جو بھی کرنا ہے اسی نسل کو کرنا ہوگا

شریعت کے بعد مسجد … پے در پے وار
مسلمانوں میں سناٹا … بی جے پی کو انتخابی فائدہ کی فکر

رشیدالدین
عوام کو بہتر حکمرانی میں ناکام بی جے پی کو عام انتخابات سے قبل ووٹ بینک مستحکم کرنے ایودھیا کا مسئلہ مل چکا ہے۔ سپریم کورٹ میں 29 اکتوبر سے سماعت کے آغاز کی راہ ہموار ہوچکی ہے جس میں ملکیت کے دعوے کا فیصلہ ہوگا ۔ سپریم کورٹ نے 1994 ء کے ایک فیصلہ کا جائزہ لیتے ہوئے اسے وسیع تر بینک سے رجوع کرنے سے انکار کردیا۔ 1994 ء کے فیصلہ میں کہا گیا کہ نماز کی ادائیگی کیلئے مسجد ضروری نہیں ہے اور نماز کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ اس فیصلہ کی بنیاد پر 2010 ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کی اراضی کو تین فریقوں میں یکساں طور پر تقسیم کردیا تھا ۔ مسجد کی اراضی وقف ہے اور شرعی اعتبار سے وقف اراضی یا جائیداد اللہ کی ملکیت ہوتی ہے اور اسے تقسیم کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں۔ سپریم کورٹ نے جیسے ہی ایودھیا تنازعہ کی سماعت کی تاریخ کا اعلان کیا سنگھ پریوار میں جشن کا ماحول پیدا ہوگیا کیونکہ رام مندر کے نام پر ملک میں سیاست پھر گرما جائے گی۔ ویسے بھی سنگھ پریوار اور بی جے پی چاہتے بھی یہی ہیں کہ فرقہ وارانہ موضوعات اہم انتخابی موضوع بن جائیں تاکہ حکومت کی ناکامیوں کی پردہ پوشی ہوسکے ۔ رام مندر کی تعمیر بی جے پی ایجنڈہ کا حصہ ہے اور اسے ضرورت اور سہولت کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے۔ حلیف جماعتوں کی مرکز میں تائید برقرار رکھنے کیلئے بعض مواقع پر اس مسئلہ کو برفدان کی نذر کردیا گیا۔ جب کبھی مسائل سے بات نہیں بنی تو فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو اختیار کرلیا گیا۔ نریندر مودی حکومت گزشتہ چار برسوں میں ہر سطح پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ عوامی ناراضگی سے بچنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ایسے میں رام مندر کا مسئلہ بی جے پی کے لئے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ثابت ہوا۔ ابھی تو مقدمہ کی سماعت کی تاریخ کا اعلان ہوا لیکن تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ جیسے فیصلہ ان کے حق میں آگیا ہو۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی قائدین منصوبہ بند پروپگنڈہ کے ذریعہ مسلمانوں کے حوصلے پست کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مودی ۔ نواز قومی میڈیا نے بھی عدالت کے فیصلہ کو خوب اچھالا اور عوام کو درپیش مسائل چھوڑ کر رام مندر کی تعمیر اور سماعت سے قبل ہی عدالت کے امکانی فیصلہ پر مباحث کا آغاز کردیا ۔ مندر کی تعمیر کی مہم چلانے والوں کو چینلس پر پیش کرتے ہوئے ہندوتوا ایجنڈہ کا پرچار کیا گیا ۔ عدالت نے مقدمہ کی سماعت سے قبل آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ہر صورت میں اسی مقام پر مندر کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔ کیا یہ عدالت کی توہین عدلیہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں ہے ؟ رام مندر تو ایک بہانہ ہے ، اصل نشانہ تو اسلام شریعت ہے۔ عدالت کی آڑ میں یکے بعد دیگر شرعی احکامات میں مداخلت کی جارہی ہے ۔ طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے آرڈیننس اس کی تازہ مثال ہے۔ اسلام اور شریعت کے مختلف امور کو عدلیہ میں چیلنج کیا گیا۔ حلالہ اور ایک سے زائد شادی کی اجازت کے معاملے سپریم کورٹ میں زیر دوران ہیں۔ آگے چل کر وراثت کے مسائل کو بھی نشانہ بنایا جائے گا ۔ مخالف اسلام طاقتوں کا منصوبہ ہندو راشٹر کی تشکیل ہے۔ شرعی امور میں مداخلت کے بعد یکساں سیول کوڈ کی راہ ہموار کی جائے گی اور پھر آخری حربہ ہندو راشٹر ہوگا۔ زبان اور تہذیب کے بعد مسلمانوں کی شناخت ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔

مسلمانوں میں دوسرے درجہ کے شہری کا احساس پیدا کرنے کیلئے فسادات اور منافرت پر مبنی حملوں اور تشدد کا سہارا لیا گیا ۔ بابری مسجد کو شہید کرتے ہوئے ملک میں دیگر 3000 مساجد پر دعویداری پیش کردی گئی۔ سنگھ پریوار اور جارحانہ فرقہ پرست عناصر کی سرگرمیوں کیلئے مسلمانوں کی بے حسی برابر کی ذمہ دار ہے کیونکہ کسی بھی مسئلہ پر ، کسی بھی سطح پر مزاحمت نہیں کی گئی۔ سپریم کورٹ نے 1994 ء کے جس فیصلہ کو برقرار رکھا اس میں ’’مسجد اسلام کا لازمی حصہ نہیں‘‘ کا استدلال پیش کیا گیا ہے۔ اس فیصلہ کی برقراری کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے اور اندیشہ ہے کہ ملک میں دیگر مساجد کو نشانہ بنانے کا بآسانی موقع فراہم ہوگا۔ حکومت ہو یا پھر جارحانہ فرقہ پرست عناصر وہ اس فیصلہ کی روشنی میں مساجد پر بری نظریں ڈال سکتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عدالت اس فیصلہ کا جائزہ لینے کے لئے اسے وسیع تر بنچ سے رجوع کرتی لیکن موجودہ صورتحال میں یہ فیصلہ مساجد کو نشانہ بنانے کے لائسنس کی طرح ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ اسلام اور شریعت پر پے در پے حملے ہورہے ہیں لیکن مسلمانوں کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں ہے۔ بے حسی اور سناٹے کا یہ عالم ہے کہ شریعت کے خلاف فیصلوں کے خلاف آواز بلند کرنے سے بھی گھبرا رہے ہیں۔ نریندر مودی حکومت نے خوف و دہشت کا ایسا ماحول پیدا کردیا ہے کہ عوام توکجا قائدین بھی حکومت کے خلاف احتجاج یا بیان دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ عدالت کے فیصلوں کو عدالت میں چیلنج کرنے سے کسی نے نہیں روکا ہے لیکن طلاق ثلاثہ مسئلہ پر حکومت کے آرڈیننس کو چیلنج کرتے ہوئے کیرالا میں صرف ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ کیا مسلمان صرف کیرالا تک محدود ہیں؟ ملک کی دیگر ریاستوں کی مسلم تنظیموں اور قیادتوں کو آخر کیا ہوگیا کہ وہ عدالت سے رجوع ہونے سے بھی کترا رہے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب قومی سطح پر مسلمانوں کی وہ قیادت باقی نہیں رہی جو حکومت کی آنکھ میں آنکھ ملاکر بات کرتی تھی ۔ شاہ بانو کیس میں شریعت کے خلاف فیصلہ کو پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ مسلمانوں میں آج ایسی سیاسی اور مذہبی قیادت کی کمی ہے جو بے خوف اور بے لوث ہو جسے اپنے مفادات سے زیادہ قوم و ملت اور شریعت کے تحفظ کی فکر لاحق ہو۔ اگر یہی بے حسی جاری رہی تو مغربی ممالک کی طرح شریعت کے دیگر امور جیسے حجاب پر پابندی عائد کردی جائے گی اور اسے بھی عورتوں سے ناانصافی کے طور پر پیش کیا جائے گا ۔ ایک طرف شریعت پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کی شہریت پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ آسام میں 40 لاکھ افراد کے نام فہرست رائے دہندگان سے خارج کردیئے گئے لیکن آج تک ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ آسام جہاں کبھی کانگریس مضبوط موقف میں تھی ، وہاں بی جے پی اقتدار میں ہے اور شریعت سے محروم کئے گئے مظلوم افراد کیلئے سوائے زبانی ہمدردی کے کسی جانب سے ٹھوس اقدامات نہیں ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی مسلم ناموں کو فہرست رائے دہندگان سے خارج کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اعلان کردیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر کردیا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ سے آنے والے ہندوؤں کے لئے تو ملک میں استقبال اور انہیں شہریت بھی دی جارہی ہے لیکن کئی پشتوں سے رہنے والے مسلمانوں کو شہریت کا حق نہیں۔ وطن سے محبت کا پیمانہ بھی بی جے پی نے تبدیل کردیا ہے جو شخص بھی نریندر مودی کی مخالفت کرے گا وہ ملک دشمن کہلائے گا۔ زبان ، تہذیب اور شریعت کے بعد مساجد بھی نشانہ پر ہیں۔ ملک میں علماء ، مشائخ ، مدرسے ، خانقاہیں سب کچھ موجود ہیں لیکن ان تمام پر بے حسی طاری ہے۔ ہر کوئی اپنے خول میں بند ہیں۔

ہندوستان کی روایتی تہذیب اور خاص طور پر خواتین کا احترام اور خاندانوں میں باہمی اتحاد کی دنیا بھر میں مثال دی جاتی ہے لیکن سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ نے تہذیب کے خاتمہ اور خاندانوں میں پھوٹ کا موقع فراہم کردیا ہے۔ خواتین کے غیر ازدواجی جنسی تعلقات یا پھر ناجائز جنسی تعلقات کی اجازت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ہندوستانی معاشرہ کے ساتھ ناانصافی اور بدخدمتی کی ہے ۔ اس فیصلہ کے بعد ہندوستان مغربی تہذیب کے حملہ کا شکار ہوچکا ہے ۔ چین ، جاپان ، برازیل ، آسٹریلیا ، جرمنی اور فرانس کی صف میں ہندوستان کا شمار ہوجائے گا جہاں زنا کاری کوئی جرم نہیں۔ اس فیصلہ نے مشرقی تہذیب پر مغربی تہذیب کی یلغار کردی ہے۔ ملک میں بے حیائی پہلے ہی عروج پر ہے لیکن اب سپریم کورٹ نے اسے قانونی تحفظ فراہم کردیا ہے ۔ عورتوں کو ناجائز تعلقات کی ہدایت سے معاشرہ نہ صرف تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا بلکہ خاندان بکھر جائیں گے۔ کسی بھی مذہب میں حرام کاری کی اجازت نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام کے علاوہ کئی ہندو فرقوں میں خواتین پر حجاب کی سختی سے پابندی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ملک کی تہذیب کس رخ پر جائے گی ، کہا نہیں جاسکتا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایک جج کے والد نے جج کی حیثیت سے غیر ازدواجی تعلقات کو جرم قرار دیا تھا لیکن ان کے سپوت نے جج کی کرسی سے تعلقات کو جائز قرار دیا ہے۔ ہندوستان کی ہزاروں سال پرانی تہذیب کا دم بھرنے والے کیوں خاموش ہیں۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار جو رام راج قائم کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں ، ان کی زبان پر تالے کیوں پڑے ہیں ؟ ہندوستانی تہذیب کی دہائی دینے والے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ میں موجود خاتون وزراء کی ذمہ داری ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بے اثر کردیں ورنہ ہندوستانی معاشرہ کو تباہی سے بچانا ممکن نہیں ہوگا۔ موجودہ حالات پر معراج فیض آبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
اگلی نسلوں کو تباہی سے بچانے کے لئے
جو بھی کرنا ہے اسی نسل کو کرنا ہوگا