تیمار دار کیلئے جماعت کا حکم

سوال :  میں الحمداللہ پنجوقتہ نماز باجماعت ادا کرنے کی زمانہ شباب سے حتی المقدور کوشش کرتا رہا ہوں۔ میں پچیس سال سعودی عرب میں رہا، بروقت نماز جماعت سے ہوا کرتی تھی۔ اب میں دو سال قبل حیدرآباد واپس آگیا ہوں۔ میرے سارے بچے بیرون ممالک ہیں۔ میں اور میری اہلیہ گھرمیں رہتے ہیں ۔ تقریباً ایک ماہ سے میری اہلیہ کی طبیعت شدید ناساز ہے ۔ اور کب حالت بگڑ جائے پتہ نہیں۔ اس لئے میں مسجد گھر کے قریب رکھتے ہوئے بھی نہیں جا پارہا ہوں۔حتی کہ نماز مغرب بھی مجھے اپنے ہی گھرمیں ادا کرنا پڑ رہا ہے ۔ دل کو کوفت ہورہی ہے ۔شرعی مسئلہ بیان فرمائیں تو مہربانی ہوگی ؟
محمد عبدالودود، پرانی حویلی
جواب :  جماعت سے نماز ادا کرنا سنت موکدہ ہے اور عام مشائخ نے جماعت کو واجب قرار دیا ہے تاہم معقول عذر ہو تو جماعت کا لزوم ساقط ہوجاتا ہے اور  معقول اعذار میں سے ایک عذر تیمارداری بھی ہے ۔ چنانچہ عالمگیری جلد اول ص : 82 ، 83 میں ہے : الجماعۃ سنۃ موکدۃ … وفی الغایۃ قال عامۃ عشائخنا انھا واجبۃ … و تسقط الجماعۃ بالاعذار … و تسقط بالریح … أو کان قیما للمریض ۔
پس صورت مسئول عنہا میں حسب صراحت سوال آپ کی اہلیہ کی تیمارداری کے لئے آپ کے علاوہ کوئی نہیں اور آپ کا وقت نماز کی حد تک بھی ان سے جدا ہونا کسی مشکل کا سبب بن سکتاہے تو ایسی صورت میں جماعت کا وجوب ساقط ہوجائے گا۔ آپ تنہا اپنے گھر میں نماز ادا کرسکتے ہیں۔ ترکِ جماعت کا مؤاخذہ نہیں ہوگا۔
مرحومہ بیوی کا چہرہ دیکھنا
سوال :  کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عقد نکاح کے لغوی معنی کیا ہیں اور اس کے ٹوٹنے کے کیا اسباب ہیں۔ کیا زن و شوہر میں سے کسی ایک کے انتقال کی وجہ سے عقد نکاح منقطع ہوجاتا ہے اور دوسرے کیلئے اجنبی ہوجاتے ہیں۔ اگر بیوی کا انتقال ہوجاتا ہے تو عام طور پر شوہرکو اپنی مرحومہ بیوی کا چہرہ دیکھنے سے منع کردیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اب وہ ان کے لئے محرم نہیں رہا۔ اس کی شرع میںکیا حیثیت ہے اور کیا اس کی کوئی فقہی / شرعی دلیل ملتی ہے ۔
محمد جمیل احمد، بوکل کنٹہ
جواب :  نکاح کے لغت میں معنی مخصوص ملاپ کے ہیں اور اصطلاح فقہ میں نکاح ایک مخصوص عقد کا نام ہے جس سے مرد قصداً عورت سے نفع اٹھانے کا مجاز ہوتا ہے ۔ رشتہ نکاح ، طلاق ، خلع ، فسخ اور موت سے منقطع ہوجاتا ہے اور جب بیوی کا انتقال ہوجائے تو اس کے شوہر کا اس کو غسل دینا اور چھونا منع ہے ۔ البتہ صحیح قول کے مطابق وہ اپنی مرحومہ بیوی کو دیکھ سکتا ہے ۔ در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد 1 ص :  633 میں ہے : (و یمنع زوجھا من غسلھا و مسھالامن النظر الیھا علی الاصح)

بعد ختمِ مدت، رہن کا مکان فروخت کرنا
سوال :  ایک شخص ایک مکان میں کرایہ سے رہ رہا تھا اور پابندی سے کرایہ ادا کر رہا تھا۔ (۱) مالک مکان نے بغیر کسی وجہ کے کرایہ دار پر الزام لگایا کہ چھ ماہ کا کرایہ باقی ہے اور اس نے اس جھوٹ کو ذریعہ بناکر عدالت میں مقدمہ دائر کردیا ۔ (۲) کرایہ دار نے بھی اپنے دفاع کے طور پر اپنی جانب سے اس مکان کا بیعانہ دے دینے کا جھوٹا مقدمہ دائر کردیا ۔ (۳) مکاندار اسی دوران مکان کو کسی شخص کے پاس رہن رکھنے جارہا تھا ، تو کرایہ دار نے ایک دوسرے شحص کو بیچ میں رکھ کر رہنمائی کی کہ فلاں شخص کے پاس اسے رہن رکھوادو اور اس شخص کے بارے میں مالک مکان کو کوئی واقفیت نہیں تھی۔ (۴) رہن کی مدت دو سال مقرر ہوئی اور مالک مکان نے اس مکان سے متعلق تمام کاغذات (جو خریداری کے ہوتے ہیں) کو رہن پر لینے والے شخص کے حوالہ کردیا۔ (۵) تین سال تک اس نے مکان کو رہن پر رکھ چھوڑا اور واپس نہیں چھوڑایا، تو رہن لینے والے شخص نے اسے بیچنا چاہا تو کرایہ دار نے اسے خرید لیا ۔ اس صورتحال میں کیا کرایہ دار کا اس مکان کا خریدنا جائز ہوا یا نہیں ؟
محمد فرقان،ملے پلی
جواب :  صورت مسئول عنہا میں مالک سے مکان رہن لینے والے پر لازم ہے کہ مدت متعینہ کے ختم پر مکان مرہونہ کو فروخت کر کے اپنی دی ہوئی رقم لے لے اور قرض سے زائد رقم وصول ہوئی ہو تو مالک مکان کو زائد رقم واپس کردے ۔ بہرحال مدت مقررہ کے بعد مکان فروخت کیا گیا ہے تو اس کو جو خریدا وہ مالک ہے۔

اقامت کے وقت کب کھڑا ہونا چاہئے
سوال :  اقامت کے وقت امام اور مقتدیوں کو کب کھڑے ہونا چاہئے ۔ بعض امام اقامت شروع  ہوتے ہی کھڑے ہوجاتے ہیں تو ان کے ساتھ بعض مصلی بھی کھڑے ہوجاتے ہیں اور بعض بیٹھے رہتے ہیں اور ’’ حی علی الصلوۃ‘‘ پر کھڑے ہوتے ہیں ۔ شرعی طریقہ بیان فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
محمد سبحان شریف ، حسینی علم
جواب :  اقامت شروع ہونے سے قبل اگر امام مصلی پر موجود ہو تو امام اور مقتدی ہر دو کو ’’ حی علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونا چاہئے اور اگر امام اقامت شروع ہونے کے بعد مقتدیوں کے پیچھے سے آرہا ہے تو جس صف سے امام گزرے وہ صف کھڑی ہوتی جائے۔ یہاں تک کہ امام مصلی پر پہنچ جائے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ امام آگے سے آرہا ہے تو امام کو دیکھتے ہی تمام مقتدی کھڑے ہوجائیں۔ عالمگیری ج : 1 ، ص : 57 میں ہے ۔ ان کان الموذن غیرالامام و کان القوم مع الامام فی المسجد فانہ یقوم الامام و القوم اذا قال الموذن  ’’ حی علی الفلاح‘‘ عند علمائنا الثلاثۃ ھو الصحیح ۔ والیہ مال شمس الائمۃ الحلوانی و السرخسی و شیخ الاسلام خواھر زادہ و ان کان الامام دخل المسجد من قدامھم یقومون کما رأوا الامام۔

مرحوم کے افراد خاندان کیلئے کھانا لیجانا
سوال :  ہمارے سماج میں یہ رواج ہے کہ جب کسی کے گھر انتقال ہوجاتاہے تو عزیز و اقارب ان کے لئے کھانے کا انتظام کرتے ہیں ۔ کیا شرعی لحاظ سے مرحوم کے گھرکھانا لیجانا درست ہے یا نہیں اسی طرح لوگ جب میت کو دفن کرتے ہیں تو قبر میں سب مل کر مٹی ڈالتے ہیں اور کچھ پڑھتے ہیں۔ کیا اس کا بھی ثبوت شریعت میںموجود ہے۔
محمد ندیم،منگل ہاٹ
جواب :  چونکہ میت کے افراد خاندان رنج و غم میں رہتے ہیں۔کھانے پکانے کا انتظام رنج و غم میں نہیں ہوسکتا اس لئے عزیز و اقارب دوست و احباب ان کے لئے کھانا لیجاتے ہیں۔ شرعی نقطہ نظر سے میت کے افراد خاندان کے لئے کھانا لیجانے میں کوئی حرج نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص : 167 میں ہے : ولا بأس بأن یتخذ لأھل المیت طعام کذافی التبیین ۔
تدفین کے وقت قبر میں میت کے سراہنے سے حاضرین کا دونوں ہاتھوں سے تین مٹھی مٹی ڈالنا مستحب ہے ۔ پہلی مٹھی میں منھا خلقناکم (اسی سے ہم نے تم کو پیدا کیا) دوسری میں وفیھا نعیدکم (اور اسی میں ہم تمہیں واپس لوٹائیں گے) اور تیسری میں و منھا نخرجکم تارۃ اخری (اور ہم اس سے تمکو دوبارہ نکالیں گے) پڑھے۔ اور ص : 166 میں ہے: و یستحب لمن شھد دفن المیت ان یحثوفی قبرہ ثلاث حثیات من التراب بیدیہ جمیعا و یکون من قبل رأس رأس المیت و یقول فی الحثیۃ الاولیٰ منھا خلقنا کم … کذا فی الجوہرۃ النیرۃ

زبانی ہبہ کا حکم
سوال :  شریعت میں زبانی ہبہ کا کیا اعتبار ہے۔ کیا کوئی شخص  اپنی جائیداد کو اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو زبانی ہبہ کرسکتا ہے یا نہیں۔ ہبہ کی قانونی اور شرعی حیثیت سے آگاہ کرے تو نوازش ہوگی ؟
کریم اللہ، نامپلی
جواب :  ہبہ زبانی ، تحریری ہر دو طریقے سے ہوتا ہے ۔ تاہم ہبہ میں قبضہ ضروری ہے ۔ یعنی ہبہ کرنے والا شئی مو ہوبہ سے ا پنا قبضہ ختم کر کے جس کو ہبہ کر رہا ہے اس کے مکمل قبضہ تصرف میں دیدے تو ہبہ مکمل ہوجاتا ہے ۔ اگر کوئی شخص زبانی ہبہ کر کے قبضہ دیدے تو قبضہ کے ساتھ ہی موہوب لہ، (جسکو ہبہ کیا گیا) مالک ہوجاتا ہے ۔ تاہم اگر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ اس کو ہبہ کرنے والے نے زبانی ہبہ کیا ہے تو بشرطِ ثبوت اس کا دعویٰ معتبر ہوگا۔

یتیموں کی کفالت
سوال :  ہندہ کے ایک بھائی محمد رحیم الدین فوت ہوچکے ہیں۔ ان کی ایک لڑکی ناظمہ تقریباً تیرہ سالہ کو اور ایک لڑکے محمد طارق تقریباً گیارہ سالہ کو اپنی پرورش میں رکھی اور ان کی تعلیم و تربیت اور ان کے تمام اخراجات و ضروریات کی کفالت کی ۔ ماشاء اللہ اب ان کی عمریں علی الترتیب تریباً 22 ، 20 سال ہے۔ ہندہ کے شوہر اور ہندہ نے ان دونوں کی ولدیت میں از ابتداء تا انتہا ان کے حقیقی والد محمد رحیم الدین ہی لکھوایا ہے۔ ان کے والد کی وفات ہوجانے کے سبب صدر بالا فریضہ ادا کرتے رہے ہیںاور وہ دونوں بھی ہندہ کے زیر پرورش ہیں۔ شرعاً اس طرح مرحوم بھائی کے بچوں کی پرورش و کفالت اپنے پاس رکھ کر کرنا شرعاً غیر درست یا قانون اسلامی کی رو سے منع ہے ؟ عرشیہ سلطانہ کے شوہر کا نام رکن الدین ہے ؟
رقیہ فاطمہ کالا پتھر
جواب :  اسلام کمزوروں ، محتاجوں ، بیواؤں اور یتیموں کی مدد و دستگیری کی تلقین کرتا ہے ۔ قرآن پاک و احادیث مبارکہ میں اس کی بڑی ترغیبات وارد ہیں۔
یتیم بچوں کی کفالت اور ان کے تمام اخراجات کی تکمیل خورد و نوش و تعلیم و تربیت کی اہم ترین ذمہ داری کو پورا کرنا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بہت پسندیدہ و محمود ہے۔ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں کی کفالت پر بڑی خوشخبری ارشاد فرمائی ہے کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں اس طرح جنت میں (یعنی قریب) رہیں گے جیسے کہ شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی قریب ہوتے ہیں۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں انگلیوں سے درمیان میں کچھ کشادگی کے ساتھ اشارہ فرمایا ۔ انا و کافل الیتیم لہ و لغیرہ فی الجنۃ ھکذا و اشار بالسبابۃ والو سطیٰ و فرج بینھما شیئاً رواہ البخاری (مشکوۃ المصابیح ص : 422 باب الشفقہ والرحمۃ علی الخلق)
البتہ شریعت نے اس بات سے منع کیا ہے کہ کسی اور کی اولاد کو اپنی طرف منسوب کیا جائے اور اس کو اپنی اولاد ہونا ظاہر کیا جائے اور ولدیت کی جگہ اس کے حقیقی والد کے بجائے اپنا نام بتایا جائے۔ ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے : اُدعوھم لاٰباھم ھو اقسط عنداللہ … اے ایمان والو (اپنے منہ بولے لڑکوں کو ان کے (حقیقی) باپ کے نام سے پکارو اللہ سبحانہ کے پاس قرین انصاف یہی بات ہے۔ ہندہ نے اپنے مرحوم بھائی محمد رحیم الدین کے ایک لڑکا و لڑ کی کی صغر سنی سے پرورش کر کے ان کی تعلیم و تربیت و دیگر ضروریات زندگی کی کفالت کی ہے اور ان کو اپنی طرف اور اپنے شوہر کی طرف منسوب نہیں کیا ہے بلکہ ان کے حقیقی والد مرحوم ہی کی طرف ان کو منسوب کیا ہے تو شرعاً یہ امر منع نہیں بلکہ قابل تحسین و لائق تقلید ہے۔