جبراً زائدنفقہ لکھوانا

سوال : عبدالحق نامی شخص کی شادی ہوئی ۔ عاقدہ کچھ دماغی مرض کا شکار رہی ۔ اس کا علاج بھی کیا جاتا رہا ہے ۔ ڈھائی سالہ ازدواجی زندگی میں اپنی زوجہ اور اپنے سسرال والوں کی طرف سے کافی تکلیف میں تھی۔ عبدالحق اردو سے نابلد ہے ۔ طلاق بائن کے الفاظ لکھا ہوا کاغذ پر زبردستی مارپیٹ کر کے دستخط لے لئے اور ایک کاغذ پر زبردستی مارپیٹ کر کے خلع کے تعلق سے لکھے گئے کاغذ پر دستخط لے لئے۔ نیز پانچ لاکھ روپیہ نفقہ کے عنوان سے کاغذ پر لکھ کر دستخط لے لئے ہیں۔ کیا شوہر پر مذکورہ رقم نفقہ کی ادائی لازم ہے ؟ دونوں کو ایک لڑکا ہے جو اسوقت اپنی ماں کے پاس ہے جس سے اس کے والد کو ملنے نہیں دیا جارہا ہے ۔ مذکورہ لڑکا کب تک ماں کے پاس رہے گا اور کب اس کے والد کو ملے گا۔
محمد علی، ملے پلی
جواب : جبراً طلاق نامہ لکھوانے یا خلع کی تحریر پر جبراً دستخط لینے سے طلاق یا خلع واقع نہیں ہوتا شامی ج :2 ص : 442 کتاب الطلاق میں ہے۔ فلواکرہ علی أن یکتب طلاق امرأتہ فکتب لا تطلق لأن الکتابۃ اقیمت مقام العبارۃ باعتبار الحاجۃ ولا حاجۃ ھنا کذا فی الخانیۃ۔
زوجہ اگر اپنے شوہر عبدالحق کے گھر آکر رہے اور اس کی اطاعت کرے تواس کا نفقہ شوہر پر واجب ہے ۔ اگر بغیر اجازت شوہر ‘ شوہر کے گھر سے چلی جائے بلانے پر نہ آئے تو وہ شرعاً ناشزہ (نافرمان) ہے‘ نشوز یعنی نافرمانی کے ساتھ نفقہ کا وجوب نہیں۔ فتاوی مہدیہ مصری ج : 1 ص : 406 میں ہے ۔ لا نفقۃ للزوجۃ مادامت ناشزۃ و خارجۃ عن طاعۃ الزوج بغیر حق و تؤ مربطاعتہ ولا تقر علی النشوز لأنہ معصیۃ۔
مذکورہ در سوال نفقہ کے عنوان سے جو کاغذ لکھواکر دستخط لے گئی ہے ‘ اس کی ادائی شوہر پر لازم نہیں۔ لڑکا سات سال کی عمر تک ماں کے زیر پرورش رہے گا ‘ا سکے بعد اس کے والد کا حق ہے کہ وہ اس کو لے لے اور اس کی تعلیم و تربیت کرے۔ عالمگیری ج : 1 ص : 451 میں ہے ۔ احق الناس بحضانۃ الصغیر حال قیام النکاح او بعدالفرقۃ الام ۔ شامی باب الحضانۃ میں ہے۔ (احق بہ) ای بالغلام حتی یستغنی عن النساء و قدر بسبع و بہ یفتیٰ ۔
مذکورہ لڑکا ماں کے زیر پرورش رہنے کے وقت باپ کو اور باپ کے زیر تربیت رہنے کے وقت ماں کو حق ہے کہ لڑکے سے ملاقات کرے اور اس کی نگرانی رکھے ۔ ملنے جلنے سے روکنے کا حق نہیں۔ تاتارخانیہ ج : 4 ص : 90 میں ہے۔ وفی الحاوی ! الولد متی کان عند احدالابوین لا یمنع الآخر عن النظر الیہ و عن تھاھدہ ۔

لڑکی کا نصف جائیداد کا مطالبہ کرنا
سوال : زید نے پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کی اور انتقال کر گئے ۔ پہلی بیوی سے ایک لڑکی ہے جو ماشاء اللہ سے الحاج اور نانی بن چکی ہیں۔ دوسری بیوی سے تین لڑکے اور ایک لڑکی ہیں جو زیر تعلیم ہیں۔ دوسری بیوی بقید حیات ہیں۔ اب جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ درپیش ہے۔ پہلی بیوی کی لڑکی جائیداد میں آدھا حصہ مانگ رہی ہیں۔ براہ کرم جائیداد کی تقسیم شرعی کیسی ہونی چاہئے ۔
احمد علی، بورہ بنڈہ
جواب : صورت مسئول عنہا میں تمام متروکۂ مرحوم کے بعد تقدیم ماتقدم علی الارث جملہ چونسٹھ (64) حصے کر کے مرحوم کی دوسری بیوی کو آٹھ (8) ‘ تینوں لڑکوں کو چودہ ‘ چودہ (14,14) ‘ دونوں لڑکیوں کو سات ‘ سات (7,7) حصے دیئے جائیں۔ بڑی بیوی کی بطنی لڑکی کا ادعاء کہ وہ نصف متروکہ کی حقدار ہیں‘ شرعاً درست نہیں۔

مصلی کے روبرو آئینہ ہونا
سوال : مسجد میں دو نئے شوکیس بنائے گئے اور جن پر سادہ آئینہ لگایا گیا ہے جو بالکل سامنے کی صف میں موجود ہے‘ ایسے کہ اگر نمازی کھڑے ہو تو اس کی شکل و صورت صاف نظر آتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر نمازی کا سارا حلیہ نظر آتا ہے۔
سید انور پاشاہ، گولکنڈہ
جواب : مصلی کے روبرو آئینہ ہو جس میں اس کی شکل و صورت نمایاں نظر آتی ہو تو اس سے نماز میںکوئی فساد لازم نہیں آتا۔ نماز ہوجائے گی۔ تاہم اس سے خشوع و خضوع میں خلل آتا ہے اس لئے احتیاط کرنا چاہئے۔

بہو کا ساس کے گھر میں رہنا
سوال : میرا سوال یہ ہے کہ میرے بیٹے کا کہنا ہے کہ آپ بہو کو کچھ بھی بولنے کا حق نہیں رکھتی ہیں۔ بہو کے اوپر آپ کا تل کے دانے کے برابر بھی حق نہیں ہے۔ بیٹے کا کہنا یہ ہے کہ بہو کو میکہ جاؤ جلد آؤ اور گھر میں کام کاج اور خدمت کرانے ‘ ایک گلاس پانی دیدو بولنے کا آپ کا کوئی حق نہیں ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ بہو پر میرا کوئی حق نہیں ہے تو پھر بہو میرے ساتھ میرے گھر میں رہ سکتی ہے کیا؟ کیا یا میں بیٹے کے گھر میں بیٹے بہو کے ساتھ رہ سکتی ہوں ۔ اس کا ہمیں قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح دین اور اسلامی نقطہ نظر سے شرعی احکام بتائیں۔
نام مخفی
جواب : ازروئے شرع بیوی پر شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری لازم ہے۔ شوہر کے ماں باپ کی خدمت شرعاً بیٹے پر لازم ہے۔ بہو پر نہیں۔ تاہم ہر مسلمان مرد و عورت کو اپنے بڑوں کی تعظیم و توقیر کرنا ‘ ان کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھنا ان کی بات سننا چاہئے ۔ بڑے اگر کوئی کام کرنے کیلئے کہیں تو چھوٹوں کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ بڑوں کی بات مانیں۔ اسی طرح بڑوں کو بھی چاہئے کہ وہ چھوٹوں کے ہر معاملہ میں مداخلت نہ کریں۔ چھوٹوں کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھائیں۔ پیار و محبت سے ان کی غلطی کی نشاندہی کریں۔ پس بہو اپنے ساس کے گھر میں ساس کی اجازت سے رہ سکتی ہے۔ اسی طرح ماں اپنے بیٹے کے گھر میں بہو کے ساتھ رہ سکتی ہیں۔ متذکرہ بالا امور کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔نیز ماں باپ سے کسی قسم کی کوتاہی ہو تو اولاد کو چاہئے کہ نہایت ادب و احترام اور عاجزی سے اس کا اظہار کریں۔ مذکور السؤال میںبیٹے کا ماں سے گفتگو کرنے کا طریقہ مذموم ہے۔

زندہ شوہر کو مرحوم بتاکر دوسرا نکاح کرنا
سوال : زینب کا نکاح عمر سے ہوا ‘ عمر زندہ ہے لیکن زینب کے والدین نے عمر کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیکر کہ عمر کی وفات ہوچکی ہے‘ زینب کا نکاح زید سے کردیا ۔ نکاح کے بعد زید نے ایک تحریری طلاق بھی دیدی ہے‘ کیا یہ نکاح اور طلاق دونوں واقع ہوئے یا نہیں۔ عمر کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
نعیم الدین، وٹے پلی
جواب : زینب منکوحۃ الغیر یعنی عمر کی زوجہ ہے۔ جب تک عمر زندہ ہے ‘ اس وقت تک اس کا نکاح کسی اور سے جائز نہیں جب تک کہ وہ طلاق یا خلع کے ذریعہ اپنے رشتہ نکاح کو منقطع نہ کردے ۔ مذکورہ نکاح‘ نکاح فاسد ہے ۔ نکاح فاسد کا حکم یہ ہے کہ وہ دونوں فوری علحدہ ہوجائیں۔ و أما النکاح الفاسد نحوما اذا تزوجھا فی نکاح الغیرأ وعدۃ الغیر … ولکل واحد من الزوجین فسخ النکاح بغیر محضرمن صاحبہ عند بعض المشائخ … تاتارخانیہ ج : 3 ص : 11 مذکورہ نکاح میںطلاق کا شرعاً اعتبار نہیں۔ زینب علی حالہ عمر سے کئے گئے سابقہ نکاح پر برقرار ہے۔ زینب سے اگر نکاح فاسد کے بعد زید نے مباشرت کی ہے تو عمر تین حیض تک زینب کے ساتھ مباشرت سے اجتناب کرے ۔

ارتداد کے سبب رشتۂ نکاح کا منقطع ہونا
سوال : ایک غیر مسلم شخص نے اسلام قبول کیا اور اس کا نام سہیل رکھا گیا ۔ اس نے کچھ عرصہ بعد مسلم لڑکی سے عقد کیا ۔ اس کے بعد سہیل اپنے قدیم مذہب میں لوٹ گیا اور پوجا پاٹ کرتا ہے ۔ ایسی صورت میں مسلمان لڑکی سے نکاح برقرار ہے یا ٹوٹ گیا ؟ کیا وہ مسلمان لڑکی دوسرے شخص سے عقد کرسکتی ہے ۔
نام مخفی
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں نو مسلم سہیل ‘ مسلمان لڑکی سے نکاح کے بعد اپنے سابقہ مشرکانہ مذہب کی طرف لوٹ گیا ہے تو وہ مرتد ہے‘ بوجہ ارتداد اس کا مسلمان لڑکی سے نکاح ٹوٹ گیا ‘ اب وہ اس کی بیوی نہیں رہی۔ فتاوی تاتار خانیہ جلد 3 ص : 177 میں ہے ۔ اذا ارتد أحد الزوجین وقعت الفرقۃ بینھما فی الحال ‘ ھذا جواب ظاہر الروایۃ فی الکافی قبل الدخول و بعدہ وفی السغناقی سواء کانت المرأۃ مسلمۃ أو کتابیۃ أو مجوسیۃ بان کان الزوج کتابیا والمرأۃ مجوسیۃ فأسلم الزوج ثم ارتدعن الاسلام بانت منہ ۔

طلاق کی نوعیت
سوال : آپ نے اخبار سیاست میں میرے سوال پر جواب دیا تھا اور کہا تھا کہ صحیح حکم بتانے کیلئے طلاق نامہ کی کاپی روانہ کی جائے اور میں طلاق نامہ کی کاپی روانہ کر رہا ہوں اور اس کے بعد کے کیا حالات ہوئے وہ لکھ رہا ہوں۔
محترم ! ہم لوگ طلاق دینے کے بعد جب برادر نسبتی احمد علی اور ان کے خاندان کے لوگوں کو کورٹ میں بیل ملنے کے بعد پولیس اسٹیشن گئے تھے وہاں لڑکی اور ان کے والد آگئے انسپکٹر نے کہا ‘ آپ لوگوں کی طلاق ہوگئی پھر بھی دو منٹ بات کرلو وہاں پر باہر ہم سب لوگ اور ہماری وکیل بھی تھی۔ لڑکی نے میرے برادر نسبتی سے پوچھا طلاق کیوں دیئے اس کا جواب احمد علی نے اس طریقہ سے دیا۔
(1) میں پہلا طلاق آپ کو اس وقت دیا جب میں آپ کے گھر آپ کو لینے کیلئے آیا۔ آپ لوگ جھگڑا کئے اور آپ نے آنے سے انکار کردیا۔ وہ پہلا طلاق تھا۔
(2) دوسرا طلاق آپ کو اس وقت دیا جب آپ جہیز ہراسانی کا کیس کئے۔ وہ دوسرا طلاق تھا۔
(3) تیسرا طلاق کمشنر پولیس آفس سے گھر چلنے کو کہا میری ماں بیمار تھی۔ آپ نے آنے سے انکار کیا اور میری والدہ کا اسی وقت انتقال ہوگیا ۔ وہ تیسرا طلاق تھا۔
یہ سب لڑکے کے الفاظ ہیں۔ اب لڑکے کا کہنا ہے کہ میں غصہ میں اور دباؤ میں تین طلاق دیا ہوں۔ اس بارے میں شرعی احکام کیا ہیں ؟ آپ اخبار کے ذریعہ معلوم کئے تھے‘ آپ کا احسان کبھی نہیں بھولوںگا ؟
نام ندارد
جواب : آپ کے ارسال کردہ طلاقنامہ میں ایک ’’ طلاق بائن‘‘ کا ذکر ہے جس کی رو سے بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوکر شوہر سے رشتۂ و نکاح منقطع ہوگیا۔ اب وہ دونوں راضی ہوں تو بقرار مہر جدید دوبارہ عقد کرسکتے ہیں۔ لیکن سوال میں صراحت کردہ تفصیلات کے مطابق بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔ اب وہ دونوں بغیر حلالہ آپس میں دوبارہ عقد بھی نہیں کرلے سکتے۔ جب شوہر تین طلاق دیتا ہے تو تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں ۔ خواہ وہ دباؤ میں دے یا غصہ میں شرعی حکم تبدیل نہیں ہوگا۔
نکاح میں دینداری کو ترجیح
سوال : میری آپ سے درخواست ہے کہ ان مسلمانوں کو تاکید کریں جو لوگ اپنے لڑکے کی شادی کیلئے ایسی لڑکی تلاش کرتے ہیں جو مالدار ہو اور حسن سے مالا مال ہو۔
نعمان علی، بذریعہ ای میل
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عورت سے نکاح چار وجوہات کی بناء کیا جاتا ہے۔ (1) اس کے حسب نسب کی بناء (2) اس کے حسن و جمال کی بناء (3) اس کے مال دولت کی بناء (4) اس کی دینداری کی بناء ۔ آپ صلی اللہ علیہ وصلم نے دیندار عورت کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا تم دیندار عورت سے نکاح کر کے دین اور دنیا میں کامیاب ہوجاؤ۔ حسن و جمال ‘ مال و دولت عارضی ہیں۔ دینداری دنیا و آخرت میں کام آنے والی ہے۔