تو جو چاہے تو ترا جھوٹ بھی بِک سکتا ہے

رشیدالدین

دہلی میں مودی لہر بھی کمزور
اوباما بنے عیسائی مشنریز کے ترجمان

نریندر مودی کی مقبولیت پر سوار ہوکر ریاستوں میں کامیابی کی منزلیں طئے کرنے والی بی جے پی کو نئی دہلی میں بریک لگتا دکھائی دے رہا ہے۔ اب جبکہ نئی دہلی اسمبلی انتخابات کی رائے دہی کیلئے صرف ایک ہفتہ باقی ہے، لیکن وہاں ماحول بی جے پی کیلئے سازگار دکھائی نہیں دیتا۔ نئی دہلی کے رائے دہندے 7 فروری کو دہلی کی گدی کے جانشین کا انتخاب کردیں گے۔ بی جے پی نے چیف منسٹر کے عہدہ کی امیدوار کرن بیدی سے جو توقعات وابستہ کی تھیں، انتخابی مہم میں عوامی ردعمل اور الیکشن سروے کے نتائج سے بی جے پی مایوس دکھائی دے رہی ہے۔ دہلی میں لوک سبھا کی تمام نشستوں پر کامیابی کے باوجود اسمبلی انتخابات میں ناقص مظاہرے کے اندیشوں نے قومی قیادت کو میدان میں اترنے پر مجبور کردیا۔ دہلی انتخابات بی جے پی کیلئے کڑی آزمائش ہیں جہاں عام آدمی پارٹی کے اروند کجریوال نے بی جے پی قیادت کی نیند اڑادی ہے ۔ بی جے پی کو ایک طرف دہلی کو حاصل کرنا ہے تو دوسری طرف نریندر مودی لہر کو بھی بچانا ہے تاکہ آنے والے دنوں میں تین بڑی ریاستوں کے انتخابات میں فائدہ ہو۔ بی جے پی نے دہلی میں کامیابی کیلئے کرن بیدی کو ٹرم کارڈ کے طور پر اتارا۔ ان کی مقبولیت کا پول انتخابی سروے میں کھلنے لگا ہے۔ انتخابی مہم کے باقی دنوں میں جیت کیلئے بی جے پی کسی بھی حد تک جاسکتی ہے اور اب تو مرکز میں اس کی سرکار بھی ہے۔ بی جے پی کیلئے امید کی آخری کرن وزیراعظم نریندر مودی ہیں جن کی انتخابی ریالیاں ابھی باقی ہیں۔ دہلی انتخابی مہم کے دوران امریکی صدر براک اوباما کے دورہ کو بھی بی جے پی نے انتخابی فائدہ کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ چائے پر چرچہ اور ریڈیو پروگرام من کی بات میں مودی کے ساتھ اوباما کا شرکت کرنا محض حکمت عملی کا حصہ تھا۔ باوجود اس کے دہلی میں بی جے پی کی حالت ٹھیک نہیں۔ مودی کے سپہ سالار امیت شاہ جو حکمت عملی کی تیاری کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں، دہلی کے عوام کے آگے ان کی ہوا بھی بگڑی ہوئی ہے۔ کئی میڈیا اداروں نے دہلی کے سیاسی مستقبل کے بارے میں سروے کیا، جن میں زیادہ تر سروے دوبارہ معلق اسمبلی کے حق میں آئے ہیں جبکہ بعض میں اروند کجریوال کی برتری کا اشارہ دیا گیا ہے۔

مودی۔اوباما مقبولیت کے بے اثر ثابت ہونے سے پریشان بی جے پی نے پارٹی صدر امیت شاہ کی قیادت میں ساری طاقت جھونک دی ہے۔ 19 مرکزی وزراء ، 120 ارکان پارلیمنٹ اور مدھیہ پردیش و ہریانہ کے چیف منسٹرس کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ تمام اہم شخصیتیں دہلی میں 250 انتخابی جلسوں سے خطاب کریں گی۔ بی جے پی کے اندرونی سروے بھی اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ جاریہ انتخابات 2013 ء سے زیادہ سخت ہیں۔ تاہم بی جے پی کا کانگریس پارٹی پر انحصار ہے کہ وہ سیکولر ووٹ تقسیم کرتے ہوئے بی جے پی کیلئے راستہ ہموار کرے گی۔ کرن بیدی کے بعض تبصرے خود بھی بی جے پی کے لئے مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔ انتخابات کی خصوصیت یہ ہے کہ اس مرتبہ کانگریس پارٹی گزشتہ کے مقابلہ زیادہ مضبوط دکھائی دے رہی ہے۔ اجئے ماکن کی قیادت میں پوری طاقت اور صلاحیتوں کو جھونک دیا گیا۔ مودی کی مقبولیت کی لہر سے دہلی کی تمام لوک سبھا نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی کو کرن بیدی جیسے کمزور سہارے کی ضرورت پڑگئی ۔ اگر مودی کا جادو سر چڑھ کر بولتا تو شائد کرن بیدی چیف منسٹر کے عہدہ کی امیدوار نہ ہوتیں۔ جس دن کرن بیدی نے ارون کجریوال سے راست مقابلہ سے گریز کیا ، اسی دن عوام سمجھ گئے کہ بی جے پی کے اچھے دن قریب نہیں ہے۔ مرکزی حکومت کی 8 ماہ کی کارکردگی پر دہلی کے نتائج ریفرنڈم کی طرح ہوں گے۔ اگرچہ اسمبلی چناؤ مقامی سطح کے مسائل کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں لیکن مرکز میں اقتدار کے باوجود بی جے پی حکومت دہلی کے عوام کو کوئی راحت پہنچانے میں ناکام ثابت ہوئی ۔ قومی سطح پر بھی حکومت کی مایوس کن کارکردگی بی جے پی کیلئے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ رائے دہی کیلئے ابھی چند دن باقی ہیں۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی صورتحال بدلنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادے گی۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ نریندر مودی انتخابی ریالیوں میں کیا رنگ دکھائیں گے۔

دوسری طرف اروند کجریوال کی شخصی مقبولیت جس طرح گزشتہ انتخابات میں تھی ، وہ اب بھی برقرار ہے۔ اوپنین پول کے مطابق وہ دہلی میں نریندر مودی سے زیادہ مقبول ہیں اور چیف منسٹر کی حیثیت سے عوامی پسند میں انہوں نے کرن بیدی کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بی جے پی کو خوف ہے کہ دہلی میں شکست کی صورت میں اس کا اثر بہار ، مغربی بنگال اور اترپردیش کے چناؤ پر پڑے گا۔ دہلی کی سرگرم انتخابی مہم کے دوران جہدکار انا ہزارے نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے بی جے پی کی مشکل میں اضافہ کردیا۔ اگرچہ انا ہزارے اندرونی طور پر بی جے پی کے ہمدرد ہیں لیکن خود کو غیر جانبدار پیش کرنے کی چکر میں خود اپنے جال میں پھنس گئے۔ آخر کار انہیں مودی حکومت پر کالے دھن کی واپسی اور لوک پال جیسے مسائل پر وعدوں سے انحراف کی شکایت کرنی پڑی۔ ان کا یہ کہنا کہ ہر شہری کے کھاتے میں 15 لاکھ تو کیا 15 روپئے بھی نہیں آئے، اس سے اروند کجریوال کو نئی طاقت ملی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انا ہزارے بی جے پی کے ہمدرد ہونے کا دھبہ مٹانا چاہتے تھے لیکن یہ چال الٹی پڑ گئی۔ اگرچہ انہوں نے کجریوال اور کرن بیدی کو یکساں طور پر نشانہ بنایا لیکن زیادہ نقصان بی جے پی کا ہوگا ۔

نئی دہلی کے چناؤ میں مسلم اور دیگر سیکولر ووٹس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امیت شاہ نے پارٹی کی داخلی میٹنگ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ سیکولر ووٹ عام آدمی پارٹی کے حق میں جاسکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کانگریس پارٹی سیکولر ووٹ تقسیم کرتی ہے تو اس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ ان حالات میں نئی دہلی میں مسلم قیادت کے دعویداروں کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ سیکولر ووٹ توازن قوت کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی تقسیم بی جے پی کے لئے فائدہ مند دکھائی دے رہی ہے۔ ان حالات میں قیادت اور رہنمائی کا دعویٰ کرنے والے شاہی امام نے ابھی تک اپنی زبان نہیں کھولی۔ ملک کے دیگر علاقوں میں مسلمانوں کی رہنمائی میں پیش پیش دکھائی دینے والے شاہی امام آج کیوں خاموش ہیں جبکہ انتخابات ان کی ناک کے نیچے ہورہے ہیں اور دہلی کے سیکولر ووٹس کو تقسیم سے بچانا ان کی ذمہ داری ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ مسلمانوں کی رہنمائی کریں کہ اپنے ووٹ کا استعمال کس پارٹی کے حق میں کریں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی خاموشی بی جے پی کے حق میں خاموش تائید ہو۔ اگرچہ مذہبی شخصیتوں کو سیاست میں مداخلت سے دور رہنا چاہئے لیکن شاہی امام تو ہمیشہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا پرچم تھامے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق 70 رکنی نئی دہلی اسمبلی میں تقریباً 35 نشستوں پر اقلیتیں اور کمزور طبقات بادشاہ گر کے موقف میں ہیں۔ویسے بھی مذہبی قیادتوں کی سیاسی مسائل میں بارہا مداخلت کے سبب عوام کا ان پر اعتماد متزلزل ہوچکا ہے۔ دہلی انتخابی مہم کے دوران ہندوستان کا دورہ کرنے والے امریکی صدر براک اوباما نے واپسی سے قبل ہندوستان کو مذہبی رواداری اور مذہبی آزادی کا درس دیا۔ اگرچہ ہندوستان کے دستور میں یہ آزادی پہلے ہی سے موجود ہے، اس کے باوجود اوباما کی جانب سے حکومت کو یاد دہانی کرانا معنیٰ خیز ہے۔ آخر انہوں نے ہندوستان کے اس داخلی معاملہ میں کیوں رائے زنی کی؟ اوباما کے بجائے اگر کوئی اور ملک بالخصوص پڑوسی ملک کی جانب سے اس طرح کی نصیحت کی جاتی تو ظاہر ہے کہ نریندر مودی حکومت کا موقف مختلف ہوتا۔ اپوزیشن جماعتیں اوباما کی اس رائے کو سنگھ پریوار کی حالیہ سرگرمیوں کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر نے اس نصیحت کے ذریعہ درپردہ عیسائی مشنریز کی تائید کی اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان میں سنگھ پریوار کا اصل نشانہ عیسائی مشنریز ہیں جو منصوبہ بند انداز میں تبدیلی مذہب کا کام انجام دیتے ہیں۔ مذہبی آزادی کا درس دیکر اوباما نے پوپ پال کے ایجنڈہ پر عمل کیا اور ان کے ترجمان کی طرح رول نبھایا۔ مغربی بنگال اور کیرالا میں گزشتہ دنوں سنگھ پریوار نے ان ہندو خاندانوں کو ہندوازم میں واپس لانے کا کام کیا جو عیسائی بن چکے تھے۔ اوباما کا اشارہ دراصل سنگھ پریوار کی مخالف عیسائی مشنریز مہم کی طرف تھا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں تبدیلی مذہب کا جائزہ لیں تو زیادہ تر سرگرمیاں کرسچین مشنریز کی دکھائی دیتی ہیں جن کا نشانہ دلت اور کمزور طبقات ہیں۔ اوباما کی آمد سے قبل سنگھ پریوار کی زباں بندی کی گئی

اور ان کی واپسی کے ساتھ ہی کیرالا اور مغربی بنگال میں گھر واپسی پروگرام کئے گئے۔ دراصل اوباما نے مودی حکومت کو عیسائی مشنریز کی سرگرمیوں پر روک لگانے کے خلاف نصیحت کی ہے۔ مودی کی واپسی کے ساتھ ہی سنگھ پریوار جارحانہ فرقہ پرستی کی مہم پر واپس ہوچکا ہے۔ رام مندر کی تعمیر اور دستور ہند سے سیکولر اور سوشلسٹ جیسے الفاظ کو حذف کرنے جیسے بیانات منظر عام پر آئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دستور ہند سے سیکولر اور سوشلسٹ الفاظ کو حذف کیا جائے تو کیا ان کی جگہ کمیونل اور کارپوریٹ کو شامل کیا جانا چاہئے ؟ دہلی کے انتخابات میں فائدہ کیلئے جارحانہ فرقہ پرستی کی مہم کا دوبارہ آغاز کردیا گیا۔ دستور ہند کی کئی دفعات پر سنگھ پریوار کو پہلے ہی سے اعتراض ہے اور اگر اس کا بس چلے تو وہ دستور کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ہندو راشٹر کا اعلان کردیں گے۔ امریکی انٹلیجنس کی تازہ رپورٹ ہندوستانی انٹلیجنس اور پولیس ایجنسیوں کی اس مہم کی نفی کرتی ہے جس میں مسلم نوجوانوں پر اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ امریکی انٹلیجنس نے بتایا کہ ISIS میں ایک بھی ہندوستانی شامل نہیں۔اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ہندوستان کے کئی علاقوں میں مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانے کی کوششیں باعث تشویش ہیں۔کئی علاقوں میں مسلم نوجوانوں کو اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت کے نام پر گرفتار کیا گیا، ان کے رشتہ داروں اور دوست احباب کو پولیس کی ہراسانی کا سامنا ہے۔ اب جبکہ امریکہ خود ہندوستانی مسلمانوں کی ISISمیں شمولیت سے انکار کر رہا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ مسلم نوجوانوں کی ہراسانی کا سلسلہ بند کرے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
تو جو چاہے تو ترا جھوٹ بھی بِک سکتا ہے
شرط اتنی ہے کہ سونے کی ترازو رکھ لے