جماعت اسلامی ہند کی نئی قیادت اور چیلنجس

محمد نصیرالدین

’’انتخابات‘‘ کا لفظ سنتے ہی سازشوں ، چال بازیوں ، الزام تراشیوں ، دھونس دھاندلی ، جھوٹ ، مکر و فریب کی تصاویر نگاہوں میں آنے لگتی ہیں لیکن ’’جماعت اسلامی ہند‘‘ ملک کی وہ واحد منظم تنظیم ہے جس کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اس کی قیادت نہ موروثی ہوتی ہے اور نہ ہی طاقت و قوت اور دھونس و دھاندلی کے بل پر تبدیل ہوتی ہے اور نہ ہی جہاں حصول قیادت کیلئے رسہ کشی ، جوڑ توڑ اور گروہ بندی ہی نظر آتی ہے ۔ چنانچہ قیام جماعت اسلامی کے بعد اس کے پہلے امیر مولانا ابواللیث اصلاحی وندویؒ اور ان کے بعد مولانا محمد یوسفؒ ، مولانا محمد سراج الحسن ، ڈاکٹر عبدالحق انصاریؒ اور مولانا سید جلال الدین عمری کے بعد انجنیئر سید سعادت اللہ حسینی تک انتہائی باوقار انداز میں قیادتیں تبدیل ہوتی رہیں۔ ملک کی کسی بھی سیاسی ، سماجی اور مذہبی تنظیم کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے ۔ وجہ صاف ہے کہ جس اجتماعیت کی بنیاد للہیت اور فکر آخرت ہوتی ہے وہاں قیادت کوئی اعزاز یا منصب نہیں بلکہ ایک ذمہ داری سمجھی جاتی ہے اور اس ذمہ داری کی اخروی جوابدہی کے احساس تلے ہر فرد ذمہ داری سے خوف کھاتا ہے اور خود کو ذمہ داری سے دور رکھنا چاہتا ہے ۔ برخلاف اس کے جہاں قیادت مادی منفعت ، شہرت ، عزت اور عیش و عشرت کا باعث ہوتی ہے وہاں حصول اقتدار کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔

انجنیئر سید سعادت اللہ حسینی قابل مبارکباد ہیں کہ ملک کے طول و عرض کے وابستگان جماعت نے ان پر اعتماد کیا اور قیادت کے منصب پر فائز کیا ۔ اس موقع پر بجا طور پر ملت اسلامیہ ہند کی نگاہیں ان کی طرف ہیں کہ دین و ملت کو درپیش چیلنجس کے سلسلہ میں وہ جماعت اوراس کے وابستگان کو کیسے متحرک کرپاتے ہیں ۔
جماعت اسلامی ہند کی تاسیس کا واحد مقصد ’’اقامت دین ‘‘ طئے کیا گیا ہے لیکن 70 سال کی طو یل مسافت کے باوجود ملت کی ایک بڑی اکثریت اور برادران وطن کی خاصی تعداد ’’ اقامت دین ‘‘ کی معنویت ، اہمیت اور ضرورت کو سمجھ نہیں سکی ۔ مختلف شعبہ جات میں جماعت یقیناً متحرک ہے لیکن عوام الناس کو اقامت دین کی جدوجہد میں ابھی بھی شامل نہیں کیا جاسکا۔ نئی قیادت کو اس اہم چیلنج کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ’’مقصد تاسیس‘‘ ہی اوجھل ہوجائے تو اس جماعت کی افادیت خود بخود ختم ہوجائے گی ۔ جماعت اور اس کے وابستگان کو مقصد اقامت دین کی تفہیم و تعبیر کے سلسلہ میں سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور مقصد اقامت دین کی واضح تشریح ملت اور باشندگان ملک کے سامنے حکمت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ بانی جماعت سید مودودیؒ نے اقامت دین کے متعلق فرمایا تھا ’’ہم جب اقامت دین کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب محض مسجدوں میں دین قائم کرنا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ کردینا نہیں ہوتا بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھر اور مسجد کالج اور منڈی ، تھانے اور چھاؤنی ، ہائیکورٹ اور پارلیمنٹ ، ایوان وزارت اور سفارت خانہ سب پر اسی ایک خدا کا دین قائم کیا جائے جس کو ہم نے اپنا رب اور معبود تسلیم کیا ‘‘۔ کسی بھی جماعت کا کیڈر اور وابستگان اس جماعت کی شناخت ہوتے ہیں، جماعت اسلامی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کا کیڈر اعلیٰ اخلاق اور مثالی کردار کا حامل ہوتا تھا لیکن مادیت کی چمک دمک اور دنیا پرستی نے عوام الناس کے ساتھ جماعت کے کیڈر کو بھی متاثر کیا چنانچہ جماعت کا کیڈر بھی اپنی اعلیٰ شناخت سے محروم ہونے لگا ہے۔ اقامت دین کے کیڈر کی شناخت ان کی اعلیٰ سیرت و کردار ہوتی ہے جن کا کردار و عمل سیرت رسولؐ کے تابع ہوتا ہے اور للہیت اور فکر آخرت ان کے ہر عمل سے ظاہر ہوتی ہے ، اس طرف جو کمی آئی ہے اس کو دور کرنے کے سلسلہ میں نئی قیادت کو خاص توجہ دینا چاہئے ۔

ملک میں مسلمان لگ بھگ 20 فیصد کی تعداد میں پائے جاتے ہیں، مختلف مکاتب فکر اور نظریات کے وہ حامل ہیں لیکن سانحہ عظیم یہ ہے کہ توحید ، رسالت اور آخرت پر ایمان کے باوجود وہ انتشار و افتراق کا شکار ہیں ، آپس میں دست و گریباں ہیں ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے میں مصروف ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سمندر میں جھاگ کی جو حیثیت ہوئی ہے ملک میں ان کی وہی حیثیت ہوکر رہ گئی ہے نہ کوئی آواز نہ کوئی نمائندگی نہ کوئی وزن، یہ ایک انتہائی تلخ حقیقت ہے۔ جماعت کی نوجوان قیادت کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ملت اسلامیہ اندرونی اختلافات کے باوجود یک جٹ اور ایک آواز بنے باہمی شیر و شکر بن جائیں اور افتراق ، انتشار اور تفرقہ ختم ہوجائے۔ اس سلسلہ میں کوئی مشترکہ قابل قبول لائحہ عمل تیار کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

ملت اسلامیہ کی تعلیم و روزگار سے بڑھتی دلچسپی یقیناً خوش آئند ہے جس کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کا معیار زندگی اونچا ہورہا ہے بلکہ معاشی طور پر بھی استحکام دیکھا جارہا ہے لیکن مغربی تہذیب کے بڑھتے اثرات اور بے راہ روی کی وجہ سے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی زوال پذیر ہوتی جارہی ہے ۔ عریانیت ، مخلوط کلچر ، غیروں سے رشتہ جوڑنا ، بے پردگی ، خود غرضانہ زندگی اور مشترکہ خاندان سے بے زاری نے رشتہ و ناطہ کے احترام ، اصول اور تقاضوں کو ختم کردیا ہے بلکہ دین بیزاری نئی نسل کا بڑی تیزی سے خاصہ بنتی جارہی ہے ۔ جماعت کی نئی قیادت سے بجا طور پر امید کی جا سکتی ہے کہ وہ بے راہ روی و دین بیزاری کے ماحول پر بندہ باندھنے کے سلسلہ میں کوشش کریں اور نئی نسل کو دین سے مکمل وابستہ کرنے کے سلسلہ میں اقدامات اٹھائیں۔

ہندوستان مذہبی رواداری کیلئے مشہور رہا ہے لیکن جب سے فسطائی طاقتوں نے ملک کی زمام کار سنبھالی ہے ، ملک میں نفرت تعصب اور فرقہ پرستی کی فضاء پروان چڑھتی جارہی ہے ، کبھی گاؤکشی کو لے کر کبھی طلاق ثلاثہ یا رام مندر ، یکساں سیول کوڈ اور دفعہ 370 کو لے کر مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے عام مسلمان کی زندگی ڈر و خوف کا شکار ہوگئی ہے اور مذہبی جنونیوں کی ظلم و بربریت حد سے بڑھتی جارہی ہے ، ظاہر ہے یہ ماحول دونوں فرقوں کے مفاد میں نہیں ہے اور ملک کی تعمیر اور ترقی کے لئے بھی زبردست رکاوٹ ہے ۔ جماعت کی نوجوان قیادت کو اس صورتحال کا خاص نوٹ لینا چاہئے، اس صورتحال کے اسباب اور محرکات کو تلاش کریں اور اس صورتحال کی تبدیلی کے لئے فسطائی طاقتوں اور ان کی تنظیموں سے روابط استوار کریں اور انہیں اس صورتحال کے خاتمہ کے سلسلہ میں متحرک کریں اور تیار کریں کیونکہ موجودہ ماحول نہ صرف امن و امان کیلئے خطرناک ہے بلکہ ا قامت دین کی راہ کیلئے سدراہ بھی ہے !!
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ملک کی اکثریتی آبادی کا بڑا طبقہ امن پسند اور خیر پسند آبادی پر مشتمل ہے اور اس سماج کا تعلیم یافتہ اور سوچنے سمجھنے والا طبقہ مذہب اور کلچر کو لے کر ایک عجیب گو مگو اور اضطراب کی کیفیت کا شکار ہے ، ان کی روحیں حق کی متلاشی ہیں لیکن بدقسمتی سے ان تک حق کی آواز اور روح کی تسکین کا سامان پہنچانے والوں کی کمی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی تمام ہی زبانوں میں عظیم الشان پیمانے پر سوشیل میڈیا اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ دین حق کی رسائی کا ایک عظیم منصوبہ تیار کیا جائے اور سال بہ سال ملک کی مکمل آبادی تک پیغام پہنچانے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں ضلع واری سطح پر مراکز دعوت کو قائم کیا جائے اور موثر و مفید انداز میں دین کے پیغام رحمت کو عام کرنے کی کوشش کی جائے ۔ تعجب ہوتا ہے کہ ملت مختلف عنوانات سے اجتماعات ، جلسوں اور دیگر پروگراموں پر کروڑہا روپیہ خرچ کردیتی ہے لیکن منصوبہ بندی ، مبسوط اور مسلسل انداز میں ذرائع ابلاغ کے استعمال سے گریز کرتی ہے ، امید کہ نئی قیادت اس پہلو پر غور کرے گی اور ایک لائحہ عمل ترتیب دے گی۔
الحمدللہ ملک میں مختلف تنظیمیں اور ادارے خدمت خلق ، تعلیم ، روزگار اور سماجی مسائل کے حل کے لئے کئی ایک قابل قدر کام انجام دے رہی ہیں۔ جماعت کی نئی قیادت کو اس سلسلہ میں ٹھوس قدم اٹھانا چاہئے کہ مذکورہ سرگرمیوں کے سلسلہ میں جماعت دیگر اداروں اور تنظیموں کے ساتھ تعاون کرے اور جماعت کی افرادی قوت ، وسائل ، صلاحیتوں کو ا قامت دین کے سلسلہ کے کاموں پر مصروف رکھے تاکہ duplication of work بھی نہ ہو اور جماعت کے نصب العین پر بھرپور توجہ مرکوز ہوسکے جو کہ تاسیس جماعت کا واحداور ا ہم مقصد ہے۔ جماعت اسلامی کی جواں سال قیادت کو اس بات کی بھی کوشش کرنی چاہئے کہ جماعت اپنی سرگرمیوں میں ملت کے وسیع تر طبقہ کو شامل کرے اور ان کا تعاون بھی حاصل کرے ۔ ملت اسلامیہ میں آج بھی دانشوروں ، صحافیوں، اعلیٰ عہدوں پر فائز حضرات کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت اپنا دائرہ کار وسیع کرے اور اپنی سرگرمیوں میں ملت کے اہل علم اور اہل نظر اصحاب کو شامل کرے تاکہ مختلف محاذوں پر جماعت کی سرگرمیاں تیز تر اور مفید انداز میں انجام پاتی رہیں۔ جماعت کی نئی قیادت کے لئے یہ چند گزارشات پیش خدمت ہیں ، امید کہ وہ ان پر غور کریں گے اور جماعت کو سماج اور ملک کے لئے مفید تر بنانے کے سلسلہ میں ایک وسیع تر منصوبہ تیار کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ ان کا حامی و مددگار بن جائے ۔ آمین۔