تیشہ زن

نسیمہ تراب الحسن

گذرتے وقت کی گرد زندگی کے ہر پہلو پر پڑتی ہے ۔ ازدواجی رشتہ بھی اس کی زد آجاتا ہے ۔ شادی چاہے ماں باپ کے کہنے کے مطابق کی جائے یا محبت کے رنگ میں رنگی ہو ۔ شادیانوں کی گونج ، شہنائی کے سریلے نغمے آہستہ آہستہ دھیمے پڑجاتے ہیں ۔ ساتھ ہی میاں بیوی کی والہانہ جی حضوری کی رفتار میں فرق آنے لگتا ہے ۔ معاشی ذمہ داریاں شوہر کو دیرسے گھر آنے پر مجبور کرتی ہیں تو بیوی ممتا کے جال میں پھنس کر شوہر کو نظر انداز کرتی ہے ، بس یہاں سے یہ ایک جان دوقالب ، دو جان دو قالب میں ڈھل جاتے ہیں ۔ شروع میں آپس کی نوک جھونک تکلیف دہ نہیں ہوتی مگر جیسے جیسے حالات بدلتے ہیں طعن و تشنیع کا روپ دھار لیتی ہیں ۔ طنز کے تیر اگر مزاح کے ساتھ ہوں تو برے نہیں لگتے لیکن اس کے لئے فریقین میں حس مزاح کا ہونا ضروری ہے ۔ اگر دونوں میں سے ایک بھی مزاح سے بے بہرہ ہو تو پھر کڑوی کسیلی باتیں بن کر روزمرہ زندگی کو اجیرن کردیتی ہیں ۔

مجھے یاد آرہا ہے کہ ہماری ایک دوست کی شادی محبت سے ہوئی تھی ۔ کچھ عرصے تک ’’تم چاند سی محبوبہ ہو‘‘ اور ’’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو‘‘ کے گانے گھر کی فضا میں گونجتے رہے ۔ ایک دن شوہر کوئی غمگین گانا گارہا تھا بیوی طنز کے ساتھ بولی ’’اب تم مجھ سے بیزار ہوگئے‘‘ معمولی سی بات طول پکڑ گئی ۔

اسی طرح ایک اور قصہ یاد آگیا ۔ ایک دفعہ ہم میاں بیوی کسی دوست کے گھر گئے ۔ پڑھے لکھے سمجھدار لوگ ۔ اچھی خاصی باتیں ہورہی تھیں کہ مہنگائی کا تذکرہ ہونے لگا ۔ شوہر نے کہا مہنگائی کا خیال رکھ کر بجٹ بنانا تمہارا کام ہے ، گھر کی سجاوٹ کا شوق تم کو ہے ، بچوں کو اچھا کھلانے ، پہنانے ، اچھے اسکول بھیجنے کی خواہش تمہاری ہے ، مہمان آئیں تو اپنا سلیقہ بتانے کی عادت تمہیں ہے ، میرا خرچ کیا ، نہ سگریٹ پیتا ہوں ، نہ شراب گھر میں جو پکا کھالیا ۔ بیوی چراغ پا ہورہی تھی ۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرارہے تھے کیوں کہ اس طرح کی گفتگو ہمارے بیچ بھی ہوتی ہے ۔ پہلے زمانے کے لوگ ایسی لڑائی کے لئے کہتے ’’میاں بیوی کی لڑائی دودھ کی ملائی‘‘ ۔ چونکہ کچھ دیر بعد زندگی کے جھمیلوں میں لگ کربھول جاتے اور بات آئی گئی ہوجاتی لیکن آج کل ڈائٹنگ کے خیال میں دونوں ’’ملائی‘‘ کھانے کے لئے تیار نہیں ۔

عام طور پر بیویوں کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ ان باتوں کو سن کر خندہ پیشانی سے سہہ لیتی ہیں لیکن بعض خود اعتماد خواتین اسکا بدلہ لینے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں ۔ جس کا اندازہ کرنے کے لئے میں چند مثالیں سنارہی ہوں ۔
کسی محفل میں شوہر صاحب پھسل کر گرگئے ۔ لوگوں نے دوڑ کر اٹھایا ، بیوی پہلے سے بولی یہ بتاؤ تم کس کو دیکھ کر پھسلے؟ بیچارہ ویسے ہی کھسیانا ہورہا تھا باغ میں بنی منڈیر کی طرف اشارہ کیا ، اس سے ٹھوکر لگی ۔ بیوی نے کہا وہاں سے تو سبھی آ جارہے ہیں ، تم کس طرف دیکھنے میں محو تھے ؟ سب لوگ بیوی کی چھیڑ سے محظوظ ہونے لگے ۔

اسی طرح ایک پروفیسر صاحبہ کسی جلسے میں اپنے شوہر کے ساتھ گئیں جو ایک مشہور افسانہ نگار تھے ۔ انھیں دیکھ کر ایک اسمارٹ شخصیت کی صاحبہ نے آگے بڑھ کر اپنا ہاتھ مصافحے کے لئے بڑھایا ، افسانہ نگار نے بھی گرم جوشی سے ان کا ہاتھ تھام لیا ۔ جب کچھ دیر تک ہاتھ میں ہاتھ رہے تو بیوی نے شوہر کو ٹہوکا لگایا ۔ میاں نے اپنا ہاتھ کھینچ کر قدم آگے بڑھائے ، بیوی نے کہا ان کو شرم نہیں مگر آپ کو خیال کرنا چاہئے تھا ، اتنی دیر ہاتھ میں ہاتھ دیئے کھڑے رہے ۔ سب دیکھ رہے تھے ۔
میری بھابی کی سالگرہ کا دن تھا ۔ روز کی طرح میاں آفس چلے گئے ۔ ظاہر ہے بیوی کے دل کو ٹھیس لگی ۔ دوپہر کو میاں کو آفس فون کیا ۔ کہا آج میری سالگرہ ہے ، کیوں نہ ہم دونوں ساتھ کھانا کھائیں ، شوہر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور بڑی محبت سے کہا اچھا خیال ہے ۔ میں خود فون کرنے والا تھا ۔ بیوی نے کہا تو پھر تم اپنا ٹفن کھول لو میں بھی کھانا شروع کررہی ہوں ۔ یہ کہہ کر فون رکھ دیا ۔

میرے شوہر میں حس مزاح تو ہے لیکن مزاحیہ باتیں کرنا یا لطیفے سنانے کے گر سے ناواقف ہیں ۔ ایک مرتبہ کہیں باہر سے آئے تو بولے میں آپ کو تین لطیفے سناتا ہوں ۔ میں حیران کہ یہ چمتکار کیسے ہوگیا ۔ ہمہ تن گوش بیٹھ گئی ۔ انھوں نے لطیفہ سنانا شروع کیا تین چار منٹ ہوگئے مگر ہنسی کیا لبوں پر تبسم تک نہ آیا تو میں نے پوچھا یہ لطیفہ ہے یا شارٹ اسٹوری ۔ یکدم خاموش ہوگئے کہ اب میں نہیں سناؤں گا ۔ میں نے بہت اصرار کیا مگر آج تک باقی دو لطیفے نہیں سنائے ۔

چلئے ایک اور قصہ سنئے ۔ کھانے کی میز پر شوہر نے دو تین نوالے کھا کر بیوی سے کہا آج تم نے یہ کیا کھانا پکایا ہے ، مجھ سے کھایا نہیں جارہا ۔ بیگم بولی یہ تو وہی ہوا کہ ہم الزام ان کو دیتے تھے وہ میری طرف آیا ۔ غلطی تمہاری ہے اور غصہ مجھ پر ۔ میرے حلق سے بھی یہ نہیں اتررہا ۔ حیران ہو کر شوہر نے پوچھا اس میں میری کیا غلطی ہے ؟ کیا کھانا میں نے پکایا ہے ؟ بیوی نے برجستہ کہا وہ کھانا پکانے کی ترکیبوں والی کتاب تم نے ہی تو لاکر دی ہے ۔ اسی کی ایک ترکیب سے میں نے پکایا ہے ۔ اب اس میں قصور میرا ہے یا تمہارا ؟

جب باتیں ہورہی ہیں تو کئی واقعات یاد آنے لگے ۔ ایک مرتبہ میں بس سے اتر کر پیدل جارہی تھی ۔ بازو سے صاحب بہادر آفس کی کار میں گذر رہے تھے ۔ ڈرائیور نے گاڑی روکی ۔ صاحب نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا بیگم صاحبہ جارہی ہیں وہ بولے چلو یہ بیگم صاحبہ نہیں ۔ ان کے پاس ایسی ساری نہیں ، وہ بیچارہ آگے بڑھ گیا ۔ گھر آنے پر انھوں نے خود ہی اپنی اور ڈرائیور کی گفتگو سنائی اور معصومیت سے پوچھا آپ نے یہ ساری کب خریدی ۔ میں نے کہا آج معلوم ہوا آپ مجھے ساری سے پہچانتے ہیں ۔ آئندہ ساری پہننے سے پہلے آپ کو دکھادیا کروں گی ۔
کسی شوہر نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا بیگم میں نے آپ کی سب شکایتیں دور کردیں ۔آپ کا سب کام کردیا اور ترکاری بھی خرید کر لایا ہوں ۔ بیوی مسکراتے ہوئے بولی آج سمجھ میں آگیا کبھی کبھی کھوٹا سکہ بھی کام آجاتا ہے ۔

دوسروں سے زیادہ اپنے قصے سنائیں تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا اسلئے اپنی باتیں زیادہ سنارہی ہوں ۔ ایک بار تراب صاحب کسی کام سے دہلی گئے ۔ واپس آئے تو میرے لئے ایک کاٹن کی ساری لائے کیا بتاؤں کیسی تھی ۔ سب کچھ اس میں موجود ۔ مور ناچتا ہوا ، اس کے اطراف جامڑی کے مختلف ڈیزائن ، پیلا ، مرون ، کالا ، سفید رنگ چیکس میں بکھرا ہوا ، نہ پلو نہ باڈر ۔ میں نے کہا یہ کیسی عجیب ہے ۔ فخر سے بولے ایک بڑی فیشن ڈیزائنر نے پسند کی ہے ۔ میں نے بادل ناخواستہ لے کر صندوق میں رکھ دی ۔ زمانے کے بعد سوچا صندوق کے کپڑوں کو ہوا دینا چاہئے ۔ سب ساڑیاں نکال کر پلنگ پر رکھیں ۔ اتنے میں تراب صاحب کمرے میں داخل ہوئے ، ساریاں دیکھتے ہوئے وہی ساری اٹھالی اور کہا کتنی اچھی ہے ۔ میرے منہ سے نکلا مجھے اطمینان ہوگیا کہ اتنے سال بعد بھی آپ کی پسند نہیں بدلی ۔

ساری پر یاد آیا ۔ ایک دن ہم دونوں کار میں کہیں جارہے تھے ۔ بازو سے تین چار حسینائیں گذریں ۔ صاحب بہادر انھیں دیکھنے لگے پھر مڑ کر بھی نگاہیں ادھر ہی تھیں۔ میں نے کہا بیوی کے ساتھ رہ کر اتنی ہمت ، مان گئی ۔ سٹپٹا کر کہنے لگے آپ کے لئے ساری دیکھ رہا تھا میں نے کہا جانے دیجئے ۔ ہم سے ہوشیاری نہیں چلے گی ۔ آپ ڈال ڈال تو ہم پات پات ۔ ایسا ہی ایک اور میاں بیوی کا ذکر ہے کہ ایک شام میاں آفس سے گھر آئے جو کسی کمپنی کے منیجر تھے ۔ بیوی سے کہنے لگے تم یہ سن کر خوش ہوگی کہ میں نے ایک اسکیم بنائی ہے جس سے کمپنی کو ہر ماہ چار ہزار روپیے کی بچت ہوگی ۔ بیوی بولی میں سمجھ گئی تم استعفی دینے والے ہو ۔

بس اس پر اپنی بات ختم کرتی ہوں کہ آج کل کی طرح الیکشن کا زمانہ تھا ، ایک امیدوار کو صرف تین ووٹ ملے ۔ وہ دل شکستہ اپنے گھر آئے اور بیوی سے ہمدردی کے متمنی ہو کر حال سنایا ۔ بیوی یکدم بھڑک اٹھی اور بولی مجھے تو پہلے ہی شک تھا کہ تم کسی سے عشق لڑارہے ہو ۔ آج ثبوت مل گیا ۔مجھے بتاؤ کہ میرے ، تمہارے علاوہ تیسرا ووٹ دینے والی کون ہے ؟ خواتین کا مذاق اڑانے والوں کو دھیان رکھنا چاہئے کہ وہ ہتک عزت کا دعوی کرسکتی ہیں ۔