جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن کا معیار

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری         خیر اللہ بیگ
حکومت کی بے بسی کا حال دیکھنا ہے تو آ پ کسی بھی سرکاری محکمہ یا دفتر جائیں آپ کو اس بات کی تصدیق ہوجائے گی کہ رشوت کے خلاف ہم کتنی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ ڈیجیٹل انڈیا کے لئے یہ سرکاری محکمہ جات کس حد تک تیار ہیں۔ نوٹ بندی کے بعد مرکز سے لیکر ریاستی سطح تک ڈیجیٹل انڈیا زور و شور بلند کیا جارہا ہے مگر جب عملی اقدامات کی بات آتی ہے تو آپ کو سرکاری کرمچاریوں کی لاپرواہیوں کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ دو ماہ گذرنے کے بعد بھی ڈیجیٹل معیشت اور کیاش لیس ادائیگیوں کا سلسلہ ٹھپ ہے ۔ کئی سرکاری محکمہ جات اب بھی عوام سے نقد رقم ادا کرنے کیلئے زور دے رہے ہیں۔ حکومت بظاہر پکوان گیاس اور دیگر اُمور کیلئے آن لائن ادائیگی پر 0.75 فیصد کی سبسیڈی دینے کی پیشکش کررہی ہے لیکن ان محکمہ جات اور کمپنیوں نے اپنے آن لائین پے مینٹ کی کوئی تشہیر نہیں کی۔ صرف ایک فیصد صارفین آن لائین پے مینٹ کرپارہے ہیں۔ پائیلٹ پراجکٹ میں غلطیوں کی وجہ سے آن لائین کام نہیں کررہا ہے۔ ٹی ایس آر ٹی سی، می سیوا اور اسکول فیس کیلئے بھی ہنوز رقم ادا کرنے پر ہی اصرار کیا جارہا ہے۔ آن لائین یا ڈیجیٹل لین دین کا سل ناکام ہے۔ می سیوا میں زائد از 300 سرویسس کیلئے بل ادا کئے جاتے ہیں ان میں میونسپل ٹیکس، پانی اور برقی بلز کی ادائیگی بھی شامل ہے۔ شہر میں 110 می سیوا سنٹرس ہیں ان میں سے چند ہی کارڈس کے ذریعہ ادائیگیاں قبول کی جارہی ہیں۔ می سیوا نے مختلف سرویسیس کیلئے آن لائین ادائیگیوں کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا۔
حکومت کی مالی حالت کمزور ہے اب نوٹ بندی نے تو اس حکومت کو کئی شعبوں میں اپنے ہی پراجکٹس کو تاخیر سے شروع کرنا پڑرہا ہے یا بعض پراجکٹس کو موخر بھی کردیا جاسکتا ہے۔ اس وقت حکومت تلنگانہ نے طلبہ کے تعلیمی مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے میں سابقہ تمام حکومتوں کے ریکارڈ توڑ دینے کی غلطی کرنے جارہی ہے تو طلباء برادری اسے ہرگز معاف نہیں کرے گی۔ ماہرین تعلیم اور کارکنوں نے فیس ری ایمبرسمنٹ جاری کرنے میں غیر معمولی تاخیر کرنے پر تنقید کی ہے۔ کئی کالجس کو فیس ری ایمبرسمنٹ کے بقایا جات ادا کرنا باقی ہے۔ اگر کالجس کو فیس وقت پر ادا نہیں کی گئی تو تعلیمی انتظامات کا عمل بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ طلبہ کی بڑی تعداد اپنی تعلیم سے محروم ہورہی ہے۔ فیس ری ایمبرسمنٹ کے مسئلہ پر تلنگانہ اسمبلی میں اپوزیشن نے آواز اٹھانے پر توجہ دی مگر یہ آواز حکومت کے نزدیک غیر مؤثر ثابت ہوتی ہے تو پھر طلبہ کا مستقبل معلق ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا کہنا ہے کہ بعض غیر معیاری کالجس کی وجہ سے تعلیم خراب ہورہی ہے اور بعض کالجس صرف فیس ری ایمبرسمنٹ کیلئے قائم کرکے طلبہ کے مستقبل کو تباہ کررہے ہیں۔ گذشتہ سال اکٹوبر میں ہی خانگی کالجس کے انتظامیہ نے فیس کی تاخیر پر احتجاج کیا تھا اور کئی کالجس نے اپنے سپلیمنٹری امتحانات کو بھی منسوخ کردیا تھا، مگر چیف منسٹر نے ایسے کالجس کی نشاندہی کی ہے جو اپوزیشن پارٹیوں نے فیس ری ایمبرسمنٹ مسئلہ پر حکومت کو زچ کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن وہ بھی حکومت پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔
ایوان میں کانگریس، تلگودیشم اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( مارکسسٹ ) کے ارکان نے فیس ری ایمبرسمنٹ مسئلہ کو بلند کیا، اس کے ساتھ ایوان میں دھرنا تو دیا لیکن چیف منسٹر انہیں مطمئن نہیں کرسکے صرف چیف منسٹر کے حامی اپوزیشن ارکان مطمئن نظر آرہے تھے، انہیں طلبہ کی فکر سے زیادہ اپنے تعلیمی ادارے اور سیاسی معاملات عزیز تھے۔ دیگر اپوزیشن قائدین کی جانب سے ایوان میں کئی گھنٹوں کا دھرنا بھی طلبہ کو تعلیمی ترقی کی راہ میں آسانیاں پیدا نہیں کرسکے گا۔ تمام اپوزیشن پارٹیاں تلنگانہ راشٹرا سمیتی حکومت کے خلاف ایک چھت کے نیچے آنا چاہتی ہیں یا انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اپوزیشن کے اتحاد کے باوجود تلنگانہ حکومت کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی ہے تو اپوزیشن کی داستان معلق ہی سمجھی جائے گی۔ اگرچیکہ پروفیسر کودنڈارام نے ایک مرن برت کرکے حصول اراضی قانون کے خلاف اپنا احتجاج درج کرانے میں کامیابی حاصل کی۔ عدالت نے بھی اس بل کے بارے میں اپنی رائے دے دی ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو اپوزیشن کی طاقت کا اندازہ ہے اس لئے وہ اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لارہی ہے، اس نے اپوزیشن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ حکومت سے مناسب طریقہ اور اصول کے مطابق رجوع ہوں تاکہ مسائل حل کئے جاسکیں۔ اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت پر پراجکٹس میں بدعنوانیوں کے الزامات عائد کئے ہیں لیکن اس سلسلہ میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا۔ ٹی آر ایس حکومت نے اپوزیشن کے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مشن بھگیرتا جیسے پروگراموں میں بدعنوانیوں کو مسترد کردیا ہے۔
چیف منسٹر کی حیثیت سے کے سی آر نے اپوزیشن کے خلاف جس جارحانہ موقف کو اختیار کیا ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے وجود کو وہ تسلیم ہی نہیں کررہے ہیں اس لئے وہ ایوان کی کارروائی کو اپنی مرضی اور اپنے طریقہ سے چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ٹی آر ایس ارکان اسمبلی اور ارکان کونسل کیلئے اسمبلی اور کونسل کا ایوان ایک بہترین پلیٹ فارم ہوتا ہے، گذشتہ ڈھائی سال کے دوران ٹی آر ایس حکومت کی کامیاب حکمرانی کو عوام کے سامنے اُجاگر کرنے کیلئے اسمبلی اور کونسل کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی بھی کامیاب کوشش کی جارہی ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے اب اپنی سیاسی تقدیر اتنی مضبوط لکھ دی ہے کہ اپوزیشن اور عوام ان کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتے۔ ریاست میں کے سی آر اور مرکز میں مودی کے بارے میں یہی سرگوشیاں ہورہی ہیں کہ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کی فائیل سے اپنے خراب اعمال کی تفصیلات کو حذف کردیا ہے۔ جمہوری معاشرہ میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ مضبوط اپوزیشن کو لیکر ہی حکومت اہم فیصلے کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس کا راست فائدہ عوام کو ہوتا ہے۔
اپوزیشن اور حکومت کے موقف کی ساری مثبت صورتحال کے ساتھ ساتھ یہ افسوسناک سلسلہ بھی جاری ہے کہ اپوزیشن کا ایک حصہ سڑکوں پر یا ایوان کے اندر احتجاج ہی کو اصل سیاست خیال کرنے لگا ہے۔ویسے حکمراں پارٹی ٹی آر ایس نے بھی سڑکوں پر پہنچ کر کی تلنگانہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، اب اس پارٹی کو یہی سڑکوں پر ہونے والا احتجاج پسند نہیں آرہا ہے۔ جلسوں اور دھرنوں کی سیاست کا اسے شکار ہونا پڑے گا۔ لہذا وقت گذرنے کے ساتھ ہی حالات اس کے خلاف ہوجائیں تو اس کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنی بہتر کارکردگی کے عملی ثبوت پیش کرے۔ طلبہ کے زوال پذیر معیار تعلیم کو بچانا حکومت کا کام ہوتا ہے۔ یوں اپوزیشن اور حکمران پارٹی کے سیاسی کھیل تماشوں سے طلبہ کی فیس ری ایمبرسمنٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، اس کے لئے سنجیدہ کوشش ضروری ہے۔
kbaig92@gmail.com