جنیوا مذاکرات میں برف پگھل رہی ہے : ابراہیمی

جنیوا ، 30 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ قاصد برائے شام الاخضر الابراہیمی نے کہا ہے کہ جنیوا میں جاری مذاکرات میں پہلی مرتبہ برف پگھلی ہے لیکن انھیں بات چیت کے پہلے مرحلے میں کسی نمایاں کامیابی کی توقع نہیں ہے۔ انھوں نے جنیوا میں شامی حکومت اور حزب اختلاف کے نمائندوں کے درمیان جنیوا اول پر مذاکرات کے بعد نیوزکانفرنس میں بتایا: ’’میں بہت خوش ہوں کہ ہم ابھی تک بات چیت کررہے ہیں۔برف آہستہ آہستہ پگھل رہی ہے لیکن یہ بہرحال پگھل رہی ہے‘‘۔ انھوں نے بتایا کہ فریقین کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور جمعہ کو ختم ہوجائے گا اور اس کے کوئی ایک ہفتے کے بعد مذاکرات کا دوسرا دور ہوگا۔

انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ روس اور امریکہ شامی تنازعے کے دونوں فریقوں کے درمیان وسیع خلیج پاٹنے کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں گے۔ عالمی قاصد نے مزید کہا ، ’’اقوام متحدہ اور شامی حکومت باغیوں کے زیر قبضہ قدیم شہر حمص میں امدادی سامان پہنچانے کیلئے ابھی تک بات چیت کررہے ہیں‘‘۔شامی حکومت اس بات پر اصرار کررہی ہے امدادی سامان باغی جنگجوؤں کے ہاتھ نہیں لگنا چاہئے۔ الا براہیمی سے قبل شامی حکومت اور حزب اختلاف کے مذاکرات کاروں نے بھی صحافیوں کو الگ الگ بتایا کہ چارروز کے تعطل کے بعد چہارشنبہ کو بات کچھ آگے بڑھی ہے۔

حزب اختلاف کے نمائندوں نے کہا کہ انھوں نے پہلی مرتبہ صدر بشارالاسد کی حکومت کے وفد کے ساتھ ملک میں عبوری حکومت کے قیام سے متعلق تبادلہ خیال کیا ہے۔ شامی حکومت کے وفد نے بھی کہا ہے کہ جنیوا اول کے اعلامیے پر مثبت بات چیت کا آغاز ہوگیا ہے۔البتہ تشدد کے خاتمے اور ’’دہشت گردی‘‘ کو روکنے پر زیادہ تر توجہ مرکوز رہی ہے۔ شامی حزب اختلاف کے وفد کے ترجمان لوئے صفی نے مذاکرات کے بعد نیوز کانفرنس میں بتایا : ’’آج (چہارشنبہ کو) ہم نے مثبت قدم آگے بڑھایا ہے کیونکہ پہلی مرتبہ ہم نے عبوری حکومت کے قیام ،آمریت کے خاتمے اور لڑائی اور شام میں جاری المیے کے روکنے سے متعلق بات چیت کی ہے‘‘۔ ترجمان نے مزید بتایا ، ’’ہم نے عبوری حکومت کی تفصیل پر تو تبادلہ خیال نہیں کیا البتہ عبوری انتظامیہ کے عمومی چوکھٹے پر بات کی ہے

اور اس کے حجم ،ذمے داریوں اور ٹائم فریم کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے‘‘۔ شامی حکومت کے وفد کی رکن اور صدر بشارالاسد کی مشیر بوثینہ شعبان نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جنیوا اول کے اعلامیے پر بات چیت کا آغاز ہوگیا ہے لیکن اولین ترجیح تشدد کو روکنا ہے جس نے اب دہشت گردی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ شامی حکومت نے باغیوں کے درمیان انتہا پسند اسلامی گروپوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حزب اختلاف اور اس کے غیرملکی حمایتیوں پر القاعدہ کی شکل میں دہشت گردی کی حمایت کا الزام عاید کیا ہے۔