جدید فیشن

عبدالباری چکر ؔ نظام آبادی

شارٹ لینت پوشاک میں بچوں کو اکڑتے دیکھا
ان کی پتلون کو کمر سے سرکتے دیکھا
بے حیائی کا یہ فیشن عجب ہے چکرؔ
چیز چھپنے کی جو ہے اِس کو نکلتے دیکھا
…٭o٭…
پٹرول
مہنگا ہوا ہے جب سے اے میرے یار پٹرول
آنکھوں میں پھر رہا ہے لیل و نہار پٹرول
موٹرنشین سارے مانگیں ہیں یہ دُعائیں
تھوڑا ہمیں بھی دے دے پروردگار پٹرول
………………………
شبنمؔ کارواری
بددُعا
بے سبب دل جو دُکھایا تو بددُعا دوں گا
پھر طبیعت یہ بگڑ جائے گی اتنی تیری
دل کا ہوجائے گا پھر بائی پاس آپریشن
لیور خراب ہو اور فیل ہو کڈنی تیری
…٭o٭…
اچھی بات !!
بیوی نے بڑے غصے میں شوہر سے یہ کہا
تم کو جگہ ملے گی نہ دوزخ میں بھی ذرا
شوہر نے کہا یہ تو بڑی اچھی بات ہے
رہنا نہیں ہے ساتھ تمہارے مجھے سدا
………………………
وقت وقت کی بات !
٭ شادی سے پہلے لڑکی کو غصہ آیا تو بھی لڑکی چھوٹ جاتی اور اگر لڑکے کو بھی غصہ آیا تو لڑکی چھوٹ جاتی ہے لیکن شادی کے بعد بیوی کو بھی غصہ آیا تو شوہر چھوٹ جاتا ہے اور اگر شوہر کو غصہ آیا تو شوہر چھوٹ جاتا ہے ۔
٭ فرینڈشپ کالم کیلئے لڑکیوں کی ممبرشپ فری ہوتی ہے لیکن لڑکوں کی ممبرشپ فیس ڈبل ہوتی ہے اسی طرح ضرورت رشتہ کالم میں لڑکوں کے پیامات دفتر میں ممبر شپ فری رہتی ہے لیکن لڑکیوں کی ممبر شپ فیس ڈبل ہوتی ہے …!
٭ نائیٹ کلبس میں لڑکیوں کا داخلہ مفت رہتا ہے لیکن لڑکوں کو ڈبل قیمت ادا کرنی پڑتی ہے لیکن زندگی کے سفر میں مرد کو صرف کمانا رہتا ہے لیکن عورت کو ہزاروں کام کرنے پڑتے ہیں۔
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
………………………
ترقی !!
٭ آج سے کچھ برسوںبعد سماج کے بڑے بوڑھے اپنے چھوٹوں کو اس طرح سے دعائیں دیں گے …
’’ بیٹا تم پٹرول کی قیمتوںکی طرح دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرو‘‘۔
محمد جنید ہاشمی ، سعدیہ ہاشمی ۔ جہاں نما
……………………………
شائستگی
ایک نہایت مہذب و شائستہ بزنس مین نے اپنے ایک پرانے قرض دار کو خط ارسال کیا ، جس کا مضمون کچھ یوں تھا ۔
’’یہ خط میں اپنی سکریٹری سے لکھوا رہا ہوں ، وہ چونکہ ایک معزز اور پڑھے لکھے خاندان کی فرد ہے ، اس لئے اس کے سامنے وہ الفاظ ادا نہیں کرسکتا ، جو میں اس وقت آپ کے بارے میں سوچ رہا ہوں اور چونکہ میں ایک مہذب اور شائستہ انسان ہوں اس لئے فون پر بھی وہ الفاظ ادا نہیں کرسکتا لیکن آپ چونکہ ان دونوں میں سے کوئی خوبی نہیں رکھتے ۔ اس لئے آپ آسانی سے جان جائیں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
’’پسند ‘‘
٭ سیالکوٹ کے مشاعرے میں اسٹیج پر شاعروں کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی ۔ مشاعرہ ختم ہوا تو لوگ اسٹیج سے اترکر قریب ہی رکھے جوتوں میں سے اپنے اپنے جوتے نکال کر پہننے لگے ، جو آپس میں خاصے گڈمڈ ہوچکے تھے ۔ طفیلؔ ہوشیارپوری کو اپنے جوتے ڈھونڈنے میں خاصی دشواری درپیش تھی ۔ وہ بار بار بہت سے جوتوں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے کہ پاس کھڑے ایک نوجوان شاعر کی رگِ ظرافت پھڑکی ۔ اس نے پوچھا :
’’طفیلؔ صاحب ! آپ جوتا تلاش کررہے ہیں یا پسند کررہے ہیں ؟‘‘۔
حبیب حذیفہ العیدروس۔ ممتاز باغ
………………………