جذبے و جنون کے تابع عوام کو نتائج کی فکر نہیں

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ عوام کا قصور کیا ہے، کیا تلنگانہ ریاست کی تحریک کیلئے نکالے گئے قافلہ میں شریک ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔ گھر گھر سروے کرانے کے سی آر کی حکومت کے فیصلہ پر زبردست تنقیدیں اور سرگوشیاں و چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ کیا یہ سروے ایک دن میں پورا کرلیا جائے گا، یہ کس طرح ممکن ہے، کیا تلنگانہ کی حکومت کو کسی شہری کی وطنیت معلوم کرنے کا دستوری حق ہے۔ دستور ہند کے مغائر اُٹھنے والے اس قدم کی مستقبل میں کیا افادیت ہوگی۔ حکومت کی تمام فلاحی اسکیمات اور منصوبوں سے استفادہ کرنے کی غرض سے تلنگانہ کے عوام حکومت کے کارندوں کے سامنے اپنی امیری و غریبی کا تختہ پیش کریں گے۔ کمال بے رحمی اور ڈھٹائی سے شہریوں کو ان کے حق سے محروم کرنے کا بہانہ تلاش کرنے والے چیف منسٹر کے سی آر آخر اپنی حکمرانی کی من مانی کارکردگی سے عوام کا کس طرح بھلا کرنا چاہتے ہیں؟ ان کا سروے منصوبہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انتخابی وعدوں کی عدم تکمیل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے دیگر فضول کاموں میں مصروف کردیا جائے۔ تلنگانہ عوام کے کچے ذہنوں میں لکھے وصیت نامہ کی بدولت وہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عوام کو مختلف عنوانات سے پریشان کرتے رہیں۔ سروے کو لیکر عوام میں لاحاصل بحث و مباحثے جاری ہیں۔ ہائی کورٹ نے بھی مشروط اجازت دے دی ہے۔ مرکز نے اس سروے کی نوعیت اور ضرورت پر سوال اُٹھایا ہے۔

دستوری طور پر کیا ہونا چاہیئے یا کس عمل سے گریز کرنا چاہیئے لیکن ٹی آر ایس حکومت اقتدار سنبھالتے ہی برق رفتاری سے ہونے والی پیشرفت میں عوام کی وطنیت اور ان کی گھریلو زندگیاں و تفصیلات معلوم کرنے ان کا بینک اکاؤنٹ ان کی موٹر گاڑی، گھر کا چھت، افراد خاندان کی تعداد، آمدنی، ذات پات، طبقہ، گلی کوچہ، چرند، پرند، جانور، مویشی الغرض ہر ایک چیز کو سرکاری ریکارڈ میں لاکر کیا ثابت کرنا چاہتی ہے یہ تو غیر واضح ہے۔ حکومت کے ان کارندوں نے پرفارمینس کسی تھیٹر پر ظاہر ہوتی تو عوام کو ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کرسکتی تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گھر گھر سروے کرکے عوام کو ہنسانے کے بجائے پریشان کن حالات سے دوچار کرنا ہے۔ حکومت کی اتھارٹی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ حیدرآباد میں ہر ریاست کا شہری مقیم ہے، اس شہر کو بسانے والوں نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ اس شہر کو اپنا مسکن بنانے والوں کی وطنیت کیا ہوگی۔ حیدرآباد کی آبادی اب ایک کروڑ تک جانے والی ہے تو اس کی آبادی میں خواندگی کا فیصد 84 ہے۔ تلنگانہ عوام کو ایس ٹی، ایس سی، بی سی یا اقلیتوں میں تقسیم کرنے والی حکومت سرکاری ملازمتوں، سرکاری کالجوں اور مفت اراضیات تقسیم میں انصاف کرے گی۔ ریاست تلنگانہ میں راشن کارڈس بے تحاشہ اور آبادی سے زیادہ ہونے کے شبہ کو دور کرنے کے لئے سروے کروایا جارہا ہے۔ سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ اگر حکومت نے اب تک راشن کارڈ کے نام پر کتنے غریبوں کو بہتر اناج فراہم کیا ہے۔

راشن کی دکانات پر عوام کو ملنے والا اناج ناقص ہوتا ہے یہ شکایت عام ہے۔ جو حکومتیں عوام کو ان کا بنیادی حق دینے سے قاصر ہوں وہ طرح طرح کی پالیسیاں بناکر شہریوں کو پریشان کن حالات سے دوچار کرتی ہیں۔ جس سسٹم میں رشوت عام ہوجائے وہاں بدعنوانیاں اور راشن خوری کرنے والے بھی عہدیدار رشوت خور سیاستداں یا ان کے کارندے ہی ہوتے ہیں۔ حکومت سرکاری عہدیداروں، سرکاری کرمچاریوں کی رشوت خوری کا پتہ چلانے میں ناکام ہوتی ہے تو اپنا غصہ گھرگھر سروے جیسے ہتھکنڈے اختیار کرکے نکالتی ہے۔ آدھار کارڈ یا اس سے پہلے قومی شناختی کارڈ کے نام پر زبردست شور و غل برپا ہوا۔ مرکز کی این ڈی اے حکومت نے ہندوستان میں غیر ملکیوں کا پتہ چلانے کے لئے ایک منفرد شناختی کارڈ کی اسکیم لائی، اب علاقہ کی سطح پر تلنگانہ کی حکومت نے نئی مہم شروع کی ہے تو پھر شہریوں کے دستوری حقوق کو دن بہ دن ہر کوئی اپنے پیروں تلے پامال کرتا رہے گا اور شہری چپ چاپ برداشت کرتے رہیں گے۔ تلنگانہ حکومت کے اس سروے پر یہ بھی انگلی اُٹھائی جارہی ہے کہ عوام کو ان کی نسل اور مذہب، خانوں میں بانٹ کر وقت آنے پر لسانی مسئلہ بھی پیدا کردیا جائے گا۔ سروے کے ایک خانہ میں مادری زبان کا خانہ بھی شامل ہے۔ اگر مسلمانوں نے اپنی مادری زبان اُردو لکھی تو کل اگر حکومت نے صرف تلگو زبان والوں کو سرکاری اسکیم سے استفادہ کی اجازت دی تو مسلمانوں کو اسکیم سے محروم کردینے کی سازش میں کامیابی ملے گی۔ چونکہ آگے چل کر کچھ بھی ہوسکتا ہے جو حکومت سروے کرواکر شہریوں کا دستوری حق پامال کرنے کی ہمت کرتی ہے اور تمام شہری ان کی نمائندہ شخصیتیں اور لیڈران خاموشی سے سرخم کرکے ’جی حضور ! آپ درست کررہے ہیں‘ کی رٹ لگاتے ہیں تو پھر ایک کے بعد دیگر اقدامات کے ذریعہ عوام کو پریشان کرنے کی حکومت کو عادت پڑ جائے گی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سروے سے حقیقی شہریوں کو فائدہ ہوگا اور جو غیر قانونی یا غیر ریاستی شہری ہوں گے ان کا پتہ چلا کر انہیں تلنگانہ کی اسکیمات سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اول تو یہ سوال اُٹھے گا کہ آخر حکومت ایسی کونسی ٹھوس اسکیمات تیار کررہی ہے جس سے تمام نہ سہی جن شہریوں کو استفادہ کا موقع ملے گا آیا اُن کی قسمت سنور جائے گی؟ ۔ اس وقت حکومت کے ذہن میں کیا ہے یہ کوئی بھی اندازہ نہیں کررہا ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا جارہا ہے کہ جو کررہی ہے غلط ہے۔ لسانی مسئلہ پیدا کرنے کی سازش کے حصہ کے طور پر مادری زبان کا مسئلہ سنگین ہوگا۔ اگر کسی نے مادری زبان کے خانہ میں لفظ انگلش لکھ دیا تو پھر اسے انگریز ہی متصور کیا جائے گا، تو پھر وہ تلنگانہ کا شہری نہیں کہلائے گا؟ بہرحال آنے والے دنوں میں شہریوں کو امتیازی سلوک کا سرکاری سطح پر شکار ہونا پڑے گا۔ یہ ایک ناسمجھی کا جال ہے جس میں آگے چل کر شہریوں کو پھنسایا جائے گا۔

مذکورہ تمام اندیشے ان دنوں مختلف گوشوں کی جانب سے اُٹھ رہے ہیں۔ اس لئے سروے کی اہمیت و افادیت اور سرکاری اسکیمات کے بارے میں حکومت کو واضح تفصیلات جاری کرتے ہوئے عوام میں بیداری مہم شروع کرنی ہوگی۔ ایک دن میں سروے مکمل کرنے کا اعلان حماقت اور تھکادینے والے عمل کے سوا کچھ نہیں ہے۔ گھر گھر سروے کرنے کا منصوبہ رکھنے والی حکومت سیاستدانوں کے کالے دھن، عہدیداروں کی بدعنوانیوں، سرکاری کام کی خرابیوں کا پتہ چلانے میں ناکام ہے توعوام کو کیا یہ حق نہیں ہے کہ وہ حکومت کی کارکردگی پر اس کا گریباں پکڑ سکیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ عوام تو بھولی جنتا ہے جو جتنے بھی جوتے ماریں خاموشی سے برداشت کرے گی، اُف کرنا ان کے مزاج میں نہیں۔ دنیا کے گھسے پٹے ترین فقروں میں سے ایک فقرہ یہ ہے کہ ’’ لوگ کیا کہیں گے‘‘ یا آپ میں سے ہر کوئی یہ سوچتا ہے مگر حکومتوں کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ بلکہ وہ کیا کہتی ہے اور کیا کرتی ہے اس پر عوام کو عمل کرنا ہوتا ہے۔ عوام میں’’ نا ‘‘ کی عادت تو ہے ہی نہیں۔ تاہم اس ضمن میں ایک بات قابل غور ہے کہ سیما آندھرا والوں کا پتہ چلانے کے لئے وطنیت کو اہمیت دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح ٹی آر ایس حکومت براہِ راست قسم کی اپنی امیج بلڈنگ کے لئے کوشاں ہے جس کا اُلٹا نقصان ہوگا۔ تلنگانہ ریاست کی نئی تاریخ میں ٹی آر ایس کو اچھے یا بُرے نام سے یاد کیا جائے گا، یہ آئندہ چند دنوں میں ظاہر ہوگا۔ بہر کیف تلنگانہ تحریک کے بارہ سنگھے اپنی حرکتوں پر ناز کرتے ہوئے شہریو ںکو یوں ہی ٹکر دے کر لہو لہان کرتے رہیں گے ۔عوام کی اکثریت عوام کی فلاحی اسکیمات اور معاشی منصوبوں کے لالچ میں اپنی روز مرہ کی معیشت کو خیالی گھوڑے کی پُشت پر رکھ کر اخبارات کا مطالعہ کریں گے جس میں حکومت کے گھر گھر سروے اور معاشی پالیسیوں سے متعلق سنسنی خیز ارشادات پڑھ پڑھ کر اپنے معاشی نفسیات کی آبیاری کرتے رہیں گے۔ تلنگانہ میں حکومت کی نام کی تختیاں بدل گئی ہیں مگر کردار نہیں بدلے ہیں۔کہا جارہا ہے کہ تلنگانہ عوام کو آندھرا ئی حکمراں بھی تنگ کرتے تھے اب ان کی حکومت بھی تنگ کررہی ہے۔ سروے کے نتائج منفی ہوں یا مثبت مگر 19اگسٹ کو عام تعطیل سے بچے، بوڑھے، جوان سب خوش ہوں گے۔ حکومت میں جس کا طوطی بول رہا ہے اس کے گن گائیں گے۔ لہذا عوام الناس کو مسائل، وسائل اور حکومت کے بارے میں غور و خوض کرکے سروے کے بارے میں سوچنا چاہیئے۔ کیونکہ سروے کے تعلق سے پکنے والی کھچڑی اور اس کے نتائج بہت خطرناک ہوسکتے ہیں۔ یہ سمجھا جائے کہ حکومت ہی عوام کے مستقبل کا نصب العین تعین کرتی ہے تو پھر اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں یا جذبے اور جنون کے تابع ہوکر نتائج کا انتظار کریں۔مولانا جلال الدین رومی کے حوالے سے ایک قول منقول ہے کہ ’’ایک ہزار قابل انسان مرجانے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا ایک ’’ احمق ‘‘ کے صاحبِ اختیار ہوجانے سے ہوتا ہے۔‘‘

اس واقعہ کو آپ نے سابق میں بھی پڑھا ہوگا کہ کسی ریاست کے مہاراجہ نے اپنی جنتا کے صبر کو آزمانے کے لئے نت نئے سخت ترین شرائط و قوانین نافذ کردیئے تھے، ایک شرط یہ تھی کہ تمام عوام روزانہ کام پر جانے سے پہلے قطار بناکر جوتے کھائیں۔ مہاراجہ کے حکم کے مطابق ہر شہری کام پر روانہ ہونے کے لئے گھر سے نکلتا تو راستے میں تعینات جوتے مارنے والے سے جوتا کھاکر آگے جاتا۔ یہ سلسلہ کچھ دنوں جاری رہا۔ مہاراجہ کو یقین ہوگیا کہ عوام میں اس کے خلاف سخت ناراضگی پیدا ہوئی ہوگی مگر تحقیقات پر معلوم ہوا کہ عوام تو مزے سے جوتے کھاکر کام پر جارہے ہیں لہذا مہاراجہ نے نیا حکم صادر کیا کہ ہر ایک کو دو جوتے لگائے جائیں، اس مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ مہاراجہ نے خیال کیا کہ عوام میں اس فیصلہ کے خلاف غم و غصہ پیدا ہوا ہوگا، وہ اب حکمراں کے خلاف احتجاج کریں گے اور اس کے خلاف مظاہرے کریں گے۔ ایک دن عوام کی کثیر تعداد کو محل کے باہر جمع دیکھ کر مہاراجہ نے کہا کہ عوام اس کے خلاف بھڑک اُٹھیں گے اور جوتے مارنے کے حکم کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کریں گے۔ جب مہاراجہ محل سے نکل کر عوام کے سامنے حاضر ہوا تووہ یہی سمجھ رہا تھا کہ عوام اسے دیکھ کر برہم ہوں گے اور شدید احتجاج کریں گے۔ لیکن اس کے خیال کے برعکس عوام نے ادباً گذارش کی کہ مہاراج آپ نے جوتے کھانے کا جو حکم صادر کیا ہے اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، البتہ آپ سے ایک معروضہ ہے کہ جوتے مارنے والا ایک ہی شخص ہے اور عوام کو قطار میں انتظار کرتے ہوئیجوتے کھاکر کام پرجانے میں دیر ہورہی ہے لہذا مہاراج کی مہربانی ہو تو جوتے مارنے والوں کی تعداد کو ایک سے دو کردیا جائے تاکہ ہم جلد سے جلد جوتے کھاکر کام پر جاسکیں۔
kbaig92@gmail.com