تیسرے فرنٹ کی آہٹ، قیادت کون کرے گا؟

نافع قدوائی

عام آدمی پارٹی کی طرف یو پی کے مسلمانوں کا جھکاؤ
ملک میں عام انتخابات کی اب الٹی گنتی شروع ہونے کو ہے۔ عام انتخابات کے بعد نریندر مودی وزیراعظم ہوں گے یا راہول گاندھی۔ ان قیاس آرائیوں کے درمیان بعض علاقائی پارٹیاں تیسرے فرنٹ کو الیکشن سے قبل یا الیکشن کے بعد تشکیل دے کر تیسرے فرنٹ کے کسی لیڈر کو وزیراعظم کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ تیسرے فرنٹ کی تشکیل پر آمادہ لیڈر خفیہ طریقہ سے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ اگرچہ مجوزہ تیسرے فرنٹ کی تشکیل کوئی آسان نہیں ہے پہلے تو یہ سوال ہیکہ اس ممکنہ مجوزہ تیسرے فرنٹ میں کون کون علاقائی پارٹیاں شامل ہوں گی؟ پھر اگر تیسرے فرنٹ کا خاکہ بن گیا تو اس فرنٹ کی قیادت کون کرے گا؟ تیسرے فرنٹ ابھی وجود میں نہیں آیا ہے لیکن مجوزہ فرنٹ کے دو بڑے لیڈروں نے قیادت کا دعویٰ مضبوطی سے پیش کردیا ہے۔ ان میں سماج وادی پارٹی کے سپریمو ملائم سنگھ یادو پہلے ہی سے قیادت کے دعویدار تھے، لیکن ان کی ممکنہ قیادت کو تملناڈو کی وزیراعلیٰ جے للیتا نے چیلنج کرکے تیسرا فرنٹ کی تشکیل کی راہوں کو دشوار اور مشکل بنادیا ہے۔ ملائم سنگھ یادو بہت پہلے سے نئی دہلی میں اپنے حق میں لابنگ کررہے تھے۔ اب جے للیتا نے بھی نئی دہلی میں اپنے لئے لابنگ شروع کردی ہے۔ تیسرے فرنٹ میں ترنمول کانگریس کی شمولیت کو یقینی مانا جارہا ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں ترنمول کانگریس کی صدر اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی خاموشی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مظفرنگر کے حالیہ فسادات، یو پی میں اکھیلیش یادو حکومت کی ناکامی کی بناء پر سماج وادی پارٹی کے سپریمو ملائم سنگھ یادو کا موقف قدرے کمزور ہوا ہے۔ گذشتہ الیکشن میں سماج وادی پارٹی نے لوک سبھا کی 80 سیٹوں میں سے 23 سیٹیں جیتی تھیں لیکن آج کی تاریخ میں سماج وادی پارٹی کے سب سے بڑے حمایتی مسلمانوں کے سماج وادی پارٹی سے ناراضگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب سماج وادی پارٹی کیلئے اپنی سابقہ سیٹوں کو برقرار رکھنا ہی دشوار نظر آنے لگا ہے۔ مظفرنگر کے ہولناک فسادات، پناہ گزین کیمپوں میںغیرانسانی سلوک کئے جانے، پناہ گزیں کیمپوں کو ہٹانے کیلئے اکھیلیش یادو حکومت نے جس طرح سے بلڈوزر چلوائے اور اس معاملے میں ملائم سنگھ یادو کے ہر روز بدلتے موقف، فساد زدہ علاقوں کا ملائم سنگھ یادو کا ابھی تک دورہ نہ کرنا، ان باتوں سے مسلمان اتنے خائف ہیں کہ انہیں نہ تو تیسرے فرنٹ کی تشکیل میں دلچسپی ہے اور نہ ملائم سنگھ یادو کے وزیراعظم کے دعویداری میں دلچسپی رہ گئی ہے۔ ملائم سنگھ یادو کے حق میں بائیں بازو کی جماعتیں ہیں لیکن ملائم سنگھ کی دشواری یہ ہے کہ وہ خود اپنی ریاست میں خاصے کمزور نظر آرہے ہیں جبکہ تملناڈو کی وزیراعلیٰ جے للیتا نے جنوبی ہند میں اپنی گرفت اور زیادہ مضبوط کرلی ہے۔ ان کے حق میں نوین پٹنائک، نتیش کمار، شرد یادو وغیرہ نظر آنے لگے ہیں۔ ممتابنرجی نے اس معاملے میں اب تک پتے نہیں کھولے ہیں۔ تیسرے فرنٹ میں عام آدمی پارٹی بھی شامل ہوسکتی ہے۔ مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کا جھکاؤ بھی عام آدمی پارٹی کی طرف بڑھتا جارہا ہے۔

اگرچہ ابھی کھل کر کوئی مسلم سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی کی حمایت ہی نہیں آئی ہے لیکن مسلمانوں کا رجحان اروند کجریوال کی طرف بڑھ رہا ہے حالانکہ دہلی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو نئی دہلی کے مسلمانوں نے ووٹ نہیں دیئے اور کانگریس کے جو 8 ممبران اسمبلی منتخب ہوکر آئے ہیں ان میں سے چار مسلم ممبران اسمبلی ہیں۔ یہ مسلم ممبران اسمبلی بھی کھل کر وزیراعلیٰ اروند کجریوال کے حق میں نہیں آئے ہیں۔ اروند کجریوال نے ریاست کے اقلیتی اداروں کو بھی فعال و متحرک نہیں کیا ہے۔ مسلمانوں کی ایک خودساختہ تنظیم زکوٰۃ فاونڈیشن جس نے لوک سبھا کے الیکشن سے قبل ہی ازخود سیاسی پارٹیوں کے سامنے مسلمانوں کے ایجنڈے کو پیش کیا ہے اس تنظیم اور اس کی ہمنوا مسلم تنظیموں نے اخبارات میں بڑے بڑے لاکھوں روپئے کے اشتہارات بھلے ہی چھپوا لئے ہیں لیکن ان کی نہ تو عام مسلمانوں میں کوئی اہمیت ہے اور نہ کوئی سیاسی جماعت ان کو اہمیت دینے کو تیار ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہیکہ اس کے پیش کردہ مسلم ایجنڈے کو تمام سیاسی پارٹیوں نے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ہے البتہ سنگھ پریوار کے حلقوں میں زکوٰۃ فاونڈیشن اور اس کی ہمنوا مسلم تنظیموں، لیڈروں کو اس لئے اہمیت دی جارہی ہے تاکہ مسلم ووٹ بکھر جائیں۔ مسلم ووٹوں کے بکھرنے کے آثار مظفرنگر کے حالیہ ہولناک فسادات کے بعد سے صاف نظر آرہے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت سماج وادی پارٹی، ملائم سنگھ یادو، اکھیلیش یادو سے کانگریس، سونیا گاندھی، راہول گاندھی، نتیش کمار وغیرہ سے ناراض ہے۔ ظاہر ہیکہ ایسے میں مسلمان کوئی نیا سیاسی تجربہ کرتے ہیں یا کسی سیکولر جماعت کو ووٹ دیتے ہیں تو اس کا پورا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہی ملے گا اور نریندر مودی اور ان کی ٹیم جو موقع کی تلاش میں ہے انہیں تو گویا مانگی مراد مل جائے گی۔ بہرحال عام انتخابات میں مسلمانوں کا سخت امتحان ہے۔ ان کی جذباتیت خود ان کے حق میں بے حد مضرت رساں ثابت ہوسکتی ہے۔

اگر مسلمانوں نے عام آدمی پارٹی کی طرف اپنی دلچسپی دکھائی اور اس کے امیدواروں کو ووٹ دیئے تو یہ ووٹ بھی بالواسطہ طور پر نریندر مودی کی ٹیم کے کھاتے میں جائیں گے کیونکہ عام آدمی پارٹی ابھی اس پوزیشن میں ہے ہی نہیں کہ وہ عام انتخابات لڑ سکے۔ ملائم سنگھ یادو ایک جہاندیدہ سیاست داں ہیں، لیکن اب ان پر عمر غالب آتی جارہی ہے۔ ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی پہلے کے مقابلے میں کم ہوتی جارہی ہے۔ وہ اپنے موقف پر زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکتے ہیں۔ کب ملائم سنگھ یادو کیا کہہ دیں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے مظفرنگر فسادات کے تعلق سے جو بے سرپیر کا بیان دیا اس سے مسلمانوں کو دلی تکلیف پہنچی۔ مظفرنگر کے مسلمانوں کے ساتھ خود ان کے بیٹے اکھیلیش یادو کی حکومت کیا کررہی ہے اس پر ملائم سنگھ یادو کی خاموشی نے مسلمانوں کو سماج وادی پارٹی سے 2004ء کے لوک سبھا کے الیکشن کی طرح جب ملائم سنگھ یادو نے بابری مسجد کے قاتل کلیان سنگھ کو اپنا اتحادی لیڈر بنا کر لوک سبھا کے الیکشن لڑا، مسلمانوں نے ملائم سنگھ کو کرارا جواب دیا اور سماج وادی پارٹی کو 2004ء کے پارلیمانی الیکشن میں سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کم و بیش یہی صورتحال 2014ء کے الیکشن میں نظر آرہی ہے۔ مسلمانوں کی حمایت سے محروم سماج وادی پارٹی کو 2014ء کے الیکشن میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اس کا اندازہ شاید ملائم سنگھ کو ہوگیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ابھی سے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اترپردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو نریندر مودی کی قیادت سے فائدہ پہنچے گا اور یو پی میں بی جے پی کی سیٹوں میں اضافہ ہوگا۔ حالانکہ مظفرنگر فسادات سے قبل تک ملائم سنگھ یادو پورے دم خم کے ساتھ یہ کہا کرتے تھے کہ اترپردیش گجرات نہیں ہے اور یو پی کی زمین نریندر مودی کیلئے بے حد سخت ہے۔ سماج وادی پارٹی نریندر مودی کے پیر یو پی میں جمنے نہیں دے گی لیکن اب ملائم کو مودی کی طاقت کا اندازہ ہوگیا ہے۔

اس لئے انہوں نے یہ کہہ کر یو پی میں نریندر مودی کی پارٹی کو زیادہ سیٹیں مل سکتی ہیں گویا اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس مرتبہ الیکشن میں اپنی تمام تر توجہ یوپی کے دیہی علاقوں پر مرکوز کر رکھی ہے۔ مودی کے معتمد خاص امیت شاہ نے بقول شخصے اپنے پہلے ہی ہلے میں مظفرنگر سمیت مغربی یوپی کے گاؤں گاؤں میں فرقہ وارانہ فسادات کی اتنی زبردست کھیتی کی کہ آج چار مہینے گزرنے کے بعد مغربی یو پی کے مسلمان اور جاٹ ایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک ہی گاؤں میں رہنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس زہر کو مزید بونے کیلئے امیت شاہ ان کی پارٹی پورے اترپردیش میں سرگرم ہے۔ بی جے پی کے گجراتی رضاکار دوردراز یو پی کے گاؤں گاؤں میں پھیل کر کسانوں سے ان کے پرانے زرعی اوزاروں کا پرانا لوہا، کھیتوں سے مٹی جمع کررہے ہیں تاکہ گجرات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کا دنیا میں سب سے اونچا مجسمہ نصب کیا جاسکا۔ اس مجسمہ کیلئے پرانا لوہا جمع کیا جارہا ہے۔ پرانے لوہے کو اسٹیل میں بدل کر سردار پٹیل کا مجسمہ نصب کیا جائے گا چونکہ یو پی میں پٹیل برادری پانچ فیصدی سے اوپر ہے۔ اس لئے بی جے پی سردار پٹیل کے مجسمہ کی آڑ میں ان کو اپنے رنگ میں رنگ رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی پوری شدت کے ساتھ پروپگنڈہ کررہی ہے کہ نریندر مودی کا تعلق چونکہ پسماندہ تیلی برادری سے ہے اور یہ پسماندہ برادریوں کیلئے سنہرا موقع ہے کہ نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ پسماندہ برادریوں کی اکثریت سماج وادی پارٹی نواز ہے۔ ایسے میں بی جے پی نے مودی جیسے پسماندہ لیڈر کو وزیراعظم کے طور پر پیش کرکے پسماندہ برادریوں کو سخت امتحان میں ڈال دیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے لکھنؤ میں 2 مارچ کو نریندر مودی کی بے مثال ریالی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس ریالی میں کم سے کم 10 لاکھ افراد کی شرکت کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر لکشمی چندر ترپاٹھی کے بموجب 2 مارچ کو لکھنؤ میں ریالی نہیں ریلا ہوگا اور اس روز پورا شہر چلتا رہے گا۔ سال نو کے ساتھ ہی تمام سیاسی پارٹیوں کی سیاسی سرگرمیاں بے حد بڑھ جائیں گی۔

بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو مایاوتی نے اپنی سالگرہ کے موقع پر 15 جنوری کو لکھنؤ میں بی ایس پی کی زبردست ریلی کرنے اور انتخابی بگل بجانے کا اعلان کیا ہے۔ مایاوتی نے مسلمانوں کو اپنے پالے میں کرنے کی مہم بھی چھیڑ دی ہے جس کے تحت پارٹی نے گذشتہ دنوں فساد زدہ مظفرنگر کے علاقوں، پناہ گزین کیمپوں کی حقیقت جاننے کیلئے سابق ریاستی وزیر نسیم الدین صدیقی، سوامی پرساد موریہ، رام اچل راج کی قیادت میں ایک وفد بھیجا ۔بی ایس پی کے اس وفد کو مظفرنگر کے مسلمانوں کے بعض تلخ سوالات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں نے بی ایس پی والوں سے پوچھا کہ آخر وہ چار مہینے تک ان سے دور کیوں رہے؟ ان کو اتنی دیر کے بعد مسلمانوں کا کیسے خیال آیا وغیرہ۔ مظفرنگر فسادات سماج وادی پارٹی کو لے ڈوبنے کیلئے کافی ہیں۔ اس صورتحال سے اپنی پارٹی کو بچانے کیلئے وزیراعلیٰ اکھیلیش یادو نے ریاست کے ڈائرکٹر جنرل پولیس کے عہدہ پر رضوان احمد آئی پی ایس کو تعینات کیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہیکہ جب اترپردیش میں پولیس کا سربراہ اعلیٰ کوئی مسلمان افسر بنا ہے۔ فی الوقت یو پی میں چیف سکریٹری بھی جاوید عثمانی ہیں۔ ان مسلم افسروں کی تعیناتی بھی اکھیلیش یادو حکومت سے مسلمانوں کی ناراضگی کو کم نہیں کرسکی ہے۔ سال نو بی ایس پی کے دو سابق وزراء نسیم الدین صدیقی اور بابو سنگھ کشواہا کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ سال نو کے دوسرے روز محکمہ دیجی لینس نے ان دونوں سابق وزراء سمیت 19 افراد کے خلاف کروڑوں روپئے کے گھپلے کے معاملے میں پولیس میں رپورٹ درج کرائی ہے۔ یاد رہے کہ سابقہ مایاوتی کے دورحکومت میں دلت لیڈروں کی جو سرکاری سطح پر یادگاریں قائم کی گئی تھیں ان میں کروڑوں روپئے کا گھپلا ہوا تھا، جس کی ابتدائی جانچ ریاست کے لوک آیوکت مسٹر جسٹس این کے مہروترا نے کی تھی۔ ان کی سفارش پر اکھیلیش حکومت نے ویجیلینس انکوائری کی۔ اب ان بدعنوان بے ایمان سیاستدانوں کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرادی گئی ہے۔ اب یہ لوگ کسی بھی وقت گرفتار کئے جاسکتے ہیں۔