تیسرا سیاسی محاذ۔ ڈوبنے والا جہاز

سید حمایت علی ناصر
جب کسی شیر کو پنجرہ میں بند کرنا مقصود ہوتو پنجرہ کے اندر ایک بکری کے بچہ کو باندھ دیا جاتا ہے جو شیر کی مرغوب غذا ہے اور جب شیر اس بکری کے بچہ کو کھانے کیلئے پنجرہ میں جاتا ہے تو اپنے آپ کو قید کرلیتا ہے۔ بیچارہ شیر دھوکہ کھاگیا بکری کے بچہ کو کھانے کیلئے ۔ اسی طرح جب چوہے گھر میں ہلڑ مچاتے ہیں تو چوہے دانی میں تیل میں ڈوبا ہوا روٹی کا ٹکڑا ڈال کر رکھ دیتے ہیں اور جب چوہا اُسے کھانے کیلئے چوہے دانی میں جاتا ہے تو وہ چاروں طرف سے بند ہوجاتا ہے، بیچارہ چوہا ۔ ایک روٹی کے ٹکڑے کو پانے دھوکہ کھا گیا۔
ان مثالوں سے یہ بات صاف ہوگئی کہ جب ہم کسی کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں یا اپنا فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو حالات کو حسین و خوبصورت بناکر باتوں کو حُسن و جمال کا پیکر دیکر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور عوام بھوکے شیر اور لالچی چوہے کی طرح دھوکہ پر دھوکہ کھاتے ہیں اور فریب کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بڑے جانوروں کا گوشت کھانے پر پابندی لگ گئی۔ گاؤں رکھشکوں کے ظلم و ستم، مار پیٹ، قتل و غارت گری کے واقعات رونما ہوگئے۔ چار سال اسی تگ و دو میں گذر گئے۔ لوگ وزیراعظم کو سمجھ گئے، عوام سے ان کی جھوٹی ہمدردی کو سمجھ گئے، آر ایس ایس کے پوشیدہ ایجنڈہ کو سمجھ گئے، مسلم اقلیت سے دشمنی کو سمجھ گئے، گاؤں رکھشکوں کی بربریت کو سمجھ گئے اور یہ بھی سمجھ گئے کہ بی جے پی کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ جھوٹ، فریب اور مکاری اس کا وطیرہ ہے۔ جھوٹی ہمدردی اور مگرمچھ کے آنسو اس کا شیوہ ہے۔ اس لئے عوام نے سنجیدگی سے اس بات کا فیصلہ لیا ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت کو کسی بھی قیمت میں ختم کرنا ہے … لیکن تلنگانہ کے ہردلعزیز وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ نے حالیہ پریس کانفرنس میں یہ اعلان کردیا کہ ملک میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی کی ضرورت ہے جو عوام کی خواہشات سے ہم آہنگ ہو، وہ چاہتے ہیں کہ ملک کی سیاست میں بی جے پی رہے نہ اس کا محاذ، کانگریس آئے نہ کانگریس کا محاذ آئے بلکہ تیسرے محاذ کو ہندوستان کی تقدیر سونپنا چاہتے ہیں۔

صرف اتنا ہی نہیں بلکہ تیسرے محاذ کی وہ قیادت بھی کرنا چاہتے ہیں۔کے سی آر جس طرح تلنگانہ کو سنہرہ تلنگانہ بنا نا چاہتے ہیں اُسی طرح ہندوستان کو سنہرہ ہندوستان بنانا چاہتے ہیں جبکہ ہندوستان ایک صدی سے سونے کی چڑیا کہلاتا ہے۔ انہوں نے اپنی خواہش ظاہر کی ہے کہ اگر ایک بار انہیں وزیر اعظم کے عہدہ کی ذمہ داری دی جائے تو وہ بحسن و خوبی اس عہدہ سے انصاف کریں گے۔ انہوں نے تمام قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں سے خواہش کی ہے کہ ان کی اس خواہش پر سنجیدگی سے غور کریں۔ معلوم ہوا ہے کہ اس خواہش پر زبردست ردِ عمل ظاہر ہوا ہے۔ بنگال کی ممتا بنرجی، آندھرا پردیش کے چندرا بابو نائیڈواور پون کلیان، جھارکھنڈ کا مکتی مورچہ، اجیت جوگی اور حیدرآباد کی مسلم جماعت وغیرہ نے اس آواز پر لبیک کہا ہے۔ اب قابلِ غور بات یہ ہے کہ کے سی آر کے پختہ ذہن میں یہ کمزور اور آموختہ والی بات کیسے آگئی۔؟ پہلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ جس طرح چنا ریڈی نے تلنگانہ تحریک کو مردہ کردیا تھا ، کسے سی آر نے خطرہ مول لیتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کے عہدہ کو چھوڑ کر اس تحریک میں نئی جان ڈالی اور کامیاب ہوگئے اور آج تلنگانہ کے ہردلعزیز وزیر اعلیٰ کہلا رہے ہیں۔ اسی طرح تلنگانہ کی سیاست کو کے ٹی آر کے حوالے کرتے ہوئے مردہ تیسرے محاذ کو زندہ کرکے وزیر اعظم بننے کا خطرہ مول لینا چاہتے ہیں۔ تیسری اہم وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کے سی آر نے چار سال قبل ریاست کے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اقتدار پر آگئے تو چار مہینوں کے اندر مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات دیں گے جس سے مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی اور معاشی ترقی عروج پر پہنچ جائے گی۔ لیکن چار سال بعد بھی یہ وعدہ ایفا نہ ہوسکا۔ کیونکہ مرکز میں مسلمانوں کی دشمن بی جے پی کی حکومت ہے جو 12 فیصد تو کُجا ایک فیصد بھی تحفظات اضافی دینے تیار نہیں ہے۔

اب یہ تحفظات کے سی آر کے حلق کی ہڈی بن گئے ہیں جو نگلے جاسکتی ہے نہ اُگلے جاسکتی ہے۔ تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر جو ’’ پرجا چیتنیہ ‘‘ یاترا پر ہیں کہا کہ کے سی آر نے عوام کے ذہنوں کو منتشر کرنے کیلئے تیسرے سیاسی محاذ کا شوشہ چھوڑا ہے جو یقیناً تماشہ سے کم نہیں۔ تیسرا محاذ ایک ڈوبتا جہاز ہے۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر نہیں۔ یہ بارش کی دم توڑتی بوندوں سے بننے والا بلبلہ ہے جس کی زندگی کا وقت صرف ایک لمحہ یا دو لمحے ہوتا ہے۔ یہ ایسا مجوزہ اتحاد ہے جو انتشار کی سمت لے جاتا ہے۔ مختلف پھولوں کا گلدستہ خوشنما ہوسکتا ہے لیکن مختلف اُصولوں کی پارٹیوں کا راستہ منزل کو پا نہیں سکتا۔ ماضی میں ایسے تیسرے محاذ بنتے بنتے بگڑ گئے اور جو بنے سُکڑ گئے۔ کے سی آر کا یہ خیال ہوگا کہ مسلم تحفظات کا وعدہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت نے پورا نہیں کیا اس لئے وہ بی جے پی سے انتقام لینے کیلئے تیسرے محاذ کی قیادت کرتے ہوئے وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں اور خود وزیر اعظم کی حیثیت سے 12 فیصد تحفظآت دینا چاہتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے یعنی تیسرا محاذ نہ تو کامیاب ہوگا اور نہ ہی مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات ملیں گے۔ دلّی صرف دور نہیں بلکہ بہت دور ہے۔ تیسرے محاذ کے ناکام ہونے پر کے سی آر یہ کہیں گے کہ میں نے بہت کوشش کی۔ ہمارا ملک تیزی کے ساتھ دو جماعتی سیاسی نظام کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ دو جماعتیں یا پارٹیاں ہیں بی جے پی اور کانگریس۔ بی جے پی صد فیصد غیر سیکولر، فرقہ پرست اور مسلم دشمن ہے جبکہ کانگریس صد فیصد سیکولر ، قوم پرست اور مسلم دوست ہے۔ ان دو پارٹیوں میں سے کسی ایک پارٹی کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔ اگر آپ بی جے پی کے کارناموں سے خوش ہیں تو یقیناً 2019 میں دوبارہ حکومت کا موقع دینا چاہیئے۔ اگر آپ کانگریس سے اچھی توقعات رکھتے ہیں( مجبوراً ہی سہی ) تو کانگریس کو مرکز میں اقتدار سونپنا چاہیئے۔ اگر آپ ملک میں فرقہ پرستی کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو بے شک بی جے پی کا ساتھ دیجئے تاکہ فرقہ پرستوں کا وکاس ہو۔ اگر آپ ملک میں سیکولرازم کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو کانگریس کو کامیاب کیجئے اور یو پی اے کا حصہ بنئے۔ آپ کے سامنے صرف دو راستے ہیں۔ تیسرا راستہ آپ کو صحرا اور ویرانوں میں لے جائیگا۔ ویرانوں میں رہنے والے بہاروں سے بہاروں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔ کانٹوں سے اُلجھنے والے پھولوں کی تمنا نہیں کرتے یہ نادانی ہے۔ جس طرح ہر مرض کی دوا زندہ طلسمات کہتے ہیں اسی طرح ہر مسئلہ کا حل صرف کانگریس اور یو پی اے کا اتحاد ہے جس کی قیادت کانگریس کرتے چلے آرہی ہے ، اس کی افادیت سے انکار نادانی ہے۔ پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کی اطلاعات کے بموجب شری شری روی شنکر نے زبردست دھمکی دی ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ مسجد کے حق میں بھی آتا ہے تو مندر ہی بنے گا ورنہ ملک میں فسادات اور خانہ جنگی شروع ہوجائیگی اور ملک یعنی ہندوستان دوسرا شام بن جائے گا۔ کیا ایسے حالات کو تیسرا محاذ سنبھال پائے گا۔؟

بالکل نہیں۔ تیسرا محاذ عوام کیلئے خاص طور پر مسلمانوں کیلئے ڈوبتا جہاز ثابت ہوگا۔ تیسرے محاذ کے چاہنے والے بشمول مسلم رہنماؤں کو چاہیئے کہ وہ ایسی دھمکیوں کے جواب پیش کریں۔ تیسرے محاذ کی کوشش صرف بی جے پی کو استحکام بخشنا ہے۔ چلیئے اس محاذ کو قائم تو ہونے دیجئے آپ ہی دیکھیں گے کہ بی جے پی 2019 میں کس آن و بان سے اقتدار پر لوٹے گی اور مودی جی دوبارہ ہنستے مسکراتے دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں گے۔ کے سی آر یا کے ٹی آر وزیر اعلیٰ ہوں گے، مسلم جماعت اپنے مقام پر قائم رہے گی اور مسلمانوں کے حصہ میں تحفظات سے محرومی آئے گی۔ کیا ہم یہی چاہتے ہیں؟ ۔ اب مسلمانوں کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے، انہیں خوش کرنے کیلئے ہمارے رہنما تحفظات کے نام پر ، شریعت میں مداخلت کے نام پر یکساں سیول کوڈ کے نام پر، طلاق ثلاثہ کے نام پر جلسے و جلوس نکالیں گے۔ بی جے پی کو بُرا کہیں گے اور تھک کر خاموش ہوجائیں گے یا پھر مزید پانچ برس تک آپکو بہلاتے رہیں گے۔ اب آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کانگریس کے ساتھ رہیں گے یا بی جے پی کے ساتھ، یا پھر تیسرے محاذ کے ساتھ۔ تیسرے محاذ کا قیام یا کوشش بالکلیہ بی جے پی کی مدد کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 2019 کے انتخابات میں نہ تیسرا محاذ کامیاب ہوگا نہ کے سی آر وزیر اعظم بنیں گے اور نہ ہی مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات ملیں گے۔ اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ ان کے تحفظات میں اضافہ ہو تو صرف کانگریس کو ہی مرکز میں اقتدار پر لانا ہوگا۔ جس طرح کانگریس نے تلنگانہ کا تحفہ دیا ہے اسی طرح تحفظات میں اضافہ کا تحفہ بھی کانگریس ہی دے گی۔ ملک میں امن، شانتی، بھائی چارگی اور رواداری چاہتے ہیں تو آپ کو کانگریس پارٹی کا ہاتھ تھامنا ہوگا۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی مضمر ہے ۔
اب آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ کس کے ساتھ رہیں گے، اور کیا چاہتے ہیں، کیونکہ جو بوئیںگے وہ پائیں گے۔ بعد ازاں ہاتھ ملنے سے، دانتوں کے بیچ زبان رکھنے سے، ہاتھوں سے پیشانی تھامنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ سوچئے، سمجھئے اور صحیح فیصلہ لیجئے کیونکہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔