اور اس کی تفصیلات کسی واٹس ایپ کے مسیج سے نہیں لی گئی بلکہ سی وی ویکانندا ریڈی کے انٹرویو سے لی گئی ہے، جو حیدرآباد اکسائز اینڈ پروہبیشن ڈپارٹمنٹ میں ڈپٹی کمشنر ہیں۔ اخبار دی انڈین ایکسپریس نے وی ویکانندا ریڈی کا 21؍ اپریل کو ایک انٹرویو شائع کیا۔ انٹرویو میں مزید تفصیلات بتلائی گئیں کہ شہر حیدرآباد میں تقریباً ایک ہزار 200 سے زائد انجینئرنگ کے طلبہ کو ڈرگس کی تلاش یا ان کو سپلائی کرنے والوں کی تلاش کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ اکسائز ڈپارٹمنٹ کے مطابق یہ تو وہ طلبہ ہیں جو اکسائز ڈپارٹمنٹ کے ہاتھوں پکڑے گئے۔ ان طلبہ کی تعداد اور بھی زیادہ ہوسکتی ہے، جو گانجہ اور دیگر طرح کے نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ لیکن پکڑے نہیں گئے ہیں۔ وی ویکانندا ریڈی نے ان عوامل پر بھی روشنی ڈالی جس کی وجہ سے نوجوان اور طلبہ کی بڑی تعداد منشیات کی طرف راغب ہو رہی ہے اور اس بری لت کا شکار بن رہی ہے۔ اول تو خراب دوستوں کی صحبت ہے۔ خراب دوستوں سے مراد کالج کے باہر کے دوست نہیں بلکہ کالج میں پڑھنے والے طلبہ ہیں جو اپنے ساتھیوں کو منشیات کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ دوسرا سبب والدین کی جانب سے بچوں پر نگرانی کا فقدان ہے اور تیسرا سبب والدین کے درمیان ہونے والی علیحدگی بھی بچوں کو منشیات کا عادی بنارہی ہے۔
والدین کی بچو ں کی تربیت کے حوالے سے غفلت کس قدر سنگین شکل اختیار کرچکی ہے کہ اللہ کی پناہ!
گذشتہ دنوں واٹس ایپ کے ذریعہ ایک ویڈیو کی خوب تشہیر ہوئی۔ ایک مسلمان لڑکی اپنے سر پر اسکارف پہنے ہوئے اپنا نام بتلاتے ہوئے کیا کہتی ۔ ذرا توجہ سے پڑھیے۔
پہلے تولڑکی اپنا نام بتلاتی ہے، پھر کہتی ہے: ’’میں 18 سال کی ہوں اور میں اپنی مرضی سے بھاگ کر آئی ہوں۔ میں گھر والوں کو منانے کی بہت کوشش کری اور بولی کہ میں کسی سے پیار کرتی ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں مگر میری ممی میرا رسم دوسری جگہ کرانا چاہ رہی تھیں لیکن میں جس کو چاہتی ہوں اس کے لیے جان بھی دینے تیار ہوں۔ میں امی کو بولی کہ میری پسند سے شادی کرائو۔ میں بولی تو بھی نہیں سنے۔ میں اپنے آپ کو کچھ بھی کرلینے تیار تھی۔ آپ لوگ فلاں دواخانے میں بھی جاکر چیک کرلو۔ اب میں 18 کی ہوگئی ہوں اور میں اپنی مرضی سے ان کے ساتھ آگئی ہوں ۔‘‘
قارئین یہ مثال ہے ان مسائل کی جو نوجوان نسل کو درپیش ہیں یا جس کا سامنا والدین اور سرپرست کر رہے ہیں۔ صرف لڑکیوں کی تربیت کا مسئلہ نہیں ہے۔ لڑکوں کی تربیت بھی والدین کے لیے ایک ایسا بڑا چیالنج بن گئی ہے کہ اس چیالنج کا کیسے سامنا کریں بہت سارے حضرات کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔
گرمائی تعطیلات کے دوران والدین کو موقع ملتا ہے کہ وہ عام دنوں کی بہ نسبت اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گذار سکیں۔ کیونکہ سالانہ امتحانات کے اختتام کے بعد اسکول اور کالجس کو تعطیلات ہوتی ہیں۔ فکر مند والدین تعطیلات کے اس موسم میں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کے لیے انہیں دین اسلام کی اس تعلیم کا انتظام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سال کے دیگر مہینوں کے دوران جلد اسکول کو جانے یا کالج کی تعلیم اور دیگر تعلیمی مصروفیات کے سبب ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن کتنے مسلمان اپنے بچوں کی اسلامی ماحول میں تربیت کی فکر کر رہے ہیں اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں۔ شہر حیدرآباد کی ان مساجد کی تعداد بھی اب کم ہوتی جارہی ہے جہاں پر گرمائی تعطیلات کے دوران دینی تعلیم کا نظم کیا جاتا تھا۔ پھر چھٹیوں کے اس موسم میں ہمارے بچے اور خاص کر لڑکے کیا کر رہے ہیں اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب اس برس کی گرمائی تعطیلات کے آغاز کے اندرون ہفتہ ہی 200 سے زائد نابالغ لڑکوں کو سائبر آباد ٹریفک پولیس نے لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے کی پاداش میں پکڑ لیا۔ اخبار دی انڈین ایکسپریس نے 22؍ اپریل کو ایک خبر Counselling session just for underage drivers کی سرخی کے تحت شائع کی۔ خبر کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ گرمائی تعطیلات کا مطلب سائبر آباد ٹریفک پولیس کے لیے نابالغ بچوں کو چلاتے ہوئے پکڑنا ہے۔ ڈی سی پی وجئے کمار کے حوالے سے اخبار نے لکھا کہ کئی نوجوان تو ایسے پکڑے گئے جو صرف گاڑیاں اسٹارٹ کرنا جانتے تھے۔ انہیں نہ تو گاڑی چلانا آتا ہے اور نہ ہی ٹریفک کے قواعد سے واقف ہیں اور صرف گذشتہ ہفتہ کے دوران 200سے زائد نابالغ بچوں کو بک (Book) کیا گیا۔ ڈی سی پی نے مزید کہا کہ عام دنوں میں ٹریفک پولیس ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر سبھی کے لیے کونسلنگ کرتی ہے مگر گرمائی تعطیلات کے دوران صرف کم عمر بچوں کے لیے کونسلنگ کی جارہی ہے تاکہ انہیں بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے کے سنگین نتائج سے واقف کروایا جاسکے کہ وہ لوگ نہ صرف اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ دیگر لوگوں کے لیے بھی خطرات پیدا کر رہے ہیں۔
قارئین سائبر آباد ٹریفک پولیس کے ڈی سی پی وجئے کمار نے بڑے پتے کی بات کہہ دی کہ جس طرح ایک غیر تربیت یافتہ اور بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے والا فرد نہ صرف اپنی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈالتا ہے بلکہ سڑک پر گذرنے والے، لائسنس رکھنے والے اور اپنی گاڑی بڑی احتیاط سے اور ٹریفک اصولوں کی پاسداری کے ساتھ چلانے والے اور تو اور فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کے لیے خطرات پیدا کرتا ہے۔
ایسے ہی ایک لڑکی کا آدھی رات کو نشہ کی تلاش میں باہر نکلنا اور ایک لڑکی کا اپنے گھر، اپنے والدین کو چھوڑ کر عاشق کے ساتھ بھاگ جانا، نہ صر ف ان لوگو ں کے لیے انفرادی خطرے کی علامت ہے بلکہ بحیثیت سماج سب کے لیے خطرات پیدا کرنے کے مماثل ہے۔ کیا ہم نے سونچا کہ اس طوفان کا سامنا کرنے کے لیے کیا حفاظتی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ ذرا سونچئے گا اور اپنی ساری توجہ اپنے گھر پر، اپنے بچوں پر، اپنے خاندان، اپنے رشتے داروں اور اپنے چاہنے والوں پر مرکوز کیجیے گا۔ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ صالح معاشرے کی تشکیل کا کام آسان کردے گا۔ جس طرح موسم گرما کی شدت سے محفوظ رہنے کے لیے ہم اقدامات کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھنے کی فکر کرنے والا بنادے ۔ آمین یا رب العالمین۔بقول شاعر ؎
ذرا سی بات سے منظر بدل بھی سکتا تھا
جو حادثہ ہوا بستی میں ٹل بھی سکتا تھا
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com