جنرل راحیل شریف کا جانشین کون … ؟

عقیل احمد
پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اس وقت کئی ایک الجھنوں کا شکار ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ تنازعہ نے انہیں فکرمند کر رکھا ہے تو ملک کی داخلی صورتحال کے بارے میں وہ فکرمند ہیں۔ آنے والے ہفتوں میں ان کی پریشانیوں میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ ایک بڑی آزمائش سے گذریں کیونکہ آنے والے دنوں میں انہیں ملک کے فوجی سربراہ کا انتخاب کرنا ہے جو آزمائش پر مرحلہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں جمہوری اداروں اور حکومت سے کہیں زیادہ طاقتور اور بااثر فوج ہوتی ہے۔ امریکہ اور کٹر حریف ہندوستان سے تعلقات اور کشیدگی یا تناؤ میں بھی اکثر پاکستانی فوج اہم رول ادا کرتی ہے۔ نواز شریف اور ملک میں دہشت گردوں کے صفائے کے خواہاں دوسروں کے لئے فکر کی بات یہ ہے کہ فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کی میعاد نومبر میں ختم ہونے والی ہے اور انہوں نے کہہ دیا ہے کہ اپنی میعاد کی تکمیل پر وہ سبکدوش ہو جائیں گے۔ یعنی جنرل راحیل شریف اپنی میعاد میں توسیع کے خواہاں نہیں ہیں۔ اب فیصلہ وزیر اعظم نواز شریف کو کرنا ہے کہ اس اہم ترین عہدہ پر کس کو فائز ہونا چاہئے۔ دوسری جانب ذرائع ابلاغ اور سرکاری حلقوں اور حکام میں یہ پیش قیاسی کی جارہی ہے کہ اپنی میعاد کی تکمیل کے بعد بھی جنرل راحیل شریف اپنے تمام یا بعض اختیارات اپنے پاس رکھنے کی خواہش کرسکتے ہیں۔ عالمی میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آنے والی رپورٹس کے مطابق جنرل راحیل شریف عام پاکستانیوں میں کافی مقبول ہیں۔ پاکستانی انہیں جرائم، کرپشن اور دہشت گردی عسکریت پسندی، انتہا پسندی اور مسلکی تشدد کے خلاف ایک فصیل اور محفوظ ڈھال سمجھتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حکومت کے پہلوؤں پر فوج کی گرفت مضبوط کی ہے جس میں عدلیہ اور سیکوریٹی پالیسی کے شعبے شامل ہیں۔ پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل عاصم باجوا جنرل راحیل شریف سے متعلق پیش قیاسیوں کے بارے میں اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’میری آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ قیاس اُرائیوں پر توجہ نہ دیں کیونکہ ہم سے پہلے ہی بہت ہی واضح موقف اختیار کیا ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے اس بارے میں مزید وضاحت نہیں کی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوج نے اس مسئلہ پر مزید تصبرہ سے انکار کردیا ہے جبکہ جنرل راحیل شریف انٹرویو کے لئے دستیاب نہیں ہیں۔ پاکستان کے تعلق سے عالمی میڈیا میں یہی رائے پائی جاتی ہے کہ اس ملک میں فوج ہمیشہ بااثر رہی۔ جمہوری حکومتوں کو متعدد مرتبہ بیدخل ہی ہونا پڑا۔ ایسے میں موجودہ حالات یہ اشارہ دیتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کی میعاد میں توسیع ہوگی اس ضمن میں انہیں خود وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے قریبی رفقاء کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ برسر اقتدار پاکستان مسلم لیگ کے بعض قائدین کے حوالے سے رائٹر جیسی عالمی خبررساں ایجنسیوں نے جو رپورٹس منظر عام پر لائی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ بیرونی ممالک میں پاکستانی فوج میں اعلیٰ سطح پر ہونے والی تبدیلیوں پر قریبی نظر رکھی جاتی ہے۔ مبصرین کے خیال میں افغانستان میں سردست 10 ہزار امریکی فوجی افغان طالبان اور دوسرے انتہا پسند گروپوں سے لڑنے میں مصروف ہے۔ واشنگٹن میں بعض ایسے عناصر ہیں جو انتہا پسندوں کے مکمل صفائے میں پاکستان پر ناکامی کے الزامات عائد کررہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پاکستانی سرزمین سے افغانستان میں داخل ہوکر انتہا پسند حملے کرتے ہیں لیکن پاکستانی حکام نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ہندوستان بھی پاکستان سے ناراض اور اس پر برہم ہے۔ مسئلہ کشمیر پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہاہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران اڑی میں 18 پاکستانی سپاہی دہشت گرد حملے میں مارے گئے ہیں۔ ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ یہ پاکستان کی کارستانی ہے اور پاکستان ہندوستان کے دعوؤں کی تردید کررہا ہے۔ ان حالات میں موجودہ فوجی سربراہ کی میعاد میں توسیع یا پھر دوسرے فوجی سربراہ کا انتخاب کافی اہمیت رکھتا ہے۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے تین قریبی رفقاء اور ایک سینئر فوجی عہدہ دار کے مطابق فوج کی اعلیٰ کمانڈ نے عہدہ فوجی سربراہ کے چار دعویداروں کی ایک فہرست وزیر اعظم کو روانہ کی ہے۔ ان چاروں میں XXXI کارپس کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال رامدے وزیر اعظم کے پسندیدہ امیدوار ہیں۔ لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال نے سال 2009ء میں تحریک طالبان پاکستان کے انتہا پسندوں کے خلاف وادی سوات میں کارروائی کی قیادت کی تھی۔ یہ علاقہ افغان سرحد کے قریب ہے۔ فہرست میں جو دیگر تین نام ہیں ان میں لیفٹننٹ جنرل زبیر حیات چیف آف جنرل اسٹاف، مشرقی شہر ملتان میں کمانڈنگ آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے لیفٹننٹ جنرل اسحاق ندیم احمد اور لیفٹننٹ جنرل عمر جاوید باجوا شامل ہیں۔

وہ آرمی ٹریننگ اینڈ ایوالیوشن ونگ کے سربراہ ہیں۔ لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال رامدے میاں محمد نواز شریف کی پسند اس لئے ہیں کیونکہ ان کا خاندان کئی برسوں سے میاں محمد نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن) سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بعض سیکوریٹی عہدہ دار بھی لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال رامدے کو جنرل راحیل شریف سے قریب سمجھتے ہیں۔ رائٹر سے بات چیت میں اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں ایک سینئر سیکوریٹی عہدیدار نے بتایا کہ دراصل لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال رامدے کو جس طرح نواز شریف پسند کرتے ہیں اسی طرح وہ راحیل شریف کی بھی پسند ہے۔ تاہم وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور نہ ہی جنرل راحیل شریف نے ان کے امکانات و مواقع کے بارے میں برسرعام کوئی تبصرہ کیا ہے۔ جہاں تک لیفٹننٹ جنرل زبیر حیات کے امکانات کی بات ہے وہ فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر میں انٹلی جنس اور آپریشنل امور کے نگران ہیں اس سے قبل انہوں نے اسٹروٹیجک پلانس ڈیویژن (SPD) کی سربراہی کی ہے۔ ایس پی ڈی پاکستان کے جوہری پروگرام کا ذمہ دار ہے۔ حیات کے ساتھ کام کرچکے اور کررہے عہدہ داروں کے خیال میں فوج اور سول حکومت کے درمیان حیات صلح کے ایک پل ہیں۔ اب آتے ہیں لیفٹننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد کی جانب انہیں خاص طور پر طالبان شورش پسندوں کے خلاف کارروائیوں کا وسیع تر تجربہ ہے اور سابق میں وہ ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشن (DGMO) کے انتہائی اہم عہدہ پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ پاکستان کے کئی فوجی سربراہ، فوج کی قیادت سنبھالنے سے قبل ڈی جی ایم اوز کی حیثیت سے خدمات انجام دیئے ہیں۔ دوسری طرف ایک برسر خدمت بریگیڈیئر کا جو لیفٹننٹ جنرل قمر جاوید باجوا کے ساتھ کام کرچکے ہیں کہنا ہے کہ جاوید باجوا جنرل راحیل شریف ہی کی طرح سوچ و فکر رکھتے ہیں۔ ایسے میں فوجی سربراہ کے باوقار عہدہ کے لئے ان کے امکانات بھی اچھے ہیں۔