جو جانکار ہیں مٹی سے جان لیتے ہیں

رشیدالدین
پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ میں بہتر مظاہرے کے بعد بی جے پی 2014 ء عام انتخابات میں کامیابی کے خواب دیکھنے لگی تھی۔ نریندر مودی خود کو ہندوستان جیسی عظیم جمہوریت کے وزیراعظم کے طور پر دیکھنے لگے تھے لیکن دہلی کے نتائج اور ملک کے دوسرے علاقوں میں عام آدمی پارٹی کی بڑھتی مقبولیت نے بی جے پی کے جشن کو پھیکا کردیا۔ نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کا خواب بکھرتا دکھائی دینے لگا۔ عام آدمی پارٹی نے جیسے ہی لوک سبھا چناؤ کی تیاریوں کا آغاز کیا تو بی جے پی کے پیروں تلے زمین کھسکنے لگی۔ بی جے پی کو خوف لاحق ہوگیا کہ دہلی کی طرح ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اس کے امکانات پر عام آدمی کی جھاڑو نہ پھر جائے۔ اسی اندیشے کے تحت رائے دہندوں پر مودی کے اثر کو قائم رکھنے پھر ایک مرتبہ میڈیا کا سہارا لیا گیا سابق میں جس طرح نریندر مودی کو میڈیا کے ذریعہ پراجکیشن دیا گیا، اسی طرح پھر ایک نام نہاد سروے کے نام پر نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کیلئے عوام کے پسندیدہ امیدوار کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ بعض میڈیا گھرانوں کے ذریعہ جو سروے رپورٹ تیار کی گئی اس میں چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عام آدمی کی بڑھتی مقبولیت کو تسلیم کیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ کانگریس پارٹی کو اصل نشانہ بنایا گیا۔

عام آدمی پارٹی کو عوامی تائید میں اضافہ کی صورت میں ظاہر ہے کہ مخالف یو پی اے ووٹ تقسیم ہوجائیں گے ، جس کا فائدہ کانگریس پارٹی کو مل سکتا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے بغیر مخالف حکومت ووٹ راست طور پر بی جے پی کے حصہ میں جاسکتے تھے لیکن عام آدمی پارٹی دہلی کی طرح اب مرکز میں بھی بی جے پی کے اقتدار کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اس خوف کے تحت پھر ایک بار سروے کے نام پر نریندر مودی کو اچھالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کی امیدواری تک پہنچانے میں میڈیا اور صنعتی گھرانوں کا رول اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ میڈیا بے بی اور پبلسٹی بوائے نریندر مودی کو شو میان کے طور پر پیش کرنے کی تیاری پھر سے شروع کردی گئی ہے۔ ملک کے 8 بڑے شہروں میں عوامی رجحان کی بنیاد پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ 58 فیصد عوام نریندر مودی کو بہترین وزیراعظم کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ اروند کجریوال کے حق میں 25 فیصد عوام نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

کانگریس کے نائب صدر اور وزارت عظمیٰ کے امکانی امیدوار راہول گاندھی کو تیسرے مقام پر دکھایا گیا ہے۔ انہیں صرف 14 فیصد عوام وزیراعظم کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ چونکہ وزارت عظمیٰ کیلئے راہول گاندھی سے مودی کو کانٹے کی ٹکر مل سکتی ہے لہذا انہیں تیسرے مقام پر دکھاکر رائے دہندوں کو گمراہ کرنے اور کانگریس کیڈر کے حوصلے پسند کرنے کی کوشش کی گئی۔ سروے رپورٹ کے منظر عام پر آنے کا وقت بھی اپنے اندر ایک سوالیہ نشان ہے۔ 17 جنوری سے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا سیشن شروع ہوگا جس میں راہول گاندھی کی امیدواری کے اعلان کا امکان ہے۔ اس سے عین قبل یہ سروے کیوں کیا گیا ہے۔ سروے کے حقیقی ہونے کے بارے میں کئی شبہات پائے جاتے ہیں۔ سروے میں کہا گیا کہ 44 فیصد عوام کی رائے ہے کہ ان کے علاقہ سے اگر عام آدمی پارٹی مقابلہ کرے تو اس کے امیدوار کو ووٹ دیں گے جبکہ 27 فیصد نے امیدوار کی بنیاد پر اور 23 فیصد نے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دینے سے انکار کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب 44 فیصد عوام نے عام آدمی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کی بات کہی تو پھر مودی کے وزیراعظم بننے کیلئے 58 فیصد عوام کی تائید کہاں سے حاصل کی گئی۔ مودی کو تو صرف 23 فیصد ان افراد کی تائید ملنی چاہئے تھی جنہوں نے عام آدمی کو ووٹ دینے سے انکار کیا۔ ظاہر ہے کہ اس سروے کے ذریعہ مودی کے ذریعہ راستہ ہموار کرنا تھا ۔

کسی ملک کے 8 بڑے شہروں میں چند ہزار افراد کی رائے کو سارے ملک کی رائے کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ جن 8 شہروں میں سروے کیا گیا ، وہ 28 لوک سبھا نشستوں کا احاطہ کرتے ہیں اور ان میں سے بعض لوک سبھا حلقوں میں عام آدمی پارٹی کا کوئی وجود نہیں۔ پھر کس طرح سروے کو 548 لوک سبھا حلقوں کے عوام کی رائے سمجھا جائے گا؟ نئی دہلی میں ایک سال کے عرصہ میں اروند کجریوال اور ان کی ٹیم نے جس تیزی سے مقبولیت حاصل کی اس میں میڈیا بالخصوص سوشیل میڈیا کا اہم رول رہا۔ زیادہ تر ہندوستان تو دیہی علاقوں میں بستا ہے ، وہاں شہری علاقوں کے سروے کو مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی دیہی علاقوں تک رسائی کا سوال ہے، ملک کے 80 ہزار اخبارات اور 300 سے زائد ٹی وی چیانلس بمشکل 3 فیصد دیہی علاقوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ کانگریس اور اس کی حلیف جماعتیں 13 سے زائد ریاستوں میں برسر اقتدار ہیں، جنوبی ہند میں بی جے پی کا کوئی اثر نہیں۔

مرکز میں تشکیل حکومت میں اہم رول ادا کرنے والی بڑی ریاستوں بہار اور اترپردیش میں مخالف بی جے پی پارٹیاں برسر اقتدار ہیں۔ پھر بی جے پی کس طرح دہلی کی گدی پر نظریں جمائے بیٹھی ہے ؟ دراصل سنگھ پریوار کے پروردہ میڈیا کے گوشے نریندر مودی کو پراجکٹ کر رہے ہیں۔ سروے میں عام آدمی پارٹی کا خوف دلاکر بی جے پی ووٹ بینک مستحکم کرنے کی تیاری ہے اور یہ انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ ملک میں سیکولر اور ا قلیتی رائے دہندے کسی بھی قیمت پر بی جے پی کی تائید نہیں کرسکتے ۔ یو پی اے کی دو میعادوں میں اقلیتوں کی ترقی کیلئے اگرچہ خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے گئے ، پھر بھی مرکزی حکومت کے سبب اقلیتوں کو کوئی ایسا نقصان نہیں پہنچا کہ مسلمان نریندر مودی کو قبول کرلیں۔ ملک کی اقلیت جن کی تعداد بقول شفیق الرحمن برق ایم پی، 40 کروڑ ہے۔ اگر 40 کروڑ اقلیتیں سیکولر جماعتوں کے ساتھ ہوجائیں تو مودی کا خواب ادھورا ہی رہ جائے گا ۔ مذہبی لبادہ اوڑھے بھلے ہی کئی بکاؤ قیادتیں میدان میں آجائیں پھر بھی گجرات کے مسلمانوں کے قاتل کو کوئی غیرت مند مسلمان ووٹ نہیں دے گا۔ دہلی کے اسمبلی چناؤ میں مسلم امیدواروں کو کامیاب کرتے ہوئے اقلیتوں نے اس کا ثبوت پیش کردیا ہے۔

دوسری طرف کانگریس پارٹی نے 2014 ء عام انتخابات میں ہیٹرک کیلئے پرینکا گاندھی کو میدان میں اتارنے کی تیاری کرلی ہے۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں بدترین شکست اور راہول گاندھی کی عوامی مقبولیت میں کمی کو دیکھتے ہوئے کانگریس 2014 ء انتخابات کی مہم کیلئے پرینکا کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرسکتی ہے۔ گزشتہ دنوں پارٹی قائدین کے ساتھ اجلاس میں پرینکا کی شرکت سے یہ واضح اشارے مل رہے ہیں کہ عوامی مقبول قائدین کی کمی کا شکار پارٹی نے دوبارہ وراثت کے اثاثہ کے ذریعہ نریندر مودی سے مقابلہ کا فیصلہ کیا ہے ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ موجودہ بحران سے پارٹی کو ابھارنے اور بچانے میں نہرو اندرا خاندان کی وراثت ہی کام آئے گی ۔ کانگریس کی تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی پارٹی بحران کا شکار ہوئی ، خاندانی وراثت نے ہی سہارا دیا۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی موت کے بعد بھی پارٹی میں اس قدر بحران پیدا نہیں ہوا جس طرح آج کانگریس ایک نازک دور سے گزر رہی ہے ۔ ان حالات میں پرینکا کی انٹری کیڈر کی مایوسی کو نئے جوش میں تبدیل کردے گی ۔ پارٹی سرگرمیوں اور مشاورت میں پرینکا کا حصہ لینا محض اتفاق نہیں بلکہ حکمت عملی کا حصہ ہے ۔

پرینکا جو اب تک امیٹھی اور رائے بریلی تک محدود تھیں، انہیں ملک بھر میں پارٹی کے اسٹار کیمپینر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان کے سرگرم سیاست میں قدم رکھنے سے راہول گاندھی کو تقویت ملے گی ۔ نریندر مودی سے مقابلہ میں پرینکا ، راہول کی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں راہول گاندھی کو مودی کے مقابلہ کمزور اور ناتجربہ کار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ایسے میں پرینکا کی مقبولیت ان کے ساتھ ہوجائے گی تو کانگریس کی ہیٹرک کو بی جے پی روک نہیں پائے گی۔ عوام پرینکا میں اندرا گاندھی کا عکس دیکھتے ہیں اور وہ کانگریس کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی انتخابی تیاریوں میں مصروف ہیں تو اترپردیش میں سماج وادی پارٹی حکومت تفریح اور رنگ رلیوں میں مگن ہے۔ مظفر نگر فسادات کے ہزاروں متاثرین ابھی تک امداد سے محروم ہیں لیکن ملائم سنگھ یادو اور ان کے جانشین اکھلیش یادو نے کروڑہا روپئے رقص و سرور اور موج مستی پر خرچ کرتے ہوئے مظفر نگر متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے ۔ اترپردیش کے 8 وزراء کے بشمول 17 رکنی پانچ ممالک کے 20 روزہ دورہ پر روانہ ہوگیا ۔ اس دورہ پر ایک کروڑ روپئے سے زائد کا خرچ آئے گا۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کے چمپین ہونے کا دعویٰ کرنے والے اعظم خاں اس تفریح کی قیادت کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ مظفر نگر علاقہ کے انچارج بھی ہیں۔ امداد سے محروم متاثرین سے زیادہ انہیں بیرونی دورہ عزیز تھا۔ ملائم سنگھ کے آبائی گاؤں سیفائی میں سالانہ میلے کے نام پر بالی ووڈ نائیٹ کا اہتمام کیا گیا جس پر کروڑ ہا روپئے خرچ کئے گئے ۔ بالی ووڈ کے اہم ستاروںکو 7 چارٹرڈ فلائیٹس سے منتقل کیا گیا اور پروازوں کیلئے فی گھنٹہ دو لاکھ روپئے سے زائد ادا کئے گئے۔ سلمان خاں اور مادھوری ڈکشٹ کو پرفارمنس کیلئے جملہ 5 کروڑ روپئے ادا کئے گئے جبکہ دیگر اسٹار کو 5 تا 20 لاکھ روپئے ادا کئے گئے۔ اتنا ہی نہیں اکھلیش یادو نے دو فلموں کیلئے ایک ایک کروڑ روپئے ٹیکس میں راحت کا بھی اعلان کیا ہے۔

آخر ان کی حکومت نے ایسا کیا کارنامہ انجام دیا جس کا جشن منایا گیا؟ کروڑ ہا روپئے ضائع کرتے وقت ملائم اور اکھلیش کو مظفر نگر کے متاثرین کی یاد نہیں آئی حالانکہ اقلیتوں کے ووٹ کی بھیک سے وہ اقتدار میں ہیں۔ مظفر نگر کے متاثرین سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں اور کمسن بچوں کی اموات کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ پھر بھی ملائم اور اکھلیش نے موج مستی پر کروڑہا روپئے خرچ کردیئے ۔ ان قائدین کا حال روم کے شہنشاہ نیرو کی طرح ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو وہ بانسری بجا رہا تھا۔ لاؤڈ اسپیکر اور ڈی جے سسٹم کا رقص اور گانوں کی آوازیں تو ملائم اور اکھلیش کو سنائی دیں لیکن مظفر نگر کے متاثرین کی آہیں ان تک نہیں پہنچ سکیں جو چار ماہ بعد بھی انصاف سے محروم ہیں۔ ملائم سنگھ کو بھلا متاثرین کی فکر کیوں ہو جبکہ انہوں نے کہہ دیا کہ ریلیف کیمپس میں متاثرین نہیں بلکہ کانگریس اور بی جے پی کے ورکرس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریلیف کیمپس پر بلڈوزر چلائے گئے۔ سیفائی جشن کا 10 فیصد خرچ بھی متاثرین پر کیا جاتا تو ان کی مکمل بازآبادکاری ہوجاتی ۔ موجودہ حالات پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
جو جانکار ہیں مٹی سے جان لیتے ہیں
شجر کسی کو بھی شجرہ نہیں بتاتا ہے