جلیل مانکپوری کی فصاحتِ شعری

صابرعلی سیوانی
دوسری اور آخری قسط

جلیل کی شاعری کی خصوصیات تو بہت سی ہیں ، لیکن ان کی سخنوری کو جو صفت امتیازی شان عطا کرتی ہے وہ سادگیٔ بیان ہے ۔ سہل الممتنع کے خانے میں رکھے جانے والے سیکڑوں اشعار جلیل کی شاعری کے امتیاز و انفراد ہیں ۔ سہل الممتنع حسن زبان اور سادگی بیان کی اس صنعت کا نام ہے جس میں شاعر الفاظ کو کسی تعقید لفظی کے بغیر نہایت  صفائی کے ساتھ موزوں کرتا ہے کہ شعر نثری ترکیب میں موزوں ہوجاتا ہے ۔اس فن سے جلیل مانکپوری   بخوبی واقف تھے ۔ جلیل کے ہاں موضوع سے زیادہ زبان کی اہمیت دیکھی جاتی ہے ۔ عام فہم ، سہل ، سلیس اور فصیح زبان کے استعمال پر جس قدر انھیں قدرت حاصل  تھی وہ ان کے معاصرین کے حصے میں نہیں آئی ۔ جلیل کے کلام میں سہل ممتنع کی صنعت میں اچھے اشعار کی تعداد زیادہ ملتی ہے ۔ اتنی بڑی تعداد میں عام طور پر اردو کے مشہور شعراء کے ہاں کم ہی اشعار مل پائیں گے ۔ جلیل کے سہل ممتنع میں موزوں کئے گئے چند اشعار ملاحظہ کیجئے :۔
رَہا اسیر تو شکوے رہے اسیری کے
رِہا ہوا تو مجھے غم ہوا رہائی کا
نہ اشارہ ، نہ کنایہ ، نہ تبسم ، نہ کلام
پاس بیٹھے ہیں ، مگر دور نظر آتے ہیں
آتے آتے آئے گا ان کا خیال
جاتے جاتے ، بے خیالی جائے گی
مِرے جذبِ دل کا اثر دیکھ لینا
تم آؤ گے تھامے جگر دیکھ لینا
ہم تم ملے نہ تھے تو جدائی کا تھا ملال
اب یہ ملال ہے کہ تمنا نکل گئی
دیکھا جو حسنِ یار طبیعت مچل گئی
آنکھوں کا تھا قصور چُھری دل پہ چل گئی
کچھ اس ادا سے یار نے پوچھا مِرا مزاج
کہنا پڑا کہ شکر ہے پروردگار کا
علی سردار جعفری نے جلیل مانکپوری  کے تیسرے دیوان ’’روحِ سخن‘‘ پر دیباچہ لکھا تھا اس میں جلیل کی شیریں بیانی پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے :۔
’’اُن(جلیل) کی غزلوں کو پڑھئے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اردو زبان کتنی میٹھی اور رسیلی ہے اور جذبات و احساسات کی کیسی کیسی نزاکتوں کو ادا کرنے کی قدرت رکھتی ہے‘‘ ۔ سعیدہ مظہر نے اپنے ایک مضمون میں جلیل کی زبان بندی اور جدت آفرینی کے بارے میں لکھا ہے :۔
’’حضرت جلیل کے ہاں جدت آفرینی ہے ۔ مضمون آفرینی ہے ۔ تشبیہ کے انمول نمونے ہیں   ۔بلند خیالی ہے ۔ نازک معاملہ بندی ہے ۔ فصاحت و بلاغت کے علاوہ زبان بندی اور محاورہ بندی ہے ۔ واقعہ نگاری ہے ۔ انھیںاصناف سخن کی ساری باریکیوں پر کمال کا عبور حاصل تھا‘‘ (مضمون حضرت جلیل مرحوم ، سعیدہ مظہر ، مشمولہ مجلہ عثمانیہ جلد 18 ، شمارہ 3 وچار 1946 صفحہ  64)
جلیل کے ہاں ایسے متعدد اشعار ملتے ہیں ، جو ضرب المثل کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں ۔ ضرب المثل ہونا یعنی کہاوت کی طرح مشہور ہونا ، شہرت پانا ۔ ضرب المثل اس جملے ، شعر یا شعر کے ایک مصرع کو کہا جاتا ہے جو مثال کے طور پر بیان کیا جاتا ہے اور جس میں معنویت، اثر پذیری اور قبول عام کی سند حاصل کرنے کی خوبی پائی جاتی ہے ۔ ایسے بہت سے شعراء ہیں ، جن کے اشعار یا ان کے اشعار کے بعض مصرعے زبان زد خاص و عام ہیں ، ان ہی میں جلیل مانکپوری  بھی ہیں ۔ ان کے یہاں بڑی تعداد میں ایسے اشعار ملتے ہیں ، جو ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں ۔ یہ شاعر کی مقبولیت اور عوام و خواص میں اس کی تخلیقات کی پسندیدگی کی دلیل ہوتی ہے کہ سیکڑوں برس گزرنے کے بعد بھی اس کے اشعار زبان زد خاص و عام ہوتے ہیں ۔ بعض شعراء کا ایک شعر یا ایک ہی مصرع اسے زندہ رکھنے کے لئے کافی ہوتا ہے ۔ جلیل مانکپوری  کی یہ خوش بختی ہے کہ ان کے اشعار ضرب المثل بن کر لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہیں ۔ جلیل کے ایسے چند اشعار یہاں نقل کئے جارہے ہیں جو ضرب المثل کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں :۔
جب میں چلوں تو سایہ بھی اپنا نہ ساتھ دے
جب تم چلو زمین چلے آسماں چلے
عہدِ شباب چشم زدن میں گزر گیا
جھونکا ہوا کا تھا ، ادھر آیا اُدھر گیا
بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
کرکے توبہ توڑ ڈالی جائے گی
نگاہ برق نہیں ، چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے ، مگر دیکھنے کی تاب نہیں
جلیل آساں نہیں آباد کرنا گھر محبت کا
یہ ان کا کام ہے ، جو زندگی برباد کرتے ہیں
پینے سے کرچکا تھا توبہ مگر جلیلؔؔ
بادل کا رنگ دیکھ کے نیت بدل گئی
آتشِ عشق ہے کیاچیز ، نہ پوچھو ہم سے
نام روشن ہے ، اسی آگ سے پروانے کا
محبت رنگ دے جاتی ہے جب دل ، دل سے ملتا ہے
مگر مشکل تو یہ ہے دل  ،بڑی مشکل سے ملتا ہے
کیا ملا تم کو مِرے عشق کا چرچا کرکے
تم بھی رسوا ہوئے آخر مجھے رسوا کرکے
ڈاکٹر حسن الدین احمد نے اپنی تحقیقی کتاب ’’زبان زد اشعار‘‘ مطبوعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی 1982 کے صفحہ نمبر 129 پر جلیل مانکپوری  سے منسوب ایک شعر نقل کیا ہے ، جو کافی مشہور شعر ہے اور ضر ب المثل کے طور پر عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ خلیق الزماں نصرت کی کتاب ’’برمحل اشعار اور ان کے مآخذ‘‘ میں جلیل کے 19 اشعار نقل کئے گئے ہیں ،جو ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ان اشعار میں وہ شعر شامل نہیں ہے ، جسے ڈاکٹر حسن الدین احمد نے جلیل سے منسوب کیا ہے اور حوالہ نہ ہونے کی صورت میں اشتباہ پیدا ہوتاہے کہ واقعی یہ شعر جلیل کا ہی ہے یا کسی اور کا ۔ شعر یہ ہے :
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسمِ دنیا بھی ہے ، موقع بھی ہے ، دستور بھی ہے
جلیل مانکپوری  کے ضرب المثل کے طور پر استعمال ہونے والے ان اشعار میں زبان کی سلاست ، برجستگی ، ندرت ، فصاحت ، نازک خیالی اور معنویت کی ایسی تہہ داری ہے ، جو دلوں میں اتر کر حافظے میں محفوظ ہوجانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ شگفتگی ، موسیقیت، غنائیت اور نغمگی کے حسن سے مرصّع ان اشعار میں معنویت کی ایک ایسی دنیا موجود ہے ، جسے پڑھ کر قاری شاعر کی تخلیقی پروازکی سحر انگیزی میں کھوجاتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ تو کائناتی حقیقت ہے ، جس سے انکار کی کوئی جرأت ہی نہیں کرسکتا ہے ۔ شاعر کی ہنرمندی اور استادی کا یہی تو کمال ہے کہ اس کے اشعار پڑھنے کے بعد قاری یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ اس سے بہتر شعر کوئی دوسرا شاعر کہہ ہی نہیں سکتا ہے ۔
حضرت فصاحت جنگ جلیل مانکپوری   کی شاعری فلسفہ ، حکمت ، تصوف ، جدت پسندی ، نازک خیالی ، مضمون آفرینی ، بلند خیالی ، معاملہ بندی ، واقعہ نگاری ، روزمرہ ، محاورات ، تشبیہ و استعارہ اور موسیقیت و غنائیت سے مرصع ایسی شاعری ہے ، جو اثر انگیزی کی پوری صلاحیت رکھتی ہے ۔ کلاسیکی شاعری کی جتنی بھی خوبیاں ہوتی ہیں وہ تمام جلیل کے کلام میں پائی جاتی ہیں ۔ ایک مسلم الثبوت  استاد سخن اور استاد شاہ کا درجہ انھیں یوں ہی نہیں مل گیا تھا ۔اگر فلسفہ و حکمت کی بات کی جائے تو جلیل کا وہ مشہور شعر پیش کیا جاسکتا ہے جو صنعت تلمیح کی خصوصیات رکھتا ہے جس میں ایک تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ فرہاد نے پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہر  جاری کردی تھی ، لیکن جب اسے اس بات کا علم ہوا کہ اس کی محبوبہ شیریں نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا ہے ، تو اس نے خودکشی کرلی ۔ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے جلیل نغمہ زن ہیں:۔
کہہ دو یہ کوہکن سے کہ مرنا نہیں کمال
مرمر کے ہجرِ یار میں جینا کمال ہے
اگر تصوف کی بات کی جائے تو یہ مضمون بھی ہمیں جلیل کے ہاں ملتا ہے ۔ خدا کی جستجو ، اس کی تلاش ، ہرشے میں اس کا جلوہ دیکھنے کی تمنا یہی تو تصوف کا بنیادی عنصر ہے ۔
دَیر و کعبہ کی زیارت تو فقط دھوکہ ہے
جستجو تیری لئے پھرتی ہے گھر گھر مجھ کو
مجھے تمام زمانے کی آرزو کیوں ہو
بہت ہے میرے لئے ایک آرزو تیری
اگر جدت پسندی کی صفت دیکھنے کی خواہش ہو تو ہم جلیل کے یہ اشعار آ پ کی خدمت میں پیش کرسکتے ہیں جو بالکل نادر فکر وخیال کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ ان اشعار میں بَلاکی تازگی ، شگفتگی ، سلاست اور روانی پائی جاتی ہے :۔
آپ نے تصویر بھیجی ، میںنے دیکھی غور سے
ہر ادا اچھی ، خموشی کی ادا اچھی نہیں
سنا تھا ہم نے کہ ٹھنڈک سے نیند آتی ہے
مگر یہ دیدۂ تر آشنائے خواب نہیں
مزہ لیں گے ہم دیکھ کر تیری آنکھیں
انھیں خوب تُو نامہ بر دیکھ لینا
بلند خیالی اور فکری پرواز کی اونچائی کا اندازہ لگانا ہو تو جلیل کے یہ دو شعر کافی ہیں ، جن میں شاعر نے اپنی ہنرمندی کی رفعت دکھانے کی کوشش کی ہے :۔
اے چرخ کتنے خاک سے پیدا ہوئے حَسیں
تو ایک آفتاب کو چمکاکے رہ گیا
موسمِ گُل میں عجب رنگ ہے میخانے کا
شیشہ جھکتا ہے کہ منہ چوم لے پیمانے کا
شراب ، ساقی ،میخانہ ، پیمانہ ، میکدہ ، رِندی ، اور مستی اور مستانہ جیسے لفظیات کا استعمال جلیل کی شاعری میں اکثر و بیشتر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ، لیکن ان الفاظ کے استعمال سے جو نازک خیالی اور ندرتِ اظہار ہمیں نظر آتا ہے ، وہ ان کے عہد کے کم شعراء میں پایا جاتا ہے ۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ جلیل ایک درویش صفت انسان تھے تاہم ان کی شاعری میں درویشی و قلندری کے عناصر کم کم نظر آتے ہیں بلکہ ساقی و میخانہ کا ذکر بار باردیکھنے کو ملتا ہے ۔ یہ اشعار جلیل کے انہی فکر و خیال کی ترجمانی کرتے ہیں جو ان کی شخصیت کے منافی ہیں ،لیکن ان اشعار میں بھی نازک خیالی ، بلاغتِ لفظی  اور فصاحتِ شعری کے عناصر نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ۔
نازک خیال ہوں یہ رہے ساقیا خیال
پینے کو پھول ، پھول سا پیمانہ چاہئے
ساقیا کیوں نہ ہوس ہو مجھے میخانے کا
دل ہے شیشے کا مرا ، آنکھ ہے پیمانے کا
جلیل کرچکے پینے سے کب کے ہم توبہ
اب آئیں جھوم کے کیوں بجلیاں نہیں معلوم
ادا مستی بھری ، نظروں میں مستی ، چال مستانہ
وہ مستِ ناز ہے ، سر تا قدم تصویرِ پیمانہ
کی محتسب نے آج یہ اصلاحِ میکدہ
شیشوں کو توڑ توڑ کے پیمانہ کردیا
جلیل ختم نہ ہو دورِ جامِ مینائی
کہ اس شراب سے بڑھ کر کوئی شراب نہیں
جلیل کی شاعری کی خوبیوں کا احاطہ کرنا آسان نہیں ہے ۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور متعدد مضامین  مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں ۔ ذکی کاکوروی اور ڈاکٹر خالق انصاری نے جلیل کی شخصیت اور شاعری پر تحقیقی مقالے لکھے ۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اپنی کتاب دبستان لکھنؤ میں ایک بھرپور مضمون جلیل کی حیات اور شاعری پر لکھا ۔ نگار ، لکھنؤ میں معاصر غزل گو شعرا کی صف میں جلیل کو شامل  کرتے ہوئے مختصر تنقیدی مضمون لکھا گیا ۔ مجلہ عثمانیہ کا جلیل نمبر شائع ہوا ۔ علی احمد جلیلی  نے تحقیقی کتاب ’’فصاحت جنگ جلیل مانکپوری ‘‘ لکھی ۔ ہندوستانی ادب ، حیدرآباد کا جلیل نمبر شائع ہوا ۔ غرض جلیل کی شاعری پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے ۔ ’’حیدرآباد کے شاعر‘‘ عنوان سے جو کتاب خواجہ حمید الدین شاہد نے مرتب کی تھی ، اس میں چار صفحات پر مشتمل جلیل کی شخصیت اور شاعری پر مضمون شامل ہے ، جس میں صرف 14 سطروں میں جلیل کی حیات اور شاعری پر تبصرہ ملتا ہے اور نمونے کے طور پر چھ غزلیں شامل ہیں ۔ لیکن اس مختصر ترین تبصرے میں بڑی جامعیت ہے ۔ اس کتاب میں جلیل کی شاعری کی انفرادیت اور خصوصیت کا ذکر کچھ اس  انداز میں موجود ہے :۔
’’جلیل کی شاعری کا مطمح نظر مسرت زائی ہے اور یہ رنگ قدیم رنگِ تغزّل کی یادگار ہے ۔ شاعری کا جو قدیم رنگ تھا ، اس کے اور روایتی آہنگ کے استاد تھے ۔ معنی آفرینی اور نازک خیالی ، شوخی اور سادگی ،نکھری ہوئی زبان اور رچی ہوئی موسیقیت حضرت جلیل کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے ۔گویا ایک نرم اور سبک رو چشمہ ہے جو ہلکے ترنم کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے غزل گو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت جلیل زبان کے مسلم الثبوت استاد اور صحیح معنوں میں امام الفن تھے ۔ ان کا دیوان زبان کے سکّوں کی ٹکسال ہے‘’ (مضمون ، جلیل حسن فصاحت جنگ ،مشمولہ حیدرآباد کے شاعر ، مرتب خواجہ حمید الدین شاہد ، آندھرا پردیش ساہتیہ اکادمی 1958 ، صفحہ 84)
فصاحت جنگ جلیل کی شاعری روایتی طرز اظہار پر مبنی ضرور ہے ، لیکن ان کے معاصرین میں سرزمین دکن میں کوئی ان کا ثانی نہیں ملتا ہے ۔ زبان پر جیسی قدرت انھیں حاصل تھی وہ کسی دوسرے شاعر کے حصے میں کم ہی آئی ۔ سلاست بیانی اور سہل الممتنع کا جو وصف جلیل کے نصیب میں آیا تھا وہ دوسرے شعراء میں مفقود نظر آتا ہے  ۔نازک خیالی ، ندرت اظہار اور معنی آفرینی کی خصوصیت جو ان کی شاعری میں پائی جاتی ہے وہ دوسروں کے ہاں نہیں پائی  جاتی ۔ مجموعی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جلیل مانکپوری  کی شاعری میں بھلے ہی موضوعات کا تنوع نہیں پایا جاتا ہو لیکن کلاسیکی شاعری کی دولت کو استحکام عطا کرنے کا جو کام جلیل نے کیا وہ کام ان کے معاصر شعراء نہ کرسکے ۔ کیوں نہ ہو کہ وہ امیر مینائی کے شاگرد تھے ۔ بقول جلیل مانکپوری؎
پایا بلند کیوں نہ ہمارا ہو اے جلیل
پایا ہے فیض امیرِ سخن دستگاہ سے
6 جنوری 1946 کو جلیل کاانتقال ہوا اور انھیں خطۂ صالحین درگاہ یوسفین کے عقب میں دفن کیا گیا ۔
mdsabirali70@gmail.com