جلیل مانکپوری کی فصاحتِ شعری

صابرعلی سیوانی
حضرت امیر مینائی کے شاگرد ، میر محبوب علی خان آصفؔ اور میر عثمان علی خان بہادر آصف سابع کے استادِ سخن حضرت فصاحت جنگ جلیل مانکپوری کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے ، جنھوں نے اردو شاعری کی روایت کو توانا اور مستحکم بنانے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا ۔ جلیل مانکپوری کی خوش بختی یہ تھی کہ انھیں امیر مینائی جیسا درویش صفت استاد ملا اور میر محبوب علی خان آصف اور میر عثمان علی خاں جیسے ادب پرور فرماں روایان حیدرآباد کی سرپرستی حاصل ہوئی ۔ یہی وجہ تھی کہ جلیل کی فکری ہیئت اور  تخیلاتی نہج کو بلندپروازی حاصل ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جلیل نے اپنے کلام کے پانچ دواوین (تاجِ سخن ، جانِ سخن ، روحِ سخن ، سرتاجِ سخن اور معراج سخن) اردو دنیا کو دئے وہیں عروض اردو زبان و بیان اور سوانح پر مشتمل اردو کاعروض ، تذکیرو تانیث اور سوانح حضرت امیر مینائی جیسی شاہکار کتابیں تشنگان علم و ادب کی سیرابی کے لئے تصنیف کیں ۔ علاوہ ازیں رباعیات کا ایک مجموعہ ’’گلِ صد برگ‘‘اور دینیات کا رسالہ ’’تعلیم الصلوۃ‘‘ سے بھی علمی دنیا کو نوازا ۔ محاورات کا مجموعہ ’’معیار اردو‘‘کی تصنیف کے ذریعہ صحیح محاوروں کے ادراک سے ادب پسندوں کو روشناس کرایا ۔ مندرجہ بالا گیارہ رتصنیفات کا ذکر نیاز فتح پوری کے رسالہ ’’نگار‘‘ جنوری فروری 1941 کے صفحہ نمبر 80 پر ملتا ہے ۔ کچھ اسی طرح کی اطلاعات ہمیں جلیل مانکپوری کے فرزند ارجمند علی احمد جلیلی کی تحقیقی کتاب ’’فصاحت جنگ جلیل مانکپوری‘‘ کے ذریعہ فراہم ہوتی ہیں  ۔

نواب میر محبوب علی خان آصف سادس نے جلیل مانکپوری کو’’جلیل القدر‘‘ کے لقب سے سرفراز فرمایا حالانکہ ’’استاد السلطان‘‘ کا لقب اسی وقت سے جلیل کے نام کے ساتھ جڑچکا تھا ، جب وہ میر محبوب علی خان کے استاد سخن منتخب ہوئے تھے ۔ میر عثمان علی خان نے 1335 ھ میں اپنی سالگرہ تقریب کے موقع پر جلیل مانکپوری کو ’’فصاحت جنگ بہادر‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا  ۔ بعد ازاں میر عثمان علی خان نے انھیں ’’امام الفن‘‘ کا لقب عطاکیا ۔ شاہانِ دکن کی استادی کا شرف حاصل کرنے والے مشہور کلاسیکی شاعر حضرت فصاحت جنگ جلیل مانکپوری نے اپنی پوری زندگی درویشانہ طور پر گزاری ۔ حرص و طمع اور جاہ و منصب کی پروا کئے بغیر انھوں نے اردو شاعری اور ادبِ عالیہ کے دامن میں پناہ لی اور پوری زندگی اسی کے اسیر بنے رہے  ۔
حافظجلیل حسن جلیل مانکپوری دبستان لکھنؤ کے ایک نمائندہ شاعر تسلیم کئے جاتے ہیں ۔ جلیل مانکپوری کی پیدائش 1283 ھ  مطابق 1862 ء پرتاپ گڑھ (یوپی) کے مانکپور میں ہوئی ۔ مانکپور یو پی کے ضلع پرتاپ گڑھ کی تحصیل کنڈہ میں ایک قصبہ ہے ۔ کم عمری میں ہی انھوں نے قرآن ختم کیا ۔ اور صرف  12 سال کی عمر میں حافظ قرآن ہوگئے ۔ بیس سال تک تعلیم کا سلسلہ جاری رہا ۔ مانکپور جیسے چھوٹے مقام پر عربی اور فارسی کے ابتدائی نصاب  کا درس اپنے والد مولانا حافظ عبدالکریم سے لیا۔ بعد ازاں طلب علم کا شوق انھیں لکھنؤ لے گیا، جو اس وقت علم و فضل اور ادب و فن کا مرکز تھا ۔ وہاں علمائے فرنگی محل کا فیضان جاری تھا ۔ فرنگی محل میں ہی انھوں نے عربی ، فارسی ، صرف و نحو اور معقولات و منقولات کا درس لیا ۔ چونکہ ان کا رجحان شعر و ادب کی طرف تھا اس لئے زبان و معانی کی کتابوں کا مطالعہ کرکے اپنے ذوق کی تکمیل کی اور لکھنؤ سے واپس مانکپور آگئے ۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی شعر کہنے شروع کردیئے تھے ، لیکن جوں جوں شعری ذوق بڑھتا گیا، کسی استاد سخن سے اصلاح لینے کا خیال شدت اختیار کرنے لگا۔ اس عہد میں امیر مینائی سب سے مقبول، ممتاز اور مشہور شاعر تھے  ۔ خط و کتابت کے بعد حضرت امیر مینائی نے فصاحت جنگ جلیل کو اپنی شاگردی میں لے لیا ۔ اس وقت امیر مینائی ’’دفتر امیر اللغات‘‘ رامپور میں قائم کرچکے تھے ، جہاں ان کے بعض نامور شاگرد کام کررہے تھے ۔ خط و کتابت سے جلیل کی صلاحیت سے وہ بخوبی واقف ہوچکے تھے اور انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ جلیل مانکپور سے رامپور چلے آئیں، لیکن جلیل اپنے ضعیف العمر والد کو گھر چھوڑ کر جانے کے لئے تیار نہ تھے  ۔ اس سلسلے میں دونوں اکابر کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی ، اس کا ذکر علی احمد جلیلی نے اپنی کتاب’’ فصاحت جنگ جلیل مانکپوری‘‘ (مطبوعہ حیدرآباد 1993) کے صفحہ نمبر 24 پر کیا ہے اور امیر مینائی کا خط بھی شائع کیا ہے ۔ امیر مینائی کے خط نے جلیل کو مجبور کردیا کہ وہ رامپور کے لئے رخت سفر باندھ لیں ۔ والد کو کسی طرح سمجھا بجھا کر وہ 1887ء میں رامپور چلے گئے ۔ اس وقت رامپور میں نواب حامد علی خاں کی فرمانروائی تھی  ۔ رامپور میں ’’دفتر امیر اللغات‘‘ کا قیام امیر اللغات کی تیاری کے لئے عمل میں آیا تھا ۔ امیر اللغات اردو کی جامع لیکن نامکمل لغت ہے جو امیر مینائی کے نام سے منسوب ہے ۔ سرالفرڈلائل لفٹیننٹ گورنر کی فرمائش پر والیٔ رامپور نواب کلب علی خاں نے اردو کی ایک مبسوط لغت تیار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔ امیر اللغات کا باقاعدہ ایک دفتر قائم کیا گیا تھا اور لغت کی تیاری کا کام بھی شروع ہوا تھا ، لیکن اس لغت کی تکمیل بعض وجوہ سے نہیں ہوسکی ۔

حضرت امیر مینائی دربار رامپور سے رخصت ہو کر 1900ء میں حیدرآباد پہنچے ۔ امیر مینائی کے ہمراہ ان کے دو فرزند لطیف احمد اختر مینائی ، مسعود احمد ضمیر مینائی اور جناب جلیل مانکپوری بھی تھے ۔ حیدرآباد میں شاہ کے استاد مرزا داغ دہلوی نے  ان  چاروںکی مہمان نوازی کی امیر مینائی کا حیدرآباد میں قیام کے کچھ ہی مہینوں کے بعد انتقال ہوگیا ۔ امیر مینائی کے  انتقال کے بعد فصاحت جنگ جلیل کو ان کا جانشین مقرر کیا گیا ۔ جلیل مانکپوری کو امیر مینائی کے ساتھ 12 سال تک رفاقت رہی ۔ اس مدت میں انہیں استاد کے فیض سے پوری طرح بہرہ ور ہونے کا موقع ملا ۔ جلیل کی شاعری پر ان کے استاد امیر مینائی کا رنگ اس قدر غالب ہوگیا تھا کہ ان کی غزلوں پر امیر مینائی کی غزل کا گمان ہونے لگتا تھا ۔ چنانچہ سید سلیمان ندوی نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے :۔
’’شاعری میں جو اوصاف اور خصوصیات امیر میں تھے ، وہی جلیل میں تھے بلکہ امیر کے قدیم و جدید کے جو دو رنگ تھے وہی جلیل میں تھے‘‘ ۔ (ماہنامہ معارف اعظم گڑھ مارچ 1946)
جلیل پر امیر مینائی کی شاعری کے اثرات اتنے گہرے تھے ، ان کی شاعری امیر مینائی کا چربہ کہی جانے لگی تھی ۔ جلیل پر امیر کا جو رنگ چڑھا تھا ، اس کے متعلق فرزندِ جلیل علی احمد جلیلی لکھتے ہیں :۔
’’جلیل امیر مینائی کے رنگ میں اس طرح رنگ گئے تھے کہ ان کی غزلوںپر امیر کی غزل ہونے کا گمان ہوتا تھا  ۔دیوان اول ’’تاج سخن‘‘ کی غزلیں اس کا ثبوت ہیں ۔ مؤلف گلِ رعنا جناب عبدالحی نے ’’تاج سخن‘‘ کو دیکھ کر کہا تھا کہ اگر دونوں کا کلام مخلوط کردیا جائے تو امتیاز کرنا مشکل ہے‘‘ ( فصاحت جنگ جلیل مانکپوری ، اعجاز پریس حیدرآباد 1993 ، صفحہ 48)
امیر مینائی کی شاعری کے اثرات جلیل کی شاعری کے نہ صرف انداز ، اسلوب ، صنائع و بدائع ، سہل پسندی ، سلاست بیانی اور استعارات و کنایوں کے استعمال میں دیکھے جاسکتے ہیں ، بلکہ بعض مضامین اور موضوعات بھی بالکل وہی معلوم ہوتے ہیں جو امیر مینائی کے اشعار کا خاصہ ہیں مگر زمین الگ اور قافیہ و ردیف جداگانہ ہوتے ہیں ۔ مثلاً امیر مینائی  کا ایک مشہور شعر ہے :۔

ہم چلے دَیر سے کعبے کو تو وہ بُت بولا
جا کے لے لیجئے کعبے میں خدا رکھا ہے
حضرت جلیل مانکپوری  اسی مضمون کو اپنے منفرد انداز میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں :۔
حسن دیکھا جو بتوں کا تو خدا یاد آیا
راہ کعبہ کی ملی ہے مجھے بت خانہ سے
امیر مینائی کی درویشانہ زندگی اور جلیل مانکپوری کی سادہ مزاجی و پاکبازی میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ جلیل مانکپوری  کی شخصیت سادگی کا پیکر تھی  ۔انکساری ، بردباری ، تحمل ، قناعت ، خلوص، راست بازی اور تقوی و پرہیزگاری ان کی شناخت  کے وہ عناصر تھے جو ایک درویش صفت انسان میں پائے جاتے ہیں اور یہ تمام صفات جلیل مانکپوری کی مثالی شخصیت کا حصہ تھیں ۔ ان کی درویشانہ زندگی اور قناعت پسندی کا اعتراف بڑے بڑے مشاہیر نے کیا ہے ۔ قاضی عبدالغفار جلیل کی شخصیت کی پاکیزگی کو کچھ اس انداز سے بیان کیا ہے :۔
’’وہ (حضرت جلیل) ایک درویش صفت انسان تھے اور ان کی درویشا نہ شان جن لوگوں نے دیکھی ہے وہ کہہ سکتے ہیں کہ شخصی حیثیت سے ان کا مقام بلند و برتر تھا اور شاعری سے بھی بلند و بالا تھا‘‘ (اخبار المیزان حیدرآباد 27  جمادی الثانی 1365 ھ بحوالہ فصاحت جنگ جلیل مانکپوری  ، مصنف علی احمد جلیلی  حیدرآباد 1993 صفحہ 189)
علی احمد جلیلی   فصاحت جنگ جلیل کے لائق و فائق فرزند تھے ۔انہوں نے باپ کی وراثتِ شاعری کو بڑی ہنر مندی سے سنبھالا ۔ خود شاعر تھے بلکہ استاد شعراء میں شمار کئے جاتے تھے ۔ انھوں نے جلیل کی فرزندی کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے والد کی حیات و شاعری پر نہایت وقیع مبسوط اور جامع تحقیقی کتاب بعنوان’’ فصاحت جنگ جلیل مانکپوری‘‘  تحریر کی ، جس کی اشاعت حیدرآبادسے 1993 میں عمل میں آئی ۔ یہ کتاب جلیل مانکپوری  کی شخصیت اور شاعری کے مختلف پہلوؤں کا بھرپور احاطہ کرتی ہے ۔ اس کتاب میں جلیل کی شخصیت کے بارے میں 36 صفحات پر مشتمل تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔ شخصیت کے اس باب میں مصنف نے جلیل کی وضع قطع ، لباس  ،سادگی و انکساری ، معاصرین کے ساتھ تعلقات ، خوش طبعی و معمولات جیسے ذیلی عنوانات پر نہایت مدلل گفتگو کی ہے ۔ ایک جگہ حضرت جلیل کی شخصیت کا خاکہ کچھ اس انداز سے پیش کرتے ہیں :۔

’’جلیل کی شخصیت کی تشکیل میں ان کے فن اور ان کی سیرت دونوں نے برابر کا حصہ لیا ۔ انسانی سیرت و اخلاق پر توارث اور ماحول دونوں کم و بیش اثر انداز ہوتے ہیں ۔ خوش قسمتی سے آپ کو بہتر توارث اور اچھا علمی  ماحول، اعلی درجہ کی تربیت گاہیں اور شائستہ قسم کی صحبتیں میسر آئیں ۔ آنکھیں کھولیں تو گھر کا علمی ماحول اور دینداری دیکھی ۔ شعور آیا تو لکھنؤ کے علمائے  فرنگی محل جیسی اعلی قسم کی صحبتیں میسر آئیں ۔ ساتھ ہی لکھنؤ میں لکھنؤ کی مٹتی ہوئی تہذیب  اور اس کے نشانات و آثار بھی دیکھے ۔ چنانچہ جلیل نے اپنی طرز معاشرت  ، نشست و برخاست، گفتگو ، برتاؤ، چال چلن اور تمیز و تہذیب کے ذریعہ جو کچھ دیا اس سے ان کی شخصیت اور ابھر کر سامنے آئی  ۔اس میں شک نہیں کہ جلیل پر اگرچہ شاعری کا بڑا احسان ہے کہ جو کچھ شہرت ہے وہ اسی کی بدولت ہے ، لیکن درحقیقت وہ شاعر سے زیادہ انسانِ کامل تھے۔  اپنی درویشانہ شان اور عمل کی بدولت و شاعر نہ  بھی ہوتے تو یقیناً ایک بڑے عالم اور مرشد کامل جانے جاتے‘‘ (فصاحت جنگ جلیل مانکپوری  ،علی احمد جلیلی  ، اعجاز پریس ، چھتہ بازار حیدرآباد 1993 صفحہ 188-189)
مثالی شخصیت کی تشکیل یوں ہی نہیں ہوجاتی ہے ۔ اس میں خاندانی وراثت ، نجابت تربیت ، تعلیم ، ماحول ، اور خود انسان کی فطرت اور ذہنیت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے ۔ حالانکہ جلیل کو جس طرح کا شاہانہ ماحول ملا تھا، اس سے ان کی طبیعت عیش و آرام کی متقاضی ہوسکتی تھی ، لیکن انھوں نے درویشی کو عیش و عشرت پر ترجیح دی ۔ شاعر کی شکل میں ایک عارف کامل اور درویش صف انسان نے اپنی زندگی کو زہد و تقوی اور عبادت و ریاضت کا پیکر بنا کر پیش کیا ۔ لیکن جب ان کی شاعری کا مطالعہ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ شاعر لذتِ کام و دہن ، ساقی و پیالہ ، ساغر و پیمانہ اور مے و میخانہ کا اسیر رہا ہوگا کیونکہ جلیل کی شاعری میں ساقی ، شراب ، میخانہ اور جام دو آتشہ وغیرہ کا ذکر بار بار آتا ہے لیکن ان کی زندگی ایک درویش شب زندہ دار اور ایک صوفی کی مکمل تصویر تھی ۔ جلیل نے پوری زندگی ایک انسان کامل کے طور پر گذاردی  ۔

جلیل مانکپوری  کی شاعری کلاسیکی روایت کی پاسدار ہے ۔ دبستان لکھنؤ کے آخری استاد شعراء کی صف میں جلیل مانکپوری  نہایت اہم مقام رکھتے ہیں ۔ فصاحت جنگ کا خطاب پانے والے جلیل کی شاعری واقعی فصاحت کا بہترین نمونہ ہے ۔ شاعری کی وہ کون سی صنعت ہے جس کا استعمال جلیل نے نہیں کیا ہے ۔ قدیم رنگ تغزل میں جو تاثیر اور کشش پائی جاتی ہے وہ جلیل کی شاعری کی شناخت ہے ۔ نازک خیالی ، شوخی اور زبان کی سلاست نے ان کی شاعری میں ایسی تہہ داری پیدا کی ہے کہ بڑے بڑے شعراء رشک کرتے رہ گئے ۔ کورانہ تقلید کی کوششیں ہوئیں ، لیکن ناکامی مقدر بنی ۔ شاعری وہی دیرپا ا ثر رکھتی ہے ، جو دلوں میں اپنی جگہ بنالیتی ہے اور جس شاعری  میں دلوں میں گھر بنانے کی صفت پائی جاتی ہے ، وہ صدیوں پر ستاران شعر و ادب کی زبانوں پر جاری رہتی ہے اور ان دلوں میں محفوظ رہتی ہے  ۔ آسان زبان اور عام بول چال والے لہجے میں موزوں کئے گئے اشعار جو معنی آفرینی ، نازک خیالی اور سادگی کا پیکر ہوتے ہیں ، وہی اشعار اپنی معنویت  ، وقعت اور اہمیت برقرار رکھ پاتے ہیں ۔ جلیل کی شاعری ان تمام اوصاف سے متصف نظر آتی ہے ، جو صدیوں تاریخ شعروسخن کے اوراق میں باقی رہ سکتی ہے ۔ (باقی آئندہ)