جنوبی ہند میں بی جے پی کی دال گلنے والی نہیں!

 

ڈاکٹر موہن کاندا
مرکز میں برسراقتدار بی جے پی حالیہ عرصے میں کئی ریاستوں میں یکے بعد دیگر انتخابات میں کامیاب ہوتی رہی تھی۔ اسے جب بھی کانگریس کا سامنا ہوا، وہ ہر مرتبہ فتح حاصل کرلیتی، لیکن علاقائی پارٹیوں سے لڑتے ہوئے اسے کچھ جھٹکہ لگ رہا ہے۔ اُترپردیش میں ایس پی اور بی ایس پی مل کر حالیہ ضمنی لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ کئی علاقائی پارٹیاں بشمول ٹی آر ایس، ٹی ڈی پی، اے آئی اے ڈی ایم کے، اور سی پی ایم (یہ تریپورہ میں بے اقتدار ہوچکی، اور اگر کیرالا بھی ہار جائے تو شاید اسے علاقائی پارٹی کے زمرے میں رکھاجاسکتا ہے) برسراقتدار پارٹی کو آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں چیلنج کرنے کیلئے زبردست تیاریوں میں جٹ گئی ہیں۔ انھیں بہت آسانی سے دستیاب ہتھیار وہ الزام ہے کہ مرکز اُن کی مالی اور دیگر ضرورتوں سے نمٹنے میں اطمینان بخش حد تک غیرجانبدار نہیں رہا ہے۔ درحقیقت، جیسا کہ سردست حالات ظاہر ہورہے ہیں، اس طرح کی شکایت کوئی بھی ریاست کی طرف سے سامنے آسکتی ہے، جس میں مغربی بنگال کے ساتھ ساتھ اُس کے جنوب کی کوئی بھی ریاست شامل ہوسکتی ہے۔ چونکہ یہ تمام ریاستیں جنوبی جزیرہ نما میں واقع ہیں، اس لئے ایسی شکایت کا موقع اُبھر آرہا ہے کہ مرکز کا رویہ ملک کے جنوبی حصے کے مقابل شمال کی طرف جھکاؤ والا ہے۔ یہ تنقید نئی سیاسی پارٹیوں کے پاس تک اہم عنصر بن چکی ہے جیسا کہ حال میں کمل ہاسن نے اپنی پارٹی تشکیل دیتے ہوئے پارٹی پرچم میں چھ مربوط ہاتھوں والی تصویر پیش کی ، جو 6 جنوبی ریاستوں (بشمول پڈوچیری) کے اتحاد کی علامت ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا آیا کمل ہاسن پھر ایک بار ’ڈراویڈا کڑاگم‘ کے دنوں کا نعرہ ’ڈراویڈا ناڈو‘ بلند کرپائیں گے؟ حالیہ عرصے میں عام ٹاملناڈو شہری کے ذہن میں ایسا احساس اُبھرنے لگا ہے کہ ’شمالی‘ بی جے پی مابعد جیہ للیتا دَور میں ٹامل سیاست میں فضول دخل اندازی کررہی ہے۔
تلگو ریاستوں کی بات کریں تو آندھرا پردیش کو ’خصوصی زمرہ والا درجہ‘ کیلئے مطالبے کی حمایت میں جاری تحریک کو تقویت دینے کے تناظر میں ٹی ڈی پی کو تک مرکز کے ’سوتیلے‘ طرزعمل پر سوال اُٹھانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اُس پارٹی کے رکن پارلیمان جی جئے دیو نے سخت لہجہ میں متنبہ کردیا، ’’مسٹر پرائم منسٹر! آندھرا والوں کو احمق لوگ مت سمجھئے‘‘۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان لڑائی کو آندھرا والوں کے خلاف امتیاز کا رنگ دیا گیا۔ اب جبکہ ٹی ڈی پی نے این ڈی اے اتحاد کو چھوڑ دیا ہے، ایسی توقع ہے کہ وہ تلگو عزتِ نفس کے نعرہ کا احیاء کرے گی جو کبھی این ٹی آر نے لگ بھگ چار دہے قبل نہایت مؤثر انداز میں بلند کیا تھا؛ اور بی جے پی پر تنقید کیلئے سخت زبان استعمال کرے گی۔ اور اگر یہ صورتحال اے پی اور ٹی ایس کی ہے جہاں آئندہ سال انتخابات ہونے والے ہیں تو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ اس طرح کی صورتحال کرناٹک جیسی ریاستوں میں کس قدر شدید ہوگی جہاں اسمبلی انتخابات عنقریب ہیں۔

چیف منسٹر کرناٹک سدارامیا پہلے ہی اپنی انفرادیت کا مظاہرہ پیش کرتے ہوئے حال ہی میں ریاست کیلئے علحدہ پرچم جاری کرچکے ہیں۔ انھوں نے ریاستوں کیلئے زیادہ خودمختاری کا مطالبہ بھی کیا ہے، جنھیں اُن کے بقول اپنی مالی اور اقتصادی پالیسیاں وضع کرنے کی اجازت دینا چاہئے، جس میں بیرون ملک کے اداروں سے بیرونی اعانت چاہنے کا حق شامل ہے۔ انھوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا کہ اہم پالیسی مسائل پر قومی ترقیاتی کونسل میں غوروخوض کرنے کے سابقہ طریہ کار کو نیتی آیوگ کی تشکیل کے بعد منقطع کردیا گیا ہے اور مطالبہ کیا کہ مرکزی حکومت کو ایسے بین الاقوامی معاہدے طے کرنے سے قبل ریاستوں سے مشاورت کرنا چاہئے جو آخرالذکر کے مفاد پر اثر ڈالتے ہوں۔ وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ ساؤتھ ایشین فری ٹریڈ اگریمنٹ کے تحت مرکزی حکومت نے حال ہی میں فیصلہ کرلیا کہ سستی مرچ کو ویتنام سے براہ سری لنکا درآمد کیا جائے، جس کے بعد کیرالا اور کرناٹک کے کسانوں کو بھاری نقصانات ہوئے ہیں۔ اسی طرح جنوبی ریاستوں سے کئی ناانصافیاں کی جارہی ہیں۔ اس شکایت کی توثیق میں سدارامیا یہ حقیقت پیش کرتے ہیں کہ ریاستوں سے ٹیکسوں کے ذریعے مرکزی خزانوں میں کافی رقومات جارہی ہیں اور پھر انھیں اعانت کی شکل میں حاصل ہورہی ہیں۔ وہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ قومی اسکیمات ملک کی تمام ریاستوں کے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترتیب دیئے جارہے ہیں، جس کے نتیجے میں بعض ریاستوں کا نقصان ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر اُترپردیش کو اس کے وصول کردہ ٹیکس کے ہر روپیہ کے عوض 1.79 روپئے حاصل ہوتے ہیں، جبکہ کرناٹک کو محض 47 پیسے ملتے ہیں۔ یہ تو ایک شخص سے چھین کر دیگر کو عطا کرنے کے مترادف ہے، جس پر مرکز عمل پیرا ہے۔
اس طرح کی شکایات اُبھرنے کی بڑی وجہ یہ حقیقت ہے کہ آبادی اصل کسوٹی ہے جس کی اساس پر مرکز ریاستوں کو وسائل مختص کرتا ہے۔ اور 13 ویں فینانس کمیشن تک مرکزی فنڈز ریاستوں کو اُن کی آبادی بلحاظ 1971ء کی اساس پر مختص کئے گئے۔ جب 14 ویں فینانس کمیشن نے تاریخ کو بدل کر 2011ء کردینے کی تجویز رکھی، تب جنوبی ریاستوں نے پُرزور احتجاج کیا کیونکہ 1971ء تک خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت کے تعلق سے کچھ خاص بیداری نہیں تھی۔ اس کے بعد سے مرکز کی شروع کردہ زبردست مہم کے پیش نظر جنوبی ریاستوں کی طرف سے بہت اچھا ردعمل حاصل ہوا، اور اکثر خاندانوں نے دو یا تین بچوں پر اکتفا کرنا سیکھ لیا۔ اس کا نتیجہ ہوا کہ ناخواندگی اور بنیادی نگہداشت صحت تک رسائی کے فقدان جیسی بُری باتیں نمٹ گئیں، اور جنوبی ریاستوں کی متعلقہ علاقوں میں قابل لحاظ بہتری دیکھی گئی۔ افسوس کہ یہی معاملہ شمالی ریاستوں میں نہ ہوا، جہاں آبادی کم و بیش بے قابو شرح پر بڑھتی ہی رہی۔

اقوام متحدہ کے مطابق متبادل شرح بارآوری اس طرح کی جملہ شرح کے مقابل 2.1 کم ہونا چاہئے۔ یہ اعداد و شمار بہار میں 3.4، یو پی میں 2.7، راجستھان میں 2.4 اور مدھیہ پردیش میں 2.3 ہیں۔ اس کے برعکس کیرالا میں یہ شرح 1.6، ٹاملناڈو میں 1.7، اور اے پی، تلنگانہ و کرناٹک میں 1.8 ہے۔ بہ الفاظ دیگر جو ریاستیں آبادی پر کنٹرول کے معاملے میں منظم انداز میں کام کررہی ہیں، وہی نقصان اٹھا رہی ہیں۔ چنانچہ جنوبی ریاستوں کے احتجاج کے باوجود 14 ویں فینانس کمیشن نے آبادی کیلئے 17.5% کی رعایت کو منظوری دی۔ اور اب 15 ویں فینانس کمیشن نے 2011ء کی مردم شماری کو ملحوظ رکھنے کا پھر سوال اُٹھا دیا، جو نہایت متنازع صورتحال اُبھر آنے کا سبب بنی ہے۔ فینانس کمیشن کے رواں سال فبروری میں حیدرآباد میں طلب کردہ اجلاس میں جنوبی ریاستوں نے مجوزہ اقدام کی سخت مخالفت کی۔ کمیشن کے عہدیداروں نے زور دیا کہ ریاستیں اسی نہج پر معلومات فراہم کریں جو اس بنیاد پر طے کیا گیا کہ یہ قومی پالیسی ہے۔ اس میں کیا تعجب ہے کہ یہ شبہات اور بدگمانی کا موجب ہوا۔
ایک تخمینہ یوں ہے کہ اگر 14 ویں فینانس کمیشن نے 2011ء کی آبادی کے اعداد وشمار کو اساس بنایا ہوتا تو 2015-20ء کی مدت میں شرح آبادی پر کنٹرول کرنے والی 12 ریاستوں کو 1,25,392 کروڑ روپئے کا نقصان ہوجاتا اور وہ 17 ریاستوں کو جو آبادی میں اضافے پر قابو پانے میں ناکام ہوئیں اسی قدر فائدہ ہوتا۔ آبادی بطور اساس کے تعلق سے ریاستوں کو جو شبہات ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ طرزعمل پر شک بھی ہے جس طرح مرکز کی طرف سے ہورہا ہے جو ’آمدنی میں خسارہ‘ سے متعلق ہے۔ 14 ویں فینانس کمیشن نے 2015-20ء سے ریاست واری آمدنی خساروں کا تفصیلی تذکرہ کیا اور انھیں مناسب مرکزی گرانٹس دستیاب کرانے کی سفارش کی۔ تاہم، حقیقت ِحال یوں ہے کہ ریاستی بجٹوں میں پیش کردہ خسارے ان اعداد و شمار سے قابل لحاظ حد تک مختلف ہیں جو فینانس کمیشن نے استعمال کئے، اور مرکز خسارے کا حساب مختلف ریاستوں میں بدلتے طریقوں کے ساتھ کررہا ہے۔ اور اس موضوع پر مرکز اور اے پی کے درمیان جاری نااتفاقی اور گڑبڑ کا خود میں شاہد ہوں۔

یہ فطری امر ہے کہ بوجہ مذکورہ بالا حقائق اور اعداد و شمار ایسے شبہات پیدا ہوسکتے ہیں کہ مرکز جنوبی ریاستوں کے ساتھ اپنے طرزعمل کے معاملے پوری طرح منصفانہ اور درست موقف نہیں رکھتا ہے۔ نہ صرف ریاستی سکریٹریٹ بلکہ حکومت ہند میں بھی خدمات انجام دینے کا تجربہ ہونے کے ناطے میں ذمہ داری سے بیان کرسکتا ہوں کہ ایک بار کوئی فارمولا طے ہوجائے تو پھر فنڈز کی تمام تر تقسیم اُسی کی مطابقت میں ہوتی ہے۔ یہ تب ہی ہوتا ہے جب طے شدہ تقسیم مصرحہ قواعد کی مطابقت میں ہورہی ہے، اور جب کوئی امتیاز کا معاملہ پیش آئے، تب اعلیٰ سطح پر مشاورتیں ضروری ہوجاتی ہیں۔ یہ بات مختلف سطحوں حتیٰ کہ اندرون بیوروکریسی روزانہ کے فیصلوں کے معاملے میں بھی درست ہے۔ مجھے یاد ہے کس طرح کمل پانڈے، سکریٹری وزارت زراعت نے جبکہ میں جوائنٹ سکریٹری کی حیثیت سے برسرخدمت تھا، مجھ سے اُن فنڈز کی اجرائی کے ضمن میں سوال کیا تھا جو میں نے ریاست آندھرا پردیش کو اُس وقت کی ’فصل بیمہ اسکیم‘ کے تحت دیئے تھے۔ انھوں نے مجھ سے دریافت کیا، ’’کیا آپ نے واقعی اس قدر زیادہ (فنڈز) آندھرا پردیش اسٹیٹ کیلئے جاری کئے؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’میں نے نہیں، فارمولا نے یہ کیا ہے۔‘‘ پھر انھوں نے مجھ سے سوال کیا کہ کیوں اس اقدام سے قبل اُن سے مشاورت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، جس پر میں نے جواب دیا کہ مجھے اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ میں، مجھے حاصل اختیار کی مطابقت میں کام کررہا تھا۔
تاہم، فارمولا بنانے میں سیاسی عہدوں کا رول ضرور ہوتا ہے۔ یہ احساس بھی پایا جاتا ہے (جس کے بارے میں حقیقی یا قیاسی کہنا مشکل ہے) کہ شمال سے ایم پیز کی تعداد زیادہ ہے، اس لئے شمالی خطے کو غیرمتناسب طور پر فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اب اُس خطے کے لوگوں کی ذمہ داری یہ یقینی بنانا ہے کہ اس طرح کی غلط فہمیاں مستقبل میں پیدا نہ ہونے پائیں۔
(مصنف سابق چیف سکریٹری
حکومت آندھرا پردیش ہیں)