جاپان میں پناہ گزینوں کیلئے جگہ نہیں، امداد دستیاب

ملک اِس وقت داخلی مسائل سے دوچار ہے۔ سب سے اہم مسئلہ آبادی کی شرح میں کمی،
معاشی پالیسی کو مستحکم کرنا اولین ترجیح، وزیراعظم شینزوابے کا اعلان
اقوام متحدہ 30 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم جاپان نے آج ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہاکہ جاپان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جسے خود اپنے بے شمار داخلی مسائل کا سامنا ہے جس میں سب سے زیادہ اہم پیدائش کی شرح میں کمی اور آبادی کا بڑا حصہ معمرین پر مشتمل ہے جو یقینی طور پر کسی بھی ملک کو فکرمند کرسکتا ہے اور ایسے میں اگر جاپان سے یہ کہا جائے کہ وہ شامی پناہ گزینوں کے لئے اپنے ملک کے دروازے کھول دے تو یقینا زیادتی ہوگی۔ وزیراعظم شینزوابے نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کل باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے پناہ گزینوں کے جو قافلے یکے بعد دیگرے یوروپ پہنچ رہے ہیں وہ ایک تشویشناک صورتحال ضرور ہے اور جاپان پناہ گزینوں کے دُکھ درد میں برابر کا شریک ہے اور اُن کی ہرممکنہ امداد کرنے تیار ہے۔

اُنھوں نے مزید کہاکہ جاپان نے اس سلسلہ میں 1.5 بلین ڈالرس ہنگامی امداد کے طور پر صرف پناہ گزینوں کے لئے مختص کئے ہیں تاکہ مصائب کا شکار پناہ گزینوں کو راحت مل سکے۔ البتہ کل اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جاپان کا موقف واضح کردیا کہ امداد فراہم کرنا الگ بات ہے اور اپنے ملک کے دروازے کھول دینا الگ بات۔ جاپان کے داخلی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے فی الحال تارکین وطن کو جاپان پناہ نہیں دے سکتا۔ اُنھوں نے کہاکہ پہلے گھر میں چراغ بعد میں خانقاہ میں چراغ۔ ہم اپنے داخلی مسائل میں ایسے اُلجھے ہوئے ہیں کہ اگر ہم نے یوروپی ممالک کی طرح تارکین وطن کو نقل مکانی کرکے جاپان میں پناہ کی دعوت دی تو یہ خود ہمارے لئے نئی مصیبت بن جائے گا۔ ملک کی معاشی پالیسی نظرثانی کی متقاضی ہے جسے ہمیں GDP کو مزید مستحکم کرتے ہوئے مابعد جنگ کی سطح پر لانا ہے۔ دوسری طرف فیمیلیز کی امداد کیلئے سماجی سکیوریٹی نظام کو بھی استحکام بخشنا ہے۔ اُنھوں نے ایک بار پھر اپنی بات دہراتے ہوئے کہاکہ تارکین وطن کی جانب پناہ کی پیشکش کے ساتھ ہاتھ بڑھانے سے قبل ہمیں ملک کی آبادی میں اضافہ کی جانب توجہ دینا ہے۔ اُنھوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ مدد کرنے کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ اگر شامی شہری اپنا وطن چھوڑ کر بڑے پیمانے پر ہجرت کررہے ہیں تو اس کی روک تھام ہونی چاہئے اور خود شام میں ایسے حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہے

جس کے بعد شامی شہری اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور نہ ہوں۔ شینزوابے نے قبل ازیں اقوام متحدہ کو بتایا تھا کہ جاپان جاریہ سال پناہ گزینوں کے لئے 810 ملین ڈالرس فراہم کرے گا جو گزشتہ سال جاپان کی جانب سے دیئے گئے عطیہ سے تین گنا زائد ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ جاپان مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں حالات کو مستحکم کرنے کی خاطر 750 ملین ڈالرس کا عطیہ دینے کی تیاری بھی کررہا ہے۔ جاپان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُس نے دنیا میں پیش آئے سانحے، حادثات اور آفات سماوی سے متاثرہ افراد کی امداد میں کبھی کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی کیوں کہ ایک عالمی ملک ہونے کے ناطے بین الاقوامی برادری سے رشتہ منقطع نہیں کیا جاسکتا۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ جاپان کو دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے سب سے زیادہ عطیہ دینے والے ملک کا اعزاز حاصل ہے۔ گزشتہ سال جاپان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے لئے 181.6 ملین ڈالرس کا عطیہ دیا تھا۔