جنرل پہلی بارکٹہرے میں

محمود شام، کراچی (پاکستان)
آپ کے کجریوال نے ہمارے ہاں تو ہلچل مچا ئی ہوئی ہے۔اخبار ہوں یا نیوزچینل عام آدمی پارٹی کے اعلان سنا سناکرپاکستانی سیاسی پارٹیوں کو آئینہ دکھا رہے ہیں۔ خاص طور پر عمران خان کی تحریک انصاف نشانہ بنی ہوئی ہے ۔کیونکہ وہ بھی دوسری سیاسی پارٹیوں کی نسبت نئی ہے اور اس نے عوام سے وعدے بھی زیادہ کر رکھے ہیں۔ دلی والوں کو مفت پانی کی خبر نے تو کراچی لاہور میں حشرڈھادیا ہے۔ لوگ یہاں بھی مفت پانی کے خواب دیکھنے لگے ہیں ۔حکومت کہہ رہی ہے کہ کہنا آسان ہے دیکھتے ہیں کجریوال جی کتنے دن پانی کی سبیل لگائے رکھتے ہیں ۔ہمارے خیال میں تو صرف پاکستان ہی نہیں عام آدمی پارٹی پورے جنوبی ایشیا میں سیاسی توازن بگاڑ دے گی یہ تو آپ ہندوستان والے بتاسکتے ہیں کہ عملی طور پر ایسے وعدے پورے کرنے سے خزانے پر کیا اثر پڑے گا اور یہ فائدے غریبوں تک کتنے عرصے پہنچتے رہیںگے۔

ایسا نہ ہو کہ نظام سقے کی طرح چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ثابت ہو ۔اقتصادی طور پر بہت سے اقدامات نا قابل عمل لگتے ہیں۔ کجریوال جی نے جائزہ تو لیا ہوگا کہ یہ خسارہ کیسے پورا ہوگا۔کئی سال پہلے میں ہندوستان کے پلاننگ کمیشن کے نائب چئیرمین سے ملا تھا۔ انہوں نے اچھی بات کی تھی کہ سیاست دان اپنے آپ کو اچھا اکنامسٹ سمجھنے لگتے ہیں ۔حالانکہ جس کا کام اسی کو ساجھے دوجا کرے تو ٹھینگا باجے۔پاکستان والوں کی نیک خواہشات اور دعائیں دلی والوں کے ساتھ ہیں۔ ان کی الجھنیں دور ہونے سے ہم سب کو نئے راستے مل سکیں گے۔
ہمارے ہاں نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے ،پہلی بار ایک سابق آرمی چیف پر آئین توڑنے کے الزام میں باقاعدہ غداری کا مقدمہ چل رہا ہے ۔ہم پاکستانیوں نے کبھی ایسا تصور بھی نہیں کیا تھا۔مرکزی حکومت نے مقدمے کے لئے سارے قانونی مراحل طے کر لیے ہیں ۔

جب یہ سطور آپ کی نظروں کے سامنے ہوںگی تو ممکن ہے فرد جرم عائد کرنے کا اہم مرحلہ گزر چکا ہویہ کیس انتہائی حساس نوعیت کا ہے ۔عام سوال یہی ہے کہ کیا فوج اپنے ایک سابق چیف کو اس طرح کٹہرے میں کھڑا برداشت کر سکے گی۔ خود جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف بھی اپنے میڈیا انٹرویوز میں بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ فوج ان کے ساتھ ہے۔ وہ دکھ کا اظہار کر رہے ہیں کہ وطن کے لئے دو جنگیں لڑنے اپنی جان خطرے میں ڈالنے والے سابق آرمی چیف سے یہ سلو ک پاک فوج کب تک چپ چاپ دیکھتی رہے گی۔ سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی نے مشرف صاحب کا ساتھ نہیں دیا ورنہ معاملہ یہاں تک نہیں پہنچتا۔ اب نئے آرمی چیف کے آنے سے یہ امید بندھی ہے کہ پاکستان آرمی کوئی واضح اوردوٹوک مؤقف اختیار کرے گی۔ مشرف صاحب کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ نے سابق فوجیوں کی تنظیم کے ارکان سے وڈیو لنک خطاب کا اہتمام بھی کیا۔ ٹی وی انٹرویوز غیر ملکی میڈیا سے سابق صدر اور آرمی چیف کی گفتگو نے حکومت اور عدلیہ کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔

اس سے جہاں مشرف کے حامیوں میں ایک نیا ولولہ پیدا ہو رہا ہے۔ وہاں منتخب حکومت کی بے بسی کا احساس بھی پختہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ وزیر اعظم نواز شریف کبھی بھی مشرف کو عدالت سے باہر صفائی کا موقع نہ دیتے۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنی اور نواز شریف کی پسند کی خصوصی عدالت قائم کی اور مزید کارروائیاں بھی اسی نوعیت کی کیں۔ اب جب کیانی بھی نہیں ہیں اور چیف جسٹس بھی نہیں تو مشرف صاحب کو یہ مواقع ملنے لگے ہیں۔ جن سے انہیں رائے عامہ کو اپنے موقف سے آگاہ کرنے میں آسانی ہو رہی ہے۔ان کے وکیلوں کا بھی یہی کہنا ہے اور عام پاکستانی بھی یہ دلیل دیتے نظر آتے ہیں کہ مشرف نے اصل جرم تو بارہ اکتوبر1999 کو کیا تھا۔ جب انہوں نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹا لیکن اسے اس وقت کی سپریم کورٹ نے قانونی قرار دے دیا تھا۔ چوہدری افتخار اس بنچ میں شامل تھے۔

اس لئے غداری کا مقدمہ وہاں سے شروع کرنے کی بجائے تین نومبر 2007 کے ا یمرجنسی کے نفاذ سے کیا جارہا ہے ۔مشرف صاحب کے جانے کے بعد آنے والی پی پی پی سرکار اپنے پانچ سال میں اور نواز حکومت ان چھہ مہینوں میں اگر عوام کے لئے کچھ اچھے کام کرتی تو لوگ یقینی طور پر غداری کے مقدمے میں دلچسپی لیتے اور سیاسی پارٹیوں کا ساتھ دیتے۔ مگر وہ تو مہنگائی کے ستائے ہوئے ہیں مشرف کے دور میں ڈالر ساٹھ روپے کی حد میں رہا۔ ان کے ہٹتے ہی ڈالر چھلانگیں مارنے لگا اب ایک سو سے آگے نکل چکا ہے ۔منتخب حکومتوں کی نا اہلی ڈکٹیٹرز کے لئے ہمدردیاں پیدا کر دیتی ہے۔ وہ سیاسی کارکن ایسے میں کتنی اذیت محسو س کرتے ہونگے جنہوں نے اپنی چمکتی جوانیاں مارشل لائوں کے خلاف جدوجہد میں جیلوں میں گزار دیں ،عوام کو جمہوریت ابھی وہ پھل نہیں دے سکی جس کے خواب وہ مدت سے دیکھتے آرہے ہیں۔دہشت گردی انتہا پسندی جیسے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے ایک مشرف مقدمہ ہے ۔دوسرا طالبان سے مذاکرات کا چرچا۔

اس ہفتے وزیر اعظم نے مولانا سمیع الحق سے ملاقات کر کے ان کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے لئے راہ ہموار کریں ۔زیادہ تر طالبان ان مولانا کے مدرسے دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے پڑھے ہوئے ہیں ۔اب دیکھنا ہوگا کہ راہ کی ہمواری ہم پاکستانیوں کو کتنی مہنگی پڑتی ہے۔ امریکہ کتنے ڈرون حملے کرتا ہے اور دہشت گرد کتنی قیامتیں ڈھاتے ہیں۔ نئے سال کے پہلے دن ہی کوئٹہ میں ایک مسافر بس میں بم دھماکہ کیا گیا۔ وہ تو خیر ہوئی کہ زیادہ ہلاکتیں نہیں ہوئیں لیکن نئے سال پر بھی دہشت گردوںنے اپنا پیغام دے دیا کہ وہ اپنا مشن اس سال بھی جاری رکھیں گے۔ سردی اس پار زور کی پڑ رہی ہے اتنی کہ کراچی والے بھی اس بار زد میں ہیں ۔اسکولوںمیں سردی کی چھٹیاں کچھ دن بڑھا دی گئی ہیں۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800