جاریہ انتخابات ’’اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو‘‘

غضنفر علی خان
رائے دہی میں اب صرف چند دن رہ گئے ہیں۔ ویسے ہندوستان کے رائے دہندے انتہائی باشعور اور دانشمند ہوتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ جو انتخابات ہورہے ہیں اُن میں دو متضاد نظریات میں سخت ٹکراؤ ہے، اس لئے ہر ذی شعور پڑھے لکھے ہندوستانی شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک کی مساوات، اس کے سیکولرازم، اس کی جمہوریت اور دستور کی حفاظت کرے کیوں کہ ان تینوں چیزوں کو ایسے خطرات لاحق ہوگئے ہیں جو ماضی میں کبھی نہیں تھے۔ ہر میڈیا کا آدمی رائے دہندوں کو یہ بتانے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ اپنا ووٹ کسی خوف اور طرفداری کے بجائے سیکولر پارٹیوں کو دے۔ بی جے پی حکومت نے اپنے پروگرام کے پروپگنڈے میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے، گمراہی اور جھوٹ کا جادو جگانے کی ہرممکن کوشش کی۔ خاص طور پر وزیراعظم مودی نے تو تمام حدیں پار کرلیں۔ اب اُن کے بارے میں شاید یہ رائے درست ثابت ہوتی ہے کہ وہ کچھ دن بعد خود کو ہندوستان کا نیا اوتار بنالیں گے کیوں کہ ملک و قوم کے ہر کارنامہ کو وہ خود کا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ ہندوستانی سائنسدانوں نے اپنی محنت اور لگن سے میزائیل شکن ہتھیار ایجاد کیا لیکن انتخابی فائدہ اُٹھانے کے لئے مودی اپنے چھپن اِنچ کے سینے کو ٹھوک ٹھوک کر انتخابی جلسوں میں کہتے پھر رہے ہیں کہ اُن کے دور میں ملک کے سیاستدانوں نے اپنی محنت سے یہ سب کچھ کیا۔ ہماری مسلح فوجیں پاکستان کے حملے کا منہ توڑ جواب دیتی ہیں اور سرجیکل آپریشن انجام دیتی ہے لیکن اس کو بھی ’’میری سرکار نے یہ کارنامہ انجام دیا‘‘ کہہ کر وہ معصوم عوام کو غلط باور کرواتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس مسلسل اور نامتناہی مکر و فریب کا عام لوگ شکار بھی ہوتے ہیں۔ اُن کی چرب زبانی اور جھوٹے دعوؤں ایک جال بچھا رکھا ہے۔ اب اگر کچھ دنوں بعد مودی یہ کہیں کہ ملک کی تمام دریائیں اُن کے حکم سے چلتی ہیں۔ ہندوستان کے فلک بوس پہاڑ اُن ہی کے دم سے قائم ہیں۔ ملک میں مانسون اُن کے اشاروں پر آتے ہیں تو اِس میں کوئی تعجب نہیں ہوگا کیوں کہ خود کی تعریف کرنا اور جھوٹ کو پھیلانا اِن کا نصب العین بن گیا ہے۔ ان باتوں کے علاوہ ایک اندرونی زہر جو اُن کے اندر پایا جاتا ہے وہ اُن کی تنگ نظری کا ثبوت ہے۔

آندھراپردیش کے چیف منسٹر این چندرابابو نائیڈو نے گزشتہ دنوں اپنی ریاست میں انتخابی ریالی کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک پرکوئی تنگ نظر وزیراعظم نہیں بن سکتا جو مودی ہیں۔ اُنھوں نے ملک کی آبادی کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی ہروقت کوشش کی اور دوسروں پر الزام عائد کیاکہ اپوزیشن اور خاص طور پر راہول گاندھی ہندوستان کے ملے جلے سماج کو مذہبی منافرت پیدا کرکے توڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اُنھیں (مودی) اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ راہول گاندھی اپنے آبائی حلقہ پارلیمان امیٹھی کے علاوہ کیوں کیرالا کے ایک اور حلقہ سے انتخاب لڑرہے ہیں۔ اس دعوے کے ساتھ اُن کا یہ کہنا بھی ہے کہ کیرالا کے اس حلقہ میں مسلم ووٹرس زیادہ تعداد میں ہیں اور راہول گاندھی ہندو ووٹرس کی کمی سے گھبرا کر امیٹھی کے علاوہ اس حلقہ سے بھی مقابلہ کررہے ہیں۔ کتنی چھوٹی بات ہے حالانکہ یہ ریمارک کرنے سے پہلے مودی کو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ خود اُن کی بی جے پی کے بڑے لیڈرس اڈوانی اور واجپائی نے بھی بہ یک وقت دو حلقوں سے انتخابات لڑے تھے، ان دونوں بزرگ لیڈروں کو اکثریتی ووٹوں کی تائید حاصل تھی۔ غرض یہ کہ وہ اپنی اس پُرفریب باتوں سے صرف یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ کانگریس پارٹی اور راہول گاندھی ہندو ووٹوں سے ڈرتے ہیں حالانکہ یہ بالکل خلافِ حرکت بات ہے۔ ہندوستان کی کثیر آبادی ہندوؤں پر مشتمل ہے اور اقلیتیں بہ مشکل تمام 10 تا 18 فیصد ہیں تو اس لحاظ سے کانگریس اور راہول گاندھی کو ملک کے کسی بھی حلقہ سے چناؤ نہیں لڑنے چاہئے۔ مودی نے فرقہ وارانہ منافرت اور ہندوستان کے مشترکہ سماج کو دو حصوں میں بانٹنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ آج بی جے پی کی قیادت پارٹی کے صدر امیت شاہ اور مودی کے ہاتھوں میں ہے۔ ناگپور میں آر ایس ایس کے ریموٹ کنٹرول کے حکم پر چلتے ہیں۔ اِن باتوں کے قطع نظر جس ڈھٹائی سے دیدہ دانستہ طور پرعدلیہ، صحافت اور دستور کے کئی آزاد اداروں کو اُن کی حکومت نے محض تماشہ بین بناکر رکھ دیا ہے۔ اُس سے یہ خطرہ ہندوستان کے سر پر منڈلا رہا ہے کہ ملک کا سیکولرازم اس کا دستور اور دستوری ادارے بالکل مفلوج ہوجائیں گے۔ یہی کوشش امیت شاہ اور مودی کررہے ہیں۔ ہمارے مخلوط تہذیب و تمدن کو مٹانے کی بی جے پی اور اُس کے لیڈرس مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ ملک کو ہندوتوا کے دھاگے میں پرونے کی جو خواہش ان لیڈروں اور سنگھ پریوار میں ہے اُس کو شکست دینا اور جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا ایک موقع قدرت نے رائے دہندوں کو فراہم کیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ رائے دہندے ملک کے مسلمان اور ہندو تمام طبقات ہر قسم کے جذبات اور جذباتی نعروں سے متاثر ہوئے بغیر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں۔ ان ہی معنوں اور اسی پس منظر میں انتخابات سیکولرازم، جمہوریت اور دستور کے تحفظ کے لئے ملک کے رائے دہندے اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ اگر ہندوستان کے رائے دہندے وطن عزیز کو اِن خوفناک چیزوں سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنا چاہئے اور سیکولر طاقتوں کو اپنا ووٹ دینا چاہئے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں وہاں کی عوام سب سے بڑی عدالت ہوتی ہے۔ اس عدالت کے فیصلوں کو ہر پارٹی تسلیم کرتی ہے۔ ہندوستان کسی ایک پارٹی کی جائیداد نہیں ہے ہر اُس پارٹی یا پارٹیوں کا اتحاد اس کی ان ہی خصوصیات کو ظالمانہ طاقتوں سے بچا سکتا ہے۔ آزادی کے بعد 70 سال سے ملک کی موجودہ نسل نے دستور، جمہوریت اور سیکولرازم کی حفاظت کی ہے۔ اب آئندہ اس کے تحفظ کے لئے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو مستحکم ہونا پڑے گا۔ فرقہ پرست طاقتیں سینہ تان کر ہماری ان شریفانہ روایات کو ختم کرنا چاہتی ہیں لیکن موجودہ نسل کو فرقہ پرست طاقتوں نے ایک کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ موجودہ نسل نے تو خونِ جگر سے سیکولرازم، جمہوریت اور دستور کی حفاظت کی ہے۔ اب آنے والی نسلوں کو اسی نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے تاکہ فرقہ پرست طاقتیں خدا نہ کرے اس ملک پر حاوی ہوجائے۔ مجموعی طور پر یہ الیکشن ہم سب کے لئے ایک امتحان ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں کی چرب زبانی سے ہم کو نہ متاثر ہونا چاہئے اور نہ ان طاقتوں کے آگے ہتھیار ڈالنا چاہئے بلکہ ان کے خلاف ایک ایسا محاذ بنانا چاہئے جو مستقل بنیادوں پر فرقہ پرستی کا خاتمہ کرسکے۔ اگر اِن انتخابات میں سیکولر طاقتیں متحد ہوکر فرقہ پرستی کا جواب دے سکتی ہیں اور اُسے ملک میں ہمیشہ کے لئے ختم کرسکتی ہیں تو یہ انتخابی نتائج سے ہندوستان کے خوشحال اور سیکولر مستقبل کی ضمانت دی جاسکے گی ورنہ فرقہ پرستی کا وہ زہر جو موجودہ فرقہ پرست عناصر گھول رہے ہیں وہ اس عظیم الشان ملک کی تاریخ، تمدن اور تمام خوبیوں کے لئے ایک مستقل خطرہ بن جائیں گی۔