ثبوت وصیت کی شرط

سوال : زید کا انتقال ہوا، ورثہ میں تین لڑکے اور دو لڑکیاں موجود ہیں۔ مرحوم کی ایک لڑکی باپ کی زندگی میں فوت ہوگئی، ان کے لڑکے ہیں۔ مرحوم نے تحریراً کوئی وصیت نہیں چھوڑی، لیکن نواسوں کا ادعاء ہے کہ مرحوم نے دو گواہوں کے روبرو نواسوں کے حق میں وصیت کی ہے۔
عبدالعزیزقادری، جہاں نما
جواب : شرعاً ثبوتِ وصیت کے لئے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ضروری ہے، یہ گواہ ’’ اشھد باللہ ‘‘ کہہ کر گواہی دیں تو غیر وارث کے حق میں تہائی مالِ متروکہ تک وصیت نافذ ہوگی ۔ درمختار علی رد المحتار جلد 4 کتاب الشھادات ص : 413, 412 میں ہے : (ونصابھا للزنا أربعۃ رجال)… (و) (لغیر ھا من الحقوق سواء کان) الحق (مالا أو غیرہ کنکاح و طلاق و وکالۃ و وصیۃ و استھلال صبی) ولو )للارث رجلان أو رجل و امرأتان) ۔
پس صورت مسئول عنہا میں مرحومہ لڑکی کے لڑکے دو گواہوں کے ذریعہ زید کی وصیت کو ثابت کریں تو ایک تہائی مال تک وصیت نافذ ہوگی اور اگر وہ گواہ نہ پیش کرسکیں تو ان لڑکوں کو متروکہ مرحوم سے وراثتاً کچھ نہیں ملے گا۔ تمام متروکہ زید مرحوم کے بشرط عدم ثبوت وصیت آٹھ حصے کر کے تینوں لڑکوں کو دو دو اور دونوں لڑکیوں کو ایک ایک حصہ دیا جائے اور اگر وصیت ثابت ہو تو متروکہ زید مرحوم سے بعد وضع مصارف تجہیز و تکفین و ادائی قرض جو باقی رہے، اس وصیت کی تکمیل اندرونِ تہائی مال کی جائے اور نواسوں کو وصیت کے مطابق دینے کے بعد جو باقی رہے اس کے آٹھ حصے کرکے تینوں لڑکوں کو دو دو اور دونوں لڑکیوں کو ایک ایک حصہ دیا جائے۔

بہنوائی سے پردہ
سوال : زید یہ چاہتا ہے کہ ان کی بیوی کو اس کے بہنوائی سے اس کے بعض ناروا اخلاق و عادات کی بناء پر دہ کروانا چاہتا ہے اور ان کے گھر بھی لے جانا نہیں چاہتا۔ خاندان والے والد و والدہ و دیگر افراد دباؤ ڈال رہے ہیں کہ بہن کے گھر اس کو روانہ کرتے رہیں۔ ان حالات میں کیا ان کو ان کی بہن کے گھر نہ جانے دیں تو کیا یہ درست عمل ہے یا نہیں ؟
مصلح الدین فلاحی، کریم نگر
جواب : بہنوائی شریعت میں غیر محرم ہے اس سے پردہ شرعاً لازم ہے ۔ بہن کے گھر سال میں ایک مرتبہ جانے کی اجازت ہے۔ بشرطیکہ وہاں اس کے بہنوائی کی وجہ کوئی خطرہ نہ ہو ۔ بہن اگر اپنی بہن کے گھر میں آکر ملاقات کرے تو اس کی شرعاً اجازت ہے۔

کھانے کی خاطر حنفی سے شافعی بننا
سوال : ایک شخص جو کہ نسل در نسل سے حنفی ہے۔ اس نے بعض اشیاء کے استعمال کرنے کے لئے حنفی سے شافعی مذہب قبول کرلیا ہے اور اس کا کہناہے کہ وہ تقلید کر رہا ہے ۔ اس لئے گنہگار نہیں ہے تو کیا شریعت مطھرہ میں اس بات کی اجازت ہے کہ وہ کسی جانور کو کھانے کے لئے اپنے مذہب کو تبدیل کرسکتا ہے ۔ کئی ایسے جانور ہیں جو ازروئے فقہ حنفی اس کا کھانا جائز نہیں اور دوسرے مذاہب میں جواز نکل جاتا ہے۔ کیا مذہب تبدیل کرنے کی گنجائش ہے ؟ براہ کرم اس بارے میں شرعی احکام بیان کیجئے ؟
حافظ غفران سلیم، ملک پیٹ
جواب : اگر کسی حنفی یا شافعی دنیوی غرض اور منفعت کے لئے یا بغیر سوچے سمجھے بلا دلیل اپنا مذہب تبدیل کرلیتا ہے تو اس شخص نے چونکہ اپنے پہلے مذہب کی توہین کی ہے ، اس کو خفیف جانا ہے اس لئے وہ آخرت میں گنہگار وماخوذ ہوگا اور دنیا میں تعزیری سزا کا بھی مستحق ہوگا اور اگر اس کا مبلغ علم پایہ اجتھاد کو پہنچا ہوا ہے، وہ اپنے اجتھاد میں مذہب کے بدلنے سے شریعت کی بھلائی جانتا ہے ، کوئی دنیوی غرض نہیں ہے تو ایسے شخص کے لئے اپنا مذہب تبدیل کرنا جائز ہے ورنہ نہیں۔ در مختار جلد 3 ص : 196 میں ہے : ارتحل الی مذہب الشافعی یعزر ، سراجیہ ۔ اور اسی جگہ رد المحتار میں ہے : ای اذا کان ارتحالہ لالغرض محمود شرعا اور اس صفحہ میں ہے تاتارخانیہ سے منقول ہے: ولو ان رجلا بریٔ من مذھبہ باجتھاد وضح لہ کان محمود امأ جورا اما انتقال غیرہ من غیر دلیل بل لما یرغب من غرض الدنیا و شھوتھا فھو المذموم الآثم المستوجب للتادیب والتعزیر لارتکابہ المنکر فی الدین و استخفافہ بدینہ و مذھبہ۔
پس صورت مسئول عنہا میں چاروں مذاہب برحق ہیں اور امت اسلامیہ نے صدیوں سے نہ صرف ان کی حقانیت کو تسلیم کیا ہے بلکہ اس پر عمل پیرا ہے ۔ قرون اولی کے اکابر فقہاء و اجلہ محمدثین نے تقلید میں نجات کو پایا ہے ۔ اب کسی شخص کا اپنی دنیوی غرض و منفعت کیلئے اپنے مذہب کو ترک کرنا اور کسی جانور کو کھانے کیلئے دوسرے مذہب کو اختیار کرنا شرعاً مذموم ہے اور اسلامی ملک ہو تو زجر و توبیخ و تعزیری سزا کا مستحق ہے ۔

معیشت کی تنگی کے سبب سود پر قرض لینا
سوال : میرے داماد کا کاروبار بہت اچھا تھا لیکن کسی بدخواہ کی شاید نظر لگ گئی کہ دیکھتے دیکھتے ان کا پورا کاروبار ٹھپ ہوگیا ۔ نقصان پہ نقصان ہوگیا ۔ قرضے ہوگئے ۔ بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری ۔ اپنی محنت جاری رکھی اور دوسرا کاروبار انہوں نے اپنے پرانے کاروبار کے ساتھ شروع کیا ۔ لیکن پرانے قرضے باقی ہیں ۔ لوگ تقاضہ کر رہے ہیں۔ اب وہ معیشت سے تنگ آکر سود پر قرضہ لینا چاہتے ہیں اس لئے آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں تاکہ آپ اپنے سوال جواب کے کالم میں ہماری رہنمائی کریں کہ اس طرح سود پرقرضہ لینا درست ہے یا نہیں کیونکہ معاشی مجبوری ہے ۔
عرشیہ بانو، ملے پلی
جواب : سود دینے والا شرعاً گنہگار ہے ، اور حدیث شریف میں سود کھانیوالے ، کھلانے والے ، اس معاملے کو لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والے اشخاص پر لعنت وارد ہوئی ہے ۔ عینی شرح بخاری جلد 5 ص : 436 کتاب البیوع فصل موکل الربا میں ہے : ان موکل الربا واکلہ آثمان۔ فتاوی کمالیہ ص : 282 کتاب الحظر والا باحۃ میں ہے ۔ وقدورد فی ذم آکل الربا من الاحادیث مالا یحصی فمنھا : لعن اللہ آ کل الربا و مؤکلہ و کاتبہ و شاھدہ کلھم فی اللعنۃ سواء ۔
معاشی تنگدستی و مجبوری سود کے لین دین اور دیگر شرعی حرام کردہ اشیاء کو قطعا جائز نہیں کرتی البتہ جبکہ کسی انسان پر فاقہ کشی کی وجہ ’’ مخمصہ‘‘ یعنی جان جانے کی حالت آجائے تب اس کے لئے جان بچانے کے موافق حرام چیز کا کھانا جائز ہے ۔ اس کے علاوہ نہیں۔ در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد 5 ص 222 کتاب الحظر والا باجۃ میں ہے : (الاکل) للغذاء والشرب للعطش ولو (من حرام او میتۃ اومال غیرہ ) وان ضمنہ (فرض) یثاب علیہ بحکم الحدیث ولکن (مقدار ما یدفع ) الانسان (الھلاک عن نفسہ و ماجور علیہ )
پس دریافت شدہ مسئلہ میں آپ کے داماد کا معاشی مجبوری کی بناء سودی قرض لینا شرعاً جائز نہیں۔

مالدار شخص کا غریب لڑکیوں سے شادی کر کے طلاق دینا
سوال : چند روز سے اردو اخبارات میں ایک خبر شائع ہورہی ہے۔ ایک شخص جو غریب اور نادار لڑکیوں کو دولت کا لالچ دیکر یکے بعد دیگرے شادیاں کیا کرتا اور اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل ہونے پر وقفہ وقفہ سے طلاق دیتا رہا ۔ ایسے افراد اندرون و بیرون شہر میں موجود ہیں اور ہمارے مقامی قاضی حضرات ان کی مجرمانہ مدد بھی کرتے ہیں۔ ایک لڑکی کی بار بار پیسہ کی خاطر شادی کرانا اور طلاق دلانا کیسا ہے؟ ایسے شخص کیلئے کیا وعید ہے اور وہ کس سزا کا مستحق ہوسکتا ہے؟
محمد کلیم الدین، سکندرآباد
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مباح چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق ہے۔ (ترمذی) اور ایک حدیث شریف میں صراحت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : طلاق کی وجہ عرش الٰہی دہل جاتا ہے۔ اور ایک روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لعن اللہ الذواقین والذو اقات، یعنی اللہ تعالیٰ ان مردوں پر لعنت کرتا ہے جو (عورتوں کی) چاشنی چکھتے پھریں اور ان عورتوں پر بھی لعنت فرماتا ہے جو (مردوں) کی چاشنی لیا کریں۔ اس لئے صرف جنسی تسکین کیلئے عقد کر کے بہانے بناکر چھوڑ دیناموجب لعنت ہے۔پس جو شخص محض جنسی تکمیل کیلئے دولت کا لالچ دیکر غریب شریف لڑکیوں کو دھوکہ دیکر یکے بعد دیگرے عقد نکاح کرے، بعد ازاں کسی بہانہ سے طلاق دیدے تو نکاح منعقد ہوا اور طلاق پر مہر اور نفقہ کا ہی وجوب ہوا لیکن اس کے دل کی کیفیت سے اللہ واقف ہے۔ وہ مذکورہ وعیدیں نہ بھولے۔
واضح رہے کہ ایک مسلمان مرد کو بشرطِ استطاعت عدل ایک سے زائد چار عورتوں سے نکاح کی شرعاً اجازت ہے۔ بیک وقت چار سے زائد نکاح کی اجازت نہیں۔ اور اگر ان میں بھی عدل و انصاف نہ کرنے کا اندیشہ ہو توصرف ایک نکاح پر اکتفاء کا حکم ہے ۔ لقولہ تعالیٰ فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنیٰ و ثلث و ربع فان خفتم الاتعدلوا فواحدۃ الایۃ (سورۃ النساء 3/4 )

اشیاء کی خریداری پر قرعہ کے ذریعہ انعام
سوال : ہر سال خرید و فروخت کی ایک اسکیم شہر کے کئی دکانوں میں چلائی جاتی ہے جس کے ذریعہ گاہک کو ایک مقررہ قیمت کی اشیاء کی خریداری پر ایک لکی کوپن دیا جاتا ہے اور بعد میں ہر ایک کوپن دو مرتبہ ڈرا کیلئے قابل قبول ہوتے ہیں۔ اس میں گاہک کواپنی پسند کی چیز تو مل جاتی ہے تاہم ایک خواہش بھی دل میں انعام جیتنے کی ہوتی ہے ۔ بعض اصحاب اسے جوے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائے تو مہربانی ہوگی۔
محمود حسین، ای میل
جواب : دکاندار، گاہک کو اپنی اشیاء کی خریدی کی طرف راغب کرنے کیلئے کئی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی اشیاء مقررہ قیمت پر اپنے گاہک کو دیتے ہیں، ساتھ میں ایک ٹوکن بھی دیتے ہیں اور قرعہ میں اس کا نام نکل آئے تو دکاندار اپنی جانب سے اس کو معلنہ انعام دیتا ہے۔ ایسی خرید و فروخت شرعاً جائز ہے اور انعام لینا بھی درست ہے ۔ اس میں جوے کا کوئی شائبہ نہیں۔ جوے میں اصل قیمت خود خطرے میں ہوتی ہے اور مذکورہ در سوال خرید و فروخت میں اصل قیمت کے عوض اس کو اس کی پسندیدہ چیز مل جاتی ہے ۔ لہذا اس طرح کی اسکیم سے مسلمان کا استفادہ کرنا شرعاً درست ہے۔

نماز جنازہ ، سنتوں کے بعد پڑھنا
سوال : میں ٹولی چوکی کی ایک مسجد میں نماز جنازہ میں شریک رہا، وہاں عشاء کے فوری بعد ، سنتوں سے قبل نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ بعد ازاں بعض نے سنتیں اور وتر ادا کی اور بعض جنازے کے ساتھ چلے گئے ۔ واضح رہے کہ اس وقت میت میں پھولنے پھٹنے یا کوئی تبدیلی کے آثار نہ تھے، پوچھنا یہ ہے کہ فرض نمازوں کے وقت جنازہ آجائے تو نماز جنازہ سنت و نوافل ادا کر کے پڑھائی جائے یا فرض کے ساتھ ہی نماز جنازہ ہو ؟
سعید الدین، بنجارہ ہلز
جواب : صورتِ مسؤل عنہا میں فرض نماز کی جماعت کے بعد سنت ادا کر کے نماز جنازہ پڑھی جائے اور یہی مفتی بہ قول ہے ۔ در مختار برحاشیہ ، ردالمحتار جلد اول ص : 611 میں ہے۔ الفتوی علی تاخیر الجنازہ عن السنۃ وأقرہ المصنف کأنہ الحاق لھا بالصلاۃ اور ردالمحتار میں ہے (قولہ الحاق لھا) أی للسنۃ بالصلاۃ أی صلاۃ الفرض اور ردالمحتار جلد اول باب صلاۃ الجنائز ص 658 میں ہے ۔ الفتوی علی تقدیم سنتھا علیھا ۔