جشنِ اقبال و دوسرا سالانہ عالمی مشاعرہ ’’سوغاتِ حجاز ‘‘ کی رسمِ اجرا

محمد رضی الدین
ادارہ’’ ہدف‘‘ جو فکرِ اقبال کی اساس پر شخصیت سازی کاادارہ ہے اس کے زیر ِ اہتمام بعنوان’’ شاعرِ انسانیت و دانائے رازجشن ِعلامہ اقبال‘‘ کا دوسرا عالمی مشاعرہ سعودی عرب کے منطقہ شرقیہ جو خلیج عرب کے کنارے شہر الخبر میں واقع ہے منعقد ہوا۔جہاں اِس مشاعرہ گاہ کے رنگ و نور کے عظیم الشان پنڈال میں ایک تاریخ بنائی۔ پردیس کے ترسے ہوئے ذہنوں کو ایک معیاری مشاعرے کی ضرورت تھی جس کو ھدف نے کمال ہنر مندی سے مہیا کیا۔ہندو پاک کے زندہ دلوں نے اْردو کی محبت میں جلسہ گاہ کو اس شوق سے پْر کیا کہ شہر کا شہر شاہی ایوان سا خیمہ نما ہال میں کھنچا چلا آیا پھر اولین لمحوں سے آخری ساعت تک مشاعرے کو جی کھول کر عوام نے سنا۔شرکائے مشاعرہ میں معززین ِشہر مہم ساز اداروں کے قائدین، نمایاں ترین شخصیات اور کشادہ دل افراد بھی تھے۔سامعین کا یہ خوش رنگ اجتماع در اصل شائقین شعر و ادب کے منفرد چاہنے والوں سے چمک اْٹھا۔

ذکرِ ربانی کی سعادت قاری مطیع الرحمن کو ملی۔ نائب صدر جناب جاوید مسعود نے پرْکشش زبان میں خطبہ استقبالیہ دیتے ہوئے کہا کہ’’ ہم سب واقف ہیں کہ مشاعرے ہماری فکر کو فروزاں رکھتے ہیں۔ شعر سے دْکھی دلوں کو آسودگی ملتی ہے۔ شعر ، شعور زندگی کے راہیں روشن کر تا ہے۔

شایقین شعر ؛ ہمارے گھرانے ایسے ہی اْردو زبان کے نغموں سے کبھی گونجتے تھے۔لیکن آج ہماری زندگی پر’’ اجنبی زبانوں‘‘ نے پڑاو ڈال رکھا ہے ایسے میں ہمارے عزائم کو علامہ اقبال کا پورا ’’فکر ی سرمایہ ‘‘آواز دیتا ہے کہ لوگو ! زندگی کی کڑی آزمائشوں میں میں تمہاری ڈھارس بندھاتا رہونگا۔ کبھی ہمت نہ ہارنا۔ پہلے بھی ہمارے جوانوں نے ہمت نہیں ہاری۔۔ اس لئے زبان زندہ رہی۔اقبال نے کہا !یاد رکھنا۔۔ غلامی کی کسی شکل کو قبول ناکرنا۔ تب جواں عزم اْردو والوں نے غلامی سے حریت کا سفر کیا۔ زبان زندہ تھی توآزادی ملی ۔ اقبال نے تاکید کہ دیکھو !۔زمانے کی سر پھری آندھیوں سے مت ڈرنا۔تب پھرایکباروقت کے جوانوں نے اپنے سینوں میں زبان کی محبت بسائے پیش قدمی کی۔تب زبان زندہ رہی بلکہ تہذیب زندہ رہی۔بزرگوں نے اپنی جوانیاں لْٹا کا اس زبان کا وقار بنائے رکھا۔لیکن آج پھر ایکبار اس زبان کو جوانوں کی ضرورت ہے۔جواں عزم دوستو!۔۔۔آج اْردو کے لالہ زار سے میر و غالب کی غزلیں لہک لہک کر پوچھتی ہیں کہ اْردو والو! خوشبوو ں کے اس قافلہ کو چھوڑ کر کہاں جاتے ہو۔ بابائے اردو عبدالحق جھر جھر آنسوں سے رو رو کر کہتے ہیں۔اے ’’دل والو !‘‘ تم نے اْردو کا لباس کیوں تار تار کردیا!۔۔کیوں اپنی مادری زبان کوفرنگیوں کا لباس پہنانا چاتے ہو۔ اب تو تم اْردو کو معذوروں کی طرح SIGN LANGUAGE میں رومن انگریزی میں لکھتے ہو۔یاد رکھو! اس نازنین کے قامت زیبا پر اس کا اپنا لباس ہی سجتا ہے۔اس کا چھل بل، نین نقش، رنگ روپ۔۔۔۔اور۔۔۔دل کی دنیا میں ہنگامہ اس کے ترشے ہوئے حروف سے آتا ہے۔ اْردو کے حرف؛ بساط ورق پر رقصاں نظر ا?تے ہیں۔اس زبان کا حسن اس کے حروف میں ہے۔دیکھو!۔۔زبان کی یہ جنگ مت ہارنا۔ تمہاری تہذیب کی یہ ایک حساس چوکھی ہے۔ ساتھ ساتھ گوپی چند نارنگ نے اْردو کوتمام زبانوں کا تاج محل کہا ہے۔تلِوک چندمحروم، دَیا شنکر نسیم، رگھوپت سْہائے فراق، جگن ناتھ آزاد ہم سے پوچھتے ہیں کہ ائے حرم والو!۔۔۔ہم نے تو اْردو کے بھجن گائے، قصیدوں کا قشقہ لگایا، دیر میں ربّانی نغمے گنگنائے۔غزل کی آرتی اْتاری، نظم کے ناز اٹھائے، شعر کے شنکھ بجائے، فصاحت کے پاوں دھوئے، زبان کے اصولوں پر ماتھا ٹیکا۔ اس زبان کے نور سے حرم و دیرکو جوڑ ے رکھا۔۔اور اب تم کہاں بھاگتے ہو پرکھوں کی جاگیرچھوڑکر!ہائے روٹی ، روٹی اور پھر کاہلی کے بہانوں نے تمہاری گْدی سے زبان چھین لی۔

شعرا ئے کرام میں جناب انور مسعود (پاکستان) ، جناب ساگر ترپاٹھی(ممبئی) ، جنابڈاکٹر حنیف شباب (بھٹکل)، ڈاکٹر نوشہ اسرار (امریکہ) ، جناب سہیل ثاقب (پاکستان)صادق کرمانی ،عبدالقدیر توپچی(گلبرگہ )اورجناب نعیم جاوید (حیدرآباد) شامل ہیں ۔ادارے کے نائب صدر جناب محمد اصغر الدین نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’چاند اپنا کلنک اپنے پاس رکھتا ہے اور چاندنی تقسیم کرتا ہے‘‘۔اس طرح ہم نے اپنی ہزار کمزوریوں کے باوجود۔۔۔آپ کے پیار اور ایثار سے ادارہ ھدف کو نور کا کارواں بنائے رکھا۔آپ کے سہاروں کی قندیلیں ہیں، جس کے اْجالے میں ہم چل پڑے ہیں۔ ہم ھدف کو انسانیت کی فلاح کے کام پر مامور کرچکے ہیں۔ھدف کی اولین مہم حسنِ تربیت ہے ۔اس مہم کوہدف کی گورننگ کونسل کی مدد سے جناب نعیم جاوید مستقل لکچرز اور ورکشاپس کے شاندار پروگرامس منعقدکرتے ہیں۔سیرتِ رسول کے لکچر کا سلسلہ جاری ہے۔جس میں خصوصی طور پر معلومات آفریں؛ پاور پائینٹ پریزنٹیشن بھی شامل ہوتا ہے۔۔ پھر شخصیت سازی یعنی پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کے محاذ پر ہندوستان کے متعدد شہروں اور خلیج میں آپ کے لکچرز ہورہے ہیں۔ماہ جولائی اور اگسٹ میں ، حیدرآبا ددکن ، کرناٹک ، مہاراشٹر میں ورکشاپس آپ کے منتظر ہیں۔ شعر سے شعور اور مشاعرے سے معاشرے تک کا سفر ہمارے نشانے پر ہے۔ ہمیں ایک صحت مند فکری تبدیلی کا یقین ہے۔۔ کیونکہ تبدیلی ضروری ہے۔ بقول …تنویر سپرا
حقیقتوں کے مقابل ٹہر نہیں سکتی
پرانی فکر بھی جھوٹے خداؤں جیسی ہے
ادارہ ھدف نے حکومتی سطح پر پبلک سیکٹر میں نوکری کے ایک اہم محاذ کو ابھی ابھی مکمل کیا۔۔جہاں چار سو(400) اْمیدوارں کی سرکاری نوکری سے جڑی تربیتی مہم میں ہم نے ایک موقر ادارے کو مالی مدد پہنچائی۔تاکہ ایک فرد کی نوکری سے ایک گھرانے کی مدد کا ھدف مکمل ہوجائے۔ یہ سنجیدہ محاذ تھا لیکن ہم نے اس کو اپنے جذبات سے قریب پایا تو اللہ نے ہماری مدد بھی کی ۔
لوگ پتھر ہوگئے سنجیدگی کے نام پر
شکر ہے ہم آج تک تھوڑے جذباتی تو ہیں
محترم خواتین و حضرات ۔علم و عہدہ کی سب سے مشکل منزل ہندوستا ن میں سیول سرویسز ہے۔ جہاںIAS, IPS, IFSجیسے امتحانا ت سے معاشرے کو سنوارا جاسکے۔ ھدف نے منتخب لیکن ضرورت مند طالب علم کو شہر کے سب سے اچھی ٹرینگ دلوائی جس کے نتیجہ میں اس کی صلاحیتوں میں زبردست اضافہ ہو۔جس پر کئی لاکھ خرچ ہوئے۔ میرے پرْعزم ساتھیوں ۔بہت سیدھی سی بات ہے کہ پودا لگانے کے لئے ’’جھاڑ سمینار‘‘ اور’’ درخت قرار داد‘‘ پاس کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک فیصلے کی ضرورت ہوتے ہیں ورنہ بقول حفیظ جالندھری۔

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے
ھدف کی تازہ ترین مہم میں ایک منتخب اسکول جہاں 500 م طلبا زیر تعلیم ہیں جو ہیں تو انگریزی میڈیم کے لیکن اْردو والے اور اْردو پڑھنے والے محتاج بچے ہیں جن کو یونیفارمس، ان کے اساتذہ کی تنخواہیں ، اور کتابوں کی فراہمی میں سالانہ دیڑھ لاکھ روپئے کی ضرورت ہے۔ اْمید ہے آپ سے کہ ہم اس سال ان بچوں کی مدد کرسکیں گے اور ساتھ ساتھ اس مدد کادائرہ ہم وسیع کرسکیں گے۔دوستو مسائل سنگین ہے۔وسائل کو سمیٹنے کی ضرورت ہے۔
وہ جس کا ایک ہی بیٹا ہو بھوکا آٹھ پہروں سے
بتاو اہل دانش دہ گندم لے کہ تختی لے
زندہ دل دوستو ۔ خیال بانٹنا ہی کمال بانٹنا ہے۔ تاکہ موجودہ دکھوں کا اندمال ہوسکے۔ اور روشن مستقبل کی طرف پیش قدمی ہوسکے۔دوستو! مسائل ہمہ گیر ہیں اور وسائل کو ریزہ ریزہ کرکے جوڑنا ہیں۔آپ کا ساتھ ہوگا تو ہم لوگ چند نتیجہ خیز راستوں پر چل پڑیں گے۔ جس میں ایک انسٹیٹیوٹ آف ایکسلینز کا قیام بھی ہے۔
اس پروگرام میں جناب انس الدین نے بہت خوبصورتی سے کلمات تشکرادا کئے جو ھدف کے ممبر ہیں۔پہلے مرحلے میں نعیم جاوید نے تقریر کی ’’ اقبال کی مشفقانہ پکار، پرعزم جوانوں کے نام‘‘ علامہ اقبال نے خدائے ذوالجلال کے حضور دعا مانگی۔
تیرے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا عشق میری نظر بخش دے
اْمنگیں مری، آرزوئیں مری
امیدیں مری ، جستجوئیں مری
مرے قافلے میں لٹادے اسے
لٹادے ٹھکانے لگادے اسے
اقبال کے حالہ نور میں جوانوں کا جھرمٹ نظر آتا ہے۔ معاملہ چاہیمہمات کا ہو یا اقدار کے وقار کا ہو۔یا عالمی امن کے امینوں کے تلاش کا ہو۔ اقبال کی نگا ہ ہمیشہ جوانوں پر رہی۔ کیونکہ اقبال کی شاعری ایک تہذیبی تحریک ہے۔تہذیب کی تزئین بھی جوانوں کے دم خم سے ممکن ہے۔جوانوں کی ترنگوں کو اْمنگوں سے آباد کرنا۔

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند
لیکن سر دست یہ بتادوں کہ اقبال کا تصور شباب جوانی کی الھڑ عمر کے کھلنڈرے پن سے نہیں بلکہ اس کے شباب کا تصور عزم و ہمت سے ہے ۔
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے تلخِ زندگانی انگبیں
جناب نعیم جاوید صاحب نے مشاعرہ کی یادر گار نظامت بھی کی۔جن کے حسن ِ نظامت کا کمال یہ ہے کہ وہ فارسی اشعار، دکنی مزاحیہ اشعاراور شعر نثر پاروں سے مشاعرے کو علمی اور عوامی دونوں رنگ دے دیتے ہیں۔مشاعر ے کا بھر پور آغاز ہوا۔بقول اقبال
پھر بادِبہار آئی اقبال غزل خواں ہو
غنچہ ہو اگر گل ہو، گل ہے تو گلستاں ہو
انور مسعودکے مشاعرہ گا ہ کو زعفراں زار بنایا۔ کبھی تو ہنستے ہنستے لوگ ان کی منتخب نظمیں جیسے ’’ماں‘‘ پر جھر جھر آنسوں سے رونے لگے۔ اْردو کے علاوہ انھوں نے پنجابی نظموں کا انتخاب بھی سنایا۔
ہے آپ کے ہونٹوں جو مسکان وغیرہ
قربان گئے اس پہ دل و جان وغیرہ
بلی تو یونہی مفت میں بدنام ہوئی ہے
تھیلے میں تو کچھ اور تھا سامان وغیرہ
کس ناز سے وہ نظم کو کہہ دیتے ہیں نثری
جب اس کے خطا ہوتے ہیں اوزان وغیرہ
میں اس خیال سے ڈرتا ہوں جس میں تو نہ رہے۔
ناظم ِ مشاعرہ جناب نعیم جاوید صاحب نے اپنی مشہور مزاحیہ نظم ’’اقامہ ‘‘ سنائی جو قہقہہ زار ماحول میں بے پناہ داد وصول کی ۔
چلے ہو عرب کو خرامہ خرامہ
یہاں کی ضرورت ہے تازہ اقامہ
ہوچاہے اسامہ کہ چاہے ابامہ
بچا اک وہی جو بچائے اقامہ
جو سیدھا چلو تو ہے عجوہ کھجوریں
ذرا چال بگڑی دمادم غرامہ
یہ ناڑا نہ ہو تو کہاں ہو پجامہ
اقامہ، اقامہ ، اقامہ ،اقامہ
امریکہ سے مشاعرے میں تشریف لائے جناب ڈاکڑ نوشہ اسرار نے اپنی نظموں سے افسوں پڑھ دیا۔ جس میں زلزلہ ، اور دیگر منتخب اشعار۔ علامہ اقبال پر حسبِ ذیل قطعہ ملاحظہ فرمائیے ؎
علم کا دریا کہوں یا آسماں افکار کا
یا کہوں تجھ کو دریچہ گنبدِ انوار کا
فلسفہ اورآگہی غازہ تیرے اشعارکا
آج بھی ہے رہنما ہر غازی کردار کا
شاعرِ مشرق کہوں اقبال کی توہین ہے
شاعرِ اعظم ہے وہ شاعر ہے وہ سنسار کا
مدیرِمجلہ سوغاتِ حجاز جناب رضا المرتضیٰ جو بہت خوبصورت انداز سے شعر پڑھتے ہیں۔ انھوں نے مشاعرے میں جان ڈال دی۔

لبِ جادو اثر باقی نہیں ہے
تبسم کا ہنر باقی نہیں ہے
میں نکلا تھا تو دنیا ہمسفر تھی
میں لوٹا ہوں تو گھر باقی نہیں ہے
رضا راہیں کہاں لے آئیں ہم کو
کہ کوئی ہم سفر باقی نہیں ہے
عبد القدیر توپچی شہر ِ گلبرگہ کے نوجوان شاعر ہیں جو ادبی حلقوں میں عروضی مہارت کی شناخت رکھتے ہیں۔ جن کے شعر پڑھنے کا انداز بھی دلوں کی دنیا لوٹنے والا ہے۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے مشاعرے پر چھاگئے۔ انھوں نے تحت سے داد و تحسین سمیٹی اور ترنم سے تازگی بخشی:
پھر طبیعت بجی بجی ہے کیا
زندگانی سے بے رخی ہے کیا
روز و شب مستقل عذاب قدیر
نام اس کا ہی زندگی ہے کیا
مشاعرہ رات کی آخری پہر تک جناب انور مسعود کے مزاحیہ شاعری سے قہقہہ افروز رہا۔۔اتنی تازگی رہی کہ لوگ مدتوں ھدف کے اس عالمی مشاعرے کو اس کے حسن ترتیب کو فراموش نہیں کرسکیں گے۔