تہذیبی ورثہ کے تحفظ فراہمی اقدامات میں حکومت کی خاموشی

اسمبلی و کونسل میں بل کی منظوری کے باوجود عمل آوری ندارد ، کمیٹیوں کے باوجود ارکان کی عدم نامزدگی
حیدرآباد۔ 29ڈسمبر(سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ نے ریاست میں آثار قدیمہ اور تہذیبی ورثہ کے تحفظ کیلئے تلنگانہ ہیریٹیج (پروٹیکشن ‘ پریزرویشن‘ کنزرویشن اینڈ مینٹیننس ) ایکٹ 2017کو منظور کرتے ہوئے ریاست میں موجود تہذیبی ورثہ کو تحفظ فراہم کرنے کے متعلق اقدامات کا اعلان کیا تھا لیکن اس ایکٹ کو روشناس کروائے جانے کے بعد سے اب تک اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اور نہ ہی ریاستی و ضلعی سطح پر اب تک اس سلسلہ میں کوئی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ جاریہ سال کے اوائل میں حکومت نے ایوان اسمبلی و قانون ساز کونسل میں یہ بل روشناس کرواتے ہوئے اسے منظوری دلوائی تھی اور ایکٹ بناتے ہوئے اس پر عمل آوری کا اعلان کیا گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے بنائے گئے اس قانون کے اعتبار سے اس سلسلہ میں کاروائی کی مجاز کمیٹی کا نگران بہ اعتبار عہدہ چیف سیکریٹری کو بنایا گیا ہے او راس میں دیگر متعلقہ محکمہ جات کے عہدیداروں کو شامل رکھنے کے علاوہ دو دیگر ارکان کی نامزدگی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن ان ارکان کی نامزدگی کا مسئلہ بھی جوں کا توں رکھا گیا ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کو ریاست میں موجود تہذیبی ورثہ کے تحفظ میں کس حد تک دلچسپی ہے۔ حکومت آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے تحت موجود تاریخی عمارتوں کی فہرست کے علاوہ ایکٹ کے مطابق ریاستی محکمہ آرکیالوجیکل و میوزیم کے تحت ریاست کے تمام تہذیبی مقامات اور تاریخی عمارتوں کی فہرست کی تیاری عمل میں لائی جانی تھی لیکن اس عمل کو بھی اب تک مکمل نہیں کیا گیا ہے۔ شہرحیدرآباد کے علاوہ ریاست تلنگانہ کے مختلف اضلاع میں بھی تاریخی عمارتیں موجود ہیں لیکن ان تاریخی عمارتوں کی مکمل فہرست کی تیاری اور ان کی تاریخ کے متعلق معلومات کی فراہمی کے سلسلہ میں ایک سال کے دوران کوئی پیشرفت نہ ہونے کے نتیجہ میں صورتحال جوں کی توں برقرار ہے اور شہر حیدرآباد کی تاریخی عمارتوں کا ہی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ شہر میں کئی تاریخی عمارتوں کے منہدم ہونے یا ان کی تباہی کا انتظار کیا جانے لگا ہے تاکہ ان کی تباہی کے بعد ان کی از سرنو تعمیر یا آہک پاشی کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں تاریخی عمارتوں بالخصوص دیوڑھیوں اور حویلیوں کی مخدوش حالت پر کاروائی کے بجائے انہیں تباہ ہونے دیا جا رہا ہے ۔ تاریخی عمارتوں کے تحفظ کیلئے کی گئی قانون سازی کو مؤثر بنانے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کو عملی جامہ پہنائے جانے کی صورت میں شہر کے علاوہ اضلاع میں موجود تاریخی و تہذیبی ورثہ کے تحفظ کو ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تاریخی و تہذیبی عمارتوں کے تحفظ کے سلسلہ میں کی گئی قانون سازی کے مطابق اگر ضلع واری اساس پر کمیٹیوں کو متحرک کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں تاریخی عمارتوں کا تحفظ ممکن ہو سکتا ہے لیکن ان کمیٹیوں کو متحرک نہ کئے جانے کے سبب صورتحال جوں کی توں برقرار ہے۔