تین پھول ‘ ایک کہانی

افسانہ ولی تنویر
ماہ مئی کی وہ نہایت گرم دوپہر تھی اس دن ویویک بے حد خوش تھا۔ اس کی خوشیوں کی جیسے وہ معراج تھی۔ اتنا خوش وہ کبھی نہیں رہا۔وہ اپنے گھر کی پہلی منزل پر برآمدے میں لگے بید کے بنے جھولے پر پڑا پڑا شام کا بڑا بیچنی سے انتظار کررہا تھا۔ گرم ہوا کے خشک مگر نرم و نازک جھو نکے فضاء کو خوش گوار بنا رہے تھے۔ ویویک کی خوشی کی اصل وجہ بسنتی کی اس کے گھر آمد تھی جو آج شام اپنے شوہر ڈاکٹر مرلیدھر کے ساتھ اس کے گھر آنے والی تھی۔ ویویک کا دل بسنتی کی آمد کے تصور سے ہی بلیوں اچھل رہا تھا۔جھولے پر پڑے پڑے ہی وہ تصورات کی دنیا میں کھوگیا۔ بچپن کی بے شماریادوں کا ایک سیلاب سا ویویک کو برسوں پیچھے بہا لے گیا۔

بسنتی کے ساتھ بیتے ہوئے گائوں کے وہ دن ایک ایک کرکے کسی فلمی تصویر کی طرح اس کے ذہنی پردہ پر ابھر نے لگے اور ویویک خیالوں کی دنیا میں کھوگیا۔ گائوں کے پرائمری اسکول کی تعلیم پوری کرنے کے بعد جب وہ ہائی اسکول کی پہلی جماعت میں داخل ہوا مسٹر رشیکیش اس کے کلاس ٹیچر تھے ۔ انہوں نے ہی اپنے ہاتھوں ویویک کا داخلہ فارم پُر کیا تھا۔ بڑے اصول پسندکم گو‘ متانت سے بھر پور پروقاران کی شخصیت سے سارے طلباء مرعوب تھے۔ ان کی اصول پسندی اور ان کا غصّہ اسکول کے دیگر ٹیچروں میں ان کو ممتاز و منفرد بنا دیتا تھا۔ ہائی اسکول کی ابتداء جماعت کو وہ حساب تلگو اور ہندی پڑھایا کرتے اورا پنے پیریڈ میں وہ اتنے انہماک و توجہ سے پڑھاتے کہ سارے طلباء ان کی طرف متوجہ رہتے۔ ان کا رعب اور دبدبہ طلباء پر اس قدر ہوتا کہ ساری جماعت پر سکوت سا طاری رہتا۔ان کی سختی او راصول پسندی نے طلباء پر بہت ہی اچھا اثرڈالا تھا محنتی او رذہین طلباء سے وہ حد درجہ پیار بھی کرتے وہ ویویک کو پسند کرتے تھے۔ ویویک جماعت کے چند اچھے ذہین طلباء میں شمار ہوتا تھا۔

مسٹر ریشیکش کی نجی زندگی بھی سب سے ذرا مختلف تھی۔ ان کے کوئی نرینہ اولاد نہ تھی انہیں صرف لڑکیا ں ہی لڑکیاں تھیں وہ چھ یا آٹھ لڑکیوں کے والد تھے۔ مسلسل لڑکیوں کی ولادت نے مزاجاً انہیں چڑ چڑا اور قدر ے بدمزاج سا بنا دیا تھا۔ گھر یلو کام کاج تو ان کی اہلیہ اور لڑکیاں سر انجام دیتیں لیکن گھر کے باہر کے کام کاج خود انہیں تنہا انجام دینے پڑتے‘ گائوں میں ہر جمعرات کو بازار لگتا۔ ہفتے بھر کی ترکاری اور دیگر سودہ سلف اس ایک دن ہی خریدنا ہوتا۔ ایسے میں انہیں اپنی کم مائیگی کا احساس بری طرح ستایا کرتا۔ نتیجتاً جمعرات کے دن اپنی جماعت کے بچوں کی مدد حاصل کر نے کیلئے وہ مجبور رہتے۔ ویویک کے علاوہ ایک دو طلباء ہر جمعرات بازار سے ہفتہ واری سودا سلف ترکاری اور دیگر اشیاء ان کے مکان پہنچا دیاکرتے۔ رفتہ رفتہ ویویک جیسے ان کے گھر کا ایک فرد بن گیا تھا۔ویویک کا مکان بھی مسٹر ریشیکیش کے مکان سے قریب ہی تھا اس لئے جمعرات کے علاوہ بھی وہ اپنے کسی ضروری کام کیلئے اسے گھر پر بلا لیا کرتے۔ اور ویویک بڑے خلوص اور دلچسپی سے ان کے گھر کا ہر کام سر انجام دیا کرتا۔ بسنتی مسٹر ریشیکیش کی چوتھی لڑکی تھی جو اس سال اپنی پرائمری تعلیم مکمل کر کے گائوں کے گرلزہائی اسکول میں داخل ہوئی تھی۔ساری بہنوں میں نہایت حسین خوش اخلاق اور بے انتہاذہین بسنتی ادھر اپنی جماعت میں اپنا ایک ممتاز مقام رکھتی تھی۔

وہ بھی گرما کی ایک سخت دوپہر تھی۔ جمعرات ہی کا دن تھا ویویک بازار سے سامان سے لدی تھیلی لئے مسٹر ریشیکیش کے گھر پہنچا تھا۔ اسکے چہرہ پر گرمی کی وجہ سے پسینے کی لہر نکل آئی تھی اور وہ اپنے آپ کو بے حد تھکاہوامحسوس کررہا تھا۔گھر میں داخل ہوتے ہی مسٹر رشیکیش نے تھنڈا پانی لانے کیلئے گھر والوں کو آواز دی کچھ ہی دیر بعد بسنتی نے ایک بکیٹ میں پانی اور ایک مگ لا کر صحن میں رکھ دیا۔ مسٹر ریشیکش نے ویویک کو منہ ہاتھ دھولینے اور فِرش ہونے کو کہا۔ بسنتی وہیں کھڑی مگ سے ٹھنڈا ٹھنڈا پانی ویوک کے ہاتھوں پر ڈالتی اور ویویک اپنا منہ ہاتھ دھوتا رہا۔ بسنتی کی قربت کا احساس اس دن پہلی بار ا سے ہورہا تھااس نے پہلی بار محسوس کیا کہ اس کے سینے میں دل بھی ہے پہلی بار اس نے اپنی زندگی میں ایک نئی اور عجیب سی کیفیت محسوس کی ۔کچھ دیر بعد بسنتی پھر واپس آئی اسکے ہاتھ میں گلابی رنگ کا ایک چھوٹا سا توالیہ تھا۔ توالیہ ویویک کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے اس کے نازک خوبصورت ہاتھ ویویک کے ہاتھ سے ٹکراگئے تھے اور ویویک کے سارے بدن میں بجلی کی ایک لہر سی دوڑ گئی تھی جیسے اس نے بجلی کے ننگے تار چھولئے ہوں۔ اسی لمحہ مسٹر ریشیکیش کی آواز نے انہیں دوبارہ چونکادیا۔ مسٹر ریشیکیش باہر مردانہ بیٹھک میں ویویک کا انتظار کررہے تھے۔ویویک فوراً بیٹھک میں پہنچا تب مسٹر ریشیکیش نے ویویک سے دوپہر کے کھانے کے لئے کہاتب ویویک بڑے ہی ادب و احترام کیساتھ گویا ہوا ’’ نہیں سر میرا گھر یہیں پاس میں ہے وہاں جا کر کھائوںلوں گا ویسے ابھی بھوک بھی نہیں ہے ۔ ‘‘ پھر ریشیکیش نے اندر آواز دی اور کوئی ٹھنڈا مشروب ویویک کے لئے لانے کو کہا۔ کچھ ہی دیر بعد بسنتی ایک چھوٹی کشتی میں لسّی سے بھرا گلاس لئے مردانہ بیٹھک میں وارد ہوئی۔ اور مسٹر ریشیکیش نے ویویک سے لسی پینے کو کہابسنتی نے کشتی سے گلاس اٹھا کر ویویک کی جانب بڑھا یا اور ویویک گلاس حاصل کرنے اپنا ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ بسنتی کے ہاتھ سے لسی سے بھرا گلاس چھوٹ گیا اور کانچ کا گلاس فرش پر گر کر ریزہ ریزہ ہو گیااور لسی بیٹھک کے فرش پر دور تک پھیل گئی۔ مسٹر ریشیکیش کا پارہ غصے سے چڑھ گیا انہوں نے بسنتی کو اس بری طرح لتاڑہ کہ وہ گھبرا کر فوراً وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی ……. ویویک بیٹھک میں رکھی ہوئی صراحی سے پانی لیکر پینے ہی میں اپنی عافیت جانی اورمسٹر ریشیکیش سے اجازت لے کر اپنے گھر کے لئے روانہ ہو گیا۔…. دوسرے دن جب وہ اسکول پہنچا تو مارے ڈر کے وہ ڈھیر ہواجارہا تھا کہ مسٹر ریشیکیش کل والی بات کو لیکر اس سے بڑے ناراض ہوںگے۔ ایسے میں وہ کیا کرے؟ لیکن جب وہ اسکول پہنچا تو اس کی ساری پریشانی دور ہوچکی تھی۔ مسٹر ریشیکیش حسب معمول اپنی کلاس لیتے رہے اور ویویک سے بھی معمول کے مطابق ہی ان کا رویہ رہا تب جاکر ویویک کی جا ن میں جان آئی ۔ مسٹر ریشیکیش کل اس بات کو ایک اتفاق سمجھ کر ٹا ل گئے ہوں گے۔ لیکن ویویک او ربسنتی کی زندگی میں وہ واقعہ زندگی کا ایک سنگ میل اور یادگار بن کر ان کے ذہنی نہاں خانوں میں پوری طرح محفوظ ہو گیا تھا۔ وہیں سے اُن کی غیر مرئی اَن چاہی اور اَن دیکھی چاہتوں کا آغاز ہوا تھا۔

اس کے بعد کئی جمعرات آئے… کئی بازار کے دن آئے اور گذرگئے کبھی لسی کبھی کوئی مشروب کبھی چائے ویویک کو بسنتی کے ہاتھوں ملتی رہی…. او رآنکھوں آنکھوں سے کئی جام بھی وہ پیتی او رپلاتی رہی۔ اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ مسٹر ریشیکیش کے ہاں کوئی خاص ڈش بن جاتی تو وہ ویویک کو جبر کرکے دوپہر کے کھانے پر روک لیا کرتے ۔کھانے کے ٹیبل پر وہ بڑے شوخ سے کہتے ’’ یہ میری چہیتی بیٹی بسنتی ہے آج اس نے یہ کھانابنا یا ہے۔بڑا لذیذ کھا نا بنا لیتی ہے یہ.. کہو ویویک کھانا کیسا ہے ‘‘ ؟ ایسے میں ویویک صرف مسکراکر چپ ہو جاتا۔ اس طرح دن ہفتے مہینے اور سال گذرتے رہے۔ اب وہ ہائی اسکول کی اوپری جماعتوںمیں آگئے تھے۔ انکے ذہن بھی نسبتاً باشعور ہورہے تھے۔ ویویک ایک رات مسٹر ریشیکیش کے گھر کی طرف جا نکلا ہوم ورک کرتے وقت ریاضی کا ایک کٹھن سوال اسے ستارہا تھا سر سے اسکاحل دریافت کرنا چاہتا تھا۔ جیسے ہی وہ ان کے دروازہ پر پہنچا ۔ سرکی گرج دارآواز سے اسکے قدم خود بخود رک گئے۔ سر اپنی اہلیہ پر غصے سے برس رہے تھے۔ غصے کی شد ت کی وجہ سے ان کی آواز اور الفاظ برابر سمجھ میں نہیں آرہے تھے۔ دور سے ہی بسنتی ویویک کو دیکھ کر دوڑی‘ باہرچلی آئی اور کہا ’’ ویویک پپا بہت غصے میں ہیں فوراً چلے جائو ‘‘ … ’’ آخر ہوا کیا ہے وہ اتنے غصے میں کیوں ہیں ..‘‘ ؟ ویویک نے دریافت کیا بسنتی نے کہا ’’ آج ہماری ماں کی ڈیلیوری ہوئی اور آج بھی ا نہیں لڑکی پیدا ہوئی یہ ان کی ساتویں لڑکی ہے پپا لڑکی کی پیدائش پر بڑے غصے میں ہیں۔ لڑکی کی پیدائش کا تصور وار ماں کو ٹھہرارہے ہیں۔ اور انہوں نے سزا کے طور پر ماں کو ایک پیر پر کھڑا کر رکھا ہے۔ اگر آئیندہ پھر کبھی تم نے لڑکی پیدا کی تو دونوںپیر اٹھا کر ہوا میں معلق کھڑا کردوں گا ..‘‘ ویویک کے منہ سے ہنسی نکل گئی.. ’’ تم ہنس رہے ہو ‘‘ بسنتی نے کہا ہم سب پریشان ہیں ‘‘ ’’ تم خداسے پراتھناکرو ویویک اگلی بار وہ ہمیں بھائی دے ..‘‘ ویویک واپس چلاگیا۔ دوسرے دن اسکول میں بھی سر کا موڈ برابر نہیں تھا۔ طلباء بات بات پر سر سے چھڑی کھارہے تھے۔ اور کسی کو نہیں معلوم تھا کہ آخر ماجرہ کیا ہے…. یو ں ہی دن گزرتے رہے….ہفتے اور مہینے بھی… ویویک خدا سے دعا کیا کرتاکہ وہ بسنتی کو ایک بھائی ضرور نوازے ۔ ادھر بسنتی اور اسکی ساری بہنیں بھی ہر وقت بھا ئی کیلئے دعاء کیا کرتے رہیں۔کافی دنوں بعد… خداخدا کرکے سنا گیا کہ اس بار بسنتی کے گھر بھائی پیدا ہوا ہے۔

مگر وہی کچھ ہوتا ہے جو خدا کو منظور ہوتاہے۔ کچھ ہی دنوں بعد ان کے ہاں ایک غیر معمولی حادثہ پیش آگیا۔ ایک خطر ناک حادثہ میں بسنتی کے خالو اور خالہ ختم ہوگئے اور ان کا بھراپرا گھر دیکھتے ہی دیکھتے اجڑ گیا۔ ان کا شیرازہ بکھیر گیا تھا۔بسنتی کے خالہ زاد چھوٹے بھائی بہن بسنتی کے گھر آگئے مسٹر ریشیکیش نے ان کی ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی۔ بسنتی کے سارے خواب ادھورے رہ گئے ۔ اس کے سب سے بڑے خالہ زاد بھائی یونیورسٹی کے ہاسٹل چلے گئے وہ گریجویشن کے بعد اعلیٰ تعلیم کو بڑی مشکل سے جاری رکھ پائے۔ پی جی کے بعد انہوں نے ہمت نہیں ہاری دوسرے ایک شہر کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اور انہیں اچھی سی ملازت بھی مل گئی۔ ادھر ویویک کے والد میٹرک کے بعد اسے اپنے ساتھ زراعی کاروبار میں مشغول ہو نے کا مشورہ دیتے رہے۔ جو اسکے لئے قطعی پسند نہ تھا وہ ملازمت کا بھی قائیل نہ تھا البتہ اپنی عمل زندگی کا آغاز ایک تاجر کی حیثیت سے کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ والد صاحب کو راضی کرکے اس نے ان سے چھوٹاسا سرمایہ حاصل کیا اور شہر میں ایک قریبی رشتہ دار کے پاس منتقل ہو کر اس قلیل سرمایہ سے ایک تجارت شروع کی ساتھ ہی ساتھ رات کے کالج میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ تجارتی سرمایہ مختصر تھا پھر بھی اسی سے وہ اپنے اخراجات کی پابجائی کرلیتا کچھ رقم ہر ماہ والد صاحب کو بھی بھیجتا رہا …. ایک دن اسے والد صاحب کا خط ملا جس میں انہوں نے لکھا کہ مسٹر ریشیکیش اپنی لڑکی بسنتی کی شادی اس کے بڑے خالدزادبھائی سے کر رہے ہیں شادی کا دعوت نامہ بھی آگیا ہے۔ اس اطلاع سے ویویک پر بجلی سی گرپڑی….اس کا سر چکرانے لگا وہ دوڑا دوڑا گائوں پہنچا۔ واقعی بسنتی کی شادی طے ہو چکی تھی ۔ دوسرے دن صبح وہ مسٹر رشیکیش کے گھر گیا۔ وہاں شادی کی تیاریاں زور شور سے جاری تھیں۔ باہر بیٹھک میں مسٹر ریشیکیش سے ملاقات ہوگئی۔ چندرسمی بات چیت کے بعد سر نے آواز دے کر بسنتی کو وہیں بیٹھک میں بلا لیا۔بسنتی کے ہاتھوں میں مہندی سے لگی تھی اور شادی کی تیاری کے پیلے کپڑوں میں کرسی پر اپنے والد کے پہلومیں خاموش بیٹھی رہی۔ ایک دو بار ویویک سے اسکی نظریں چار ہوئیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اس نے سب کچھ ویویک سے کہہ دیا۔ جیسے اس نے کہا ہو …. ’’ ویویک میں قسمت کے آگے مجبور ہوں خالہ خالو کے حادثہ کے بعد میرے پپا نے اس فیملی کو جو سہار ا دیا یہ شادی بھی اسی سہارا کا ایک حصہ ہے۔ ‘‘

؎میں اپنے پپا کے فیصلہ پر مجبوراً خوش ہوں تم بھی خوش رہو اور اپنے لئے کوئی اچھا سا فیصلہ کرلو….یہی کچھ ہمارے لئے بہتر ہے اور شائد خدا کو بھی یہی منظور ہوگا ‘‘ …کچھ دیر بعد ہی بنا کچھ مزید کہے سنے بسنتی اچانک کرسی سے اٹھ کر اندر کی طرف چلی گئی ویویک نے اسکی خوبصورت آنکھوں میں نمی ضرور دیکھی تھی۔اسکے اندر چلے جانے کے بعد مسٹر ریشیکیش نے وہی باتیں اپنی زبان سے بھی دہرائیں جو بسنتی اپنی آنکھوں سے کہہ گئی تھی۔ویویک اسی شام شہر لوٹ آیا۔ دوسرے دن بسنتی کی شادی ہو گئی۔ اسکا سینہ رنج و محن سے بھرا ہوا ضرور تھا لیکن نہ جانے کیوں۔؟ ایک عجیب سا احساس اسے مطئمین کئے ہوئے تھا کہ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے سب خدا کی مرضی ہے اس میں سب کی بھلائی ہے۔ اسے خبر ملتی رہی شادی کے بعد بسنتی اپنے خالہ زاد بھائی ڈاکٹر مرلیدھر کے ساتھ خوش رہا کرتی ہے۔ ڈاکٹر مرلیدھر بڑے اچھے انسان ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو نے کے علاوہ اعلیٰ کردار کے بھی مالک ہیں۔انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی بہتر سے بہتر تعلیم کا اہتمام کیا ہے۔ اور بسنتی کی خوشی کے لئے بھی انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ بسنتی ایک لڑکے کی ماں بن چکی ہے… اور کچھ عرصہ بعد یہ خبر ملی کہ وہ لوگ امریکہ منتقل ہو رہے ہیں ڈاکٹر مرلید ھرکو امریکہ میں اچھی ملازمت ملی ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے کنبہ کے بہت سارے لوگوں کو امریکہ بلا لیا اور وہاں سیٹ کردیاڈاکٹر مرلیدھر نے بسنتی کے چھوٹے بھائی کو جو اب اچھا خاصا جوان ہوگیا تھا اسے بھی امریکہ بلاکر سیٹ کرلیاہے ۔وہ واقعی بڑے کنبہ پرور انسان ہیں۔

بسنتی بالکل بدل گئی تھی مگر چہرے پر وہی معصوم سی مسکراہٹ اور آپنایت ۔ لیکن صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اس تمام عرصہ میں اسکے چہرہ پر سے ساٹھ پینسٹھ بہاریں چھوکر گزر گئی ہیں۔ تاہم آج بھی اس کے چہرہ پر وہی معصومیت اور ملاحت تھی جو برسوں پہلے ہواکرتی۔ وہی کتابی روشن چہرہ وہی آہو صفت روشن چمکدار خوبصورت آنکھیں ‘ وہی بھرا بھرا سا چھریرہ متناسب نازک گداز‘ ملکوتی‘ طلسماتی وجود…!! آ ج بھی ویویک ‘ بسنتی کے آہن بائی وجود سے پگھل پگھل کر رہ گیا تھا۔بسنتی نے سر پر پلو اوڑھ رکھاتھا بالکل بھارتی خاتون کی طرح اچانک سرسے ساڑی کا وہ پلو کاندھوں پر ڈھلک گیا اور سر کے بالوں میں گاہے گاہے چمکتی چاندی نظر آنے گلی۔ پھر ویویک کی نظر اس کی خوبصورت چوٹی پر پڑی جس میں گلاب کے تین پھول مسکرررہے تھے۔ گلابی‘ سفید اور پیلے پھول …. ویویک ان پھولوں کو دیکھ کر چونک پڑا۔ ایک انجان سی ٹیس اس نے دل میں محسوس کی مگر اس ٹیس میں عجیب سی لذت اور سکون کا احساس بھی شامل تھا۔ ڈاکٹر مرلیدھر نے آگے بڑھ کر ویویک سے بسنتی کا تعارف کروایا۔ ’’ بسنتی ان سے ملو یہ ویویک ہیں اس شہر کے ایک کامیاب بزنس مین اور یہ ایک بہترین کہانی کاربھی ہیں ادبی حلقوں میں ان کی بڑی پزیرائی ہے۔ ویویک ایسے انداز سے ملا جیسے وہ بسنتی سے پہلی بار مل رہاہو۔ پھر ویویک بڑے احترام کے ساتھ کل شام کے کھانے پر انہیں اپنے غریب خانہ پر آنے کی دعوت دی۔ ڈاکٹر مرلیدھر نے کہا ۔ وہ دو تین دن بہت مصروف ہیں اگلے اتوار کو وہ ضرور شام کی چائے ویویک کے گھر پر پیئیں گے۔ رات کے کھانے والی با ت بڑے سلیقہ سے ٹال دی کہ اس شہرکی دعوت اور لذیذ کھانوں نے ان کی صحت خراب کردی ہے۔

ویویک کو ڈر تھا کہ یہ بسنتی کا گلدستہ اس تک پہنچے گا یا کہیں ڈاکٹر مرلیدھر اسے اپنی ٹیکسی میں تو نہیں بھول جائیں گے۔لیکن کچھ ہی دیر بعد فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ ویویک نے فون کا ریسور اٹھایا بسنتی بول رہی تھی ۔ ’’ ویویک بہت بہت شکریہ تمہارا گلدستہ ملا۔ مجھے سخت افسوس ہے کہ میں تمہارے گھر نہ آسکی کل ہی ہم امریکہ کیلئے جارہے ہیں اگلی بار جب بھی آنا ہوا ضرور ملیں گے میں نے تمہارا گلدستہ قبول کرلیا۔اور اپنے سوٹ کیس میں محفوظ کرلیا ہے۔وہ اب میرے ساتھ امریکہ جائے گا اور محفوظ رہے گا ‘‘۔ جواب میں ویویک نے کہا ’’ بسنتی تم سے ملنے کی بڑی خواہش تھی ….‘ مالتی بھی تم سے ملنے بے چین تھی۔ تم نے بچپن میں جو تین گلاب کے پھول مجھے نوٹ بک میں رکھ کردے تھے۔وہ آج بھی اس نوٹ بک میں اسی طرح محفوظ ہیں۔‘‘
آج تم ہمارے گھر آتی تو دیکھتیں مالتی کے علاوہ گھر کی تمام لڑکیا ں اور بہوئیں اپنے بالوں میں تین گلاب سجائے تمہارے استقبال کیلئے بیچین تھیں تم آتیں تو بڑا مزہ آجاتا۔ مالتی جب بھی میری اس نوٹ بک میں وہ تین پھول دیکھتی تو مجھ سے سوال کرتی یہ پھول کس کے ہیں میں اسے کوئی بہانا بنا کر ٹال دیتا۔ لیکن آج مالتی پر ان تین پھول کی کہانی کا عقدہ کھل گیا ہے راز کے سارے پردے ہٹ گئے اب یہ راز اس پر منکشف ہوگیا ہے۔ وہ بہت خوش اور مطمین ۔‘‘ !!