جمال زبیری کی مزاحیہ شاعری

جمال زبیری 1970ء سے تادم زیست کینیڈا میں مقیم رہے ۔ ان کے کہنے کے مطابق 1970 ء میں کینڈا میں ان کو ملا کر ڈھائی عدد اردو کے شاعر تھے ۔ آدھا شاعر انہوں نے اس شخص کو کہا ہے جو گھروں میں منعقد ہونے والی شعری محفلوں میں لہلہاکر دوسروں کے اشعار سنایا کرتے تھے ۔ بذلہ سنجی اور مزاح سے ان کو بچپن سے ہی دلچسپی تھی ۔ ان کے نانا صدیق حسن مشہور شاعرتھے ۔ جمال زبیری ابھی چھ سات سال ہی کے تھے کہ انہوں نے اپنا پہلا شعر لکھا اور جب اپنے نانا کو سنایا تو ان کے نانا نے ایک تھپڑ رسید کیا تھا اور کہا تھا کہ خبردار ایسی خرافات کبھی نہیں لکھنا ۔
حافظ محمد جیلانی
جمال زبیری مارہرہ شریف (یو پی) میں پیدا ہوئے ۔ ایٹہ ، امروہہ اور علیگڑھ کے تعلیمی اداروں سے اکتساب فن کیا ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد ، پاکستان جابسے اور وہاں کی سیاسی ، سماجی ، علاقائی اور طبقاتی رسہ کشی نے انہیں دکھی بنادیا ۔ اس کا اظہار ان کی طنز و مزاح پر مشتمل مذکورہ کتاب میں بھی ملتا ہے ۔ پھر وہ کینیڈا چلے گئے ۔ بظاہر وہ مذہب بیزار نظر آتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے نعوت میں حب نبوی کی مثالی شاعری بھی کی ہے ۔ نعت ، سلام ، منقبت اور اہل بیت اطہار پر ان کے اشعار متاثرکن ہیں ۔ عشق نبویؐ میں ڈوبا ہوا یہ شعر اور ان کی آرزو دیکھئے ۔
مجھے نصیب ہو طیبہ کی خاک اے مولا
خدا سے روز یہی دل کا مدعا کہئے
لیکن اس کتاب کا نام انہوں نے رکھا ہے ’’دیکھ لینا کہ چنے جائیں گے دیوار میں ہم‘‘ ۔ اسے زیور طبع سے آراستہ کرنے میں بڑی کاوش اور بے غرضی سے ناظم الدین مقبول صاحب نے بیڑا اٹھایا اور یہ کتاب منظر عام پر آگئی ہے ۔ ناظم الدین مقبول صاحب نے یہ کتاب مجھے تحفے میں دی تو کتاب کا نام دیکھ کر میں تو چونک گیا ۔ کتاب کے سرورق پر اینٹوں کے اندر چنی جانے والی دیوار میں زبیری صاحب بڑا خوبصورت سوٹ پہنے بیٹھے ہیں ۔
کتاب پڑھنے کے بعد فون پر میں نے ناظم الدین مقبول صاحب سے ربط پیدا کیا اور جمال زبیری سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ۔ فرمایا کہ وہ تو انتقال کرگئے ، بے ساختہ زبان سے نکلا انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ پھر تجسس سے پوچھا کہ آیا انہوں نے بعد از مرگ دیوار میں چنے جانے کی وصیت کی تھی ؟ فرمایا کہ نہیں ان کی تدفین عمل میں آئی ہے ۔ میرا خدشہ دور ہوگیا ۔ یہی خدشہ کتاب کے مصنف کے ایک مداح رسول احمد کلیمی نے اسی کتاب میں ’’جمال زبیری کا کمال شاعری‘‘ عنوان کے تحت مبسوط انداز میں کیا ہے ۔ ان کے یہ جملے ملاحظہ فرمائیں ’’جمال زبیری نے اپنے پہلے ہی مجموعہ کلام کا نام نہ جانے کیا سوچ کر ’’دیکھ لینا کہ چنے جائیں گے دیوار میں ہم‘‘ رکھا ہے ۔ یہ ان کی خواہش ہے یا خدشہ اس بارے میں یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا ، اگر یہ ان کی خواہش ہے تو پوری نہ ہو اور خدشہ ہے توسچ ثابت نہ ہو‘‘ ۔
رسول احمد کلیمی کے علاوہ اس کتاب میں ڈاکٹر مولا بخش ، اشفاق حسینی ، دل محمد اور ناظم الدین مقبول کی متاثر کن تحریروں کے علاوہ خود مصنف جمال زبیری کی دلچسپ تحریر ’’میری اپنی کہانی … میری زبانی‘‘ بھی پڑھنے کی ہے ، اور تو اور پدم شری مجتبیٰ حسین کے تاثرات کتاب کے ڈسٹ کور متاثر کن ہیں ، مثلاً ان کا یہ جملہ ’’میرا یہ راسخ عقیدہ ہے کہ جب تک اس کرہ ارض پر رہنے والے ہر انسان کو اس کے حصے کی ہنسی نہیں مل جاتی تب تک دنیا میں دائمی امن قائم ہو نہیں سکتا‘‘ ۔ 134 صفحات کی اس کتاب میں ساٹھ صفحات تک تو بار بار پڑھنے کو جی چاہنے والی ان تحریروں (نثر) سے کتاب کا قاری لطف اندوز ہوتا ہے ، مابقی 74 صفحات پر جمال زبیری کی طنز و مزاح سے بھرپور دلچسپ شاعری ہے ۔ اس کتاب کے آخری چودہ صفحات پر جمال زبیری کے ساتھ ترقی پسند شعراء و ادباء کے ساتھ لی ہوئی تصویریں بھی ہیں ۔
جمال زبیری 1970ء سے تادم زیست کینیڈا میں مقیم رہے ۔ ان کے کہنے کے مطابق 1970 ء میں کینڈا میں ان کو ملا کر ڈھائی عدد اردو کے شاعر تھے ۔ آدھا شاعر انہوں نے اس شخص کو کہا ہے جو گھروں میں منعقد ہونے والی شعری محفلوں میں لہلہاکر دوسروں کے اشعار سنایا کرتے تھے ۔ بذلہ سنجی اور مزاح سے ان کو بچپن سے ہی دلچسپی تھی ۔ ان کے نانا صدیق حسن مشہور شاعرتھے ۔ جمال زبیری ابھی چھ سات سال ہی کے تھے کہ انہوں نے اپنا پہلا شعر لکھا اور جب اپنے نانا کو سنایا تو ان کے نانا نے ایک تھپڑ رسید کیا تھا اور کہا تھا کہ خبردار ایسی خرافات کبھی نہیں لکھنا ۔ وہ شعر یہ تھا ؎
سنا ہے قیامت میں چٹنی بٹے گی
تو کتنا بڑا وہ مرتبان ہوگا
جمال زبیری کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:۔
دارالعلوم کھولے ہیں اس واسطے کہ تم
نفرت سکھارہے ہو وہاں پوچھتے ہیں ہم
ملا نے میرے ملک کو برباد کردیا
وہ جو سکھارہا ہے اسے سہہ رہے ہیں ہم
(مسلکوں کے نام پر لڑتے رہنے والے ، یہ ملک پاکستان کا منظرنامہ ہے)
ایک شعر دیکھئے
ملا کو ایک سانپ نے کاٹا تو یہ ہوا
ملا تو ٹھیک ٹھاک رہا سانپ مرگیا
سرزمین دکن میں ہم لوگ مقامی دکھنی اردو میں ’’ہاں‘‘ کو ہو کہتے ہیں ۔ اس پر (ہجو) طنز دیکھئے۔
اپنے دکھن میں عشق بھی کرنا محال تھا
یو پی کی ایک لڑکی سے جب آنکھ لڑگئی
پوچھا تمہیں ہے عشق تو میں نے کہا کہ ہاؤ
بولی یہ ہاؤ ہاؤ ہے کیا ؟ تم یہاں سے جاؤ
مولوی صاحبان کے علاوہ بیویوں پر بھی تمام طنز و مزاح نگار ادباء و شعراء نے طبع آزمائی کی ہے ۔ اب جمال زبیری کی نظر میں بیوی کا مقام ملاحظہ فرمائیں ۔ اور تضمین کی ایک عمدہ مثال دیکھئے ؎
کہا بیوی نے شوہر سے دسویں منزل پر
چھلانگ گر میں لگادوں یہاں سے کیا ہوگا
تو ہنس کے بیوی کو شوہر نے یہ جواب دیا
’’پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا‘‘
درج ذیل دو شعر بھی تضمین کے طرز پر کہے گئے ہیں ۔ یہ سب اکائیاں کے زمرہ میں کتاب میں طبع ہوئی ہیں ، کہا ہے ؎
اگر دنیا میں بیوی کو کوئی سمجھا تو میں سمجھا
’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘
مری بیوی کہہ رہی ہے طلاق مجھ سے لے گی
’’میں خوشی سے مر نہ جاتا اگر اعتبار ہوتا‘‘
بیویوں کے عتاب میں رہنا
زندگی بھر عذاب میں رہنا
خون تھوکوگے یہ شرط لگا کر دیکھو
اپنی بیوی کو ذرا سر پہ چڑھا کر دیکھو
کہا اللہ سے اک روز یہ رو رو کر بیوی نے
خدایا رحم کر مجھ پر کہ میں بھی تیری ہوں بندی
الہی کیوں غلامی دے کے لڑکی کو کیا پیدا
کبھی دنیا کی پابندی کبھی شوہر کی پابندی