توہین رسالتؐ کی مرتکب آسیہ بی بی کو کئی ممالک سے پناہ کی پیشکش

جان کی دھمکیوں کے پیش نظر پاکستان سے بیرون ملک منتقلی کا امکان
شوہر عاشق مسیح کی برطانیہ سے پاکستان آمد، دوسرے دن بھی احتجاج جاری
وزیراعظم عمران خان کا سخت گیروں کو انتباہ
اسلام آباد ۔ یکم ؍ نومبر (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان میں اس وقت حالات ابتر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ عدالت نے توہین رسالتؐ کی مرتکب آسیہ بی بی کو بری کردیا تھا اور اس فیصلہ کے خلاف احتجاج دوسرے روز میں داخل ہوگیا حالانکہ وزیراعظم عمران خان نے احتجاج کرنے والوں کو سخت انتباہ بھی دیا ہے۔ 47 سالہ آسیہ بی بی جو چار بچوں کی ماں ہے، 2010ء میں توہین رسالتؐ کی مرتکب ہوئی تھی جو دراصل اس کے پڑوسیوں کے ساتھ ہوئے ایک جھگڑے کا نتیجہ تھا۔ اس نے گذشتہ 8 سالوں میں جیل میں زیادہ تر وقت قید تنہائی میں گزارا ہے اور ہمیشہ سے خود کو بے قصور ہی کہتی آئی ہے۔ چہارشنبہ کو سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ملک گیر پیمانے پر احتجاجیوں کو سڑک پر آنے پر مجبور کردیا جبکہ سخت گیر گروپس کی جانب سے آسیہ بی بی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جانے لگی۔ آسیہ بی بی کو ناکافی ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر بری کردیا گیا۔ تحریک لبیک پاکستان اور دیگر گروپس نے سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی احتجاج شروع کردیا اور ملک کے مختلف علاقوں میں راستہ روکو احتجاج منظم کیا جس سے ٹریفک بہاؤ میں شدید خلل پیدا ہوا۔ احتجاج کے سب سے زیادہ اثرات کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دیکھے گئے جہاں ہزاروں احتجاجیوں نے اہم سڑکوں پر ٹریفک بہاؤ کو روک دیا ۔صوبہ پنجاب میں احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکولس کو ایک روزہ تعطیل اور ایس ایس سی کے سپلیمنٹری امتحانات کو ملتوی کردیا ہے۔ سندھ اور خیبرپختونخواہ میں بھی بند کا اعلان کیا گیا البتہ اسلام آباد میں تعلیمی ادارے حسب معمول کھلے رہے۔ علاوہ ازیں ملک کے دیگر علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ خدمات بھی معطل رہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے سخت گیر عناصر کو انتباہ دیا ہیکہ وہ تشدد برپا کرنے سے باز رہیں اور حکومت کے ساتھ ٹکراؤ کا موقف اختیار نہ کریں۔ دریں اثناء یہ کہا جارہا ہیکہ عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو دی جانے والی دھمکیوں کے پیش نظر اسے پاکستان سے باہر بھیجا جاسکتا ہے۔ آسیہ بی بی کا شوہر عاشق مسیح برطانیہ سے اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان پہنچ چکا ہے۔ دی نیوز نے مختلف ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بات کہی۔ پاکستانی عہدیداروں کا بھی یہی کہنا ہیکہ دھمکیوں کے پیش نظر آسیہ بی بی کو پاکستان سے باہر روانہ کیا جاسکتا ہے تاہم اب تک یہ معلوم نہیں ہوا ہیکہ وہ کس ملک کو جائے گی کیونکہ متعدد ممالک بشمول کینیڈا نے آسیہ بی بی کو پناہ کی پیشکش کی ہے۔ آسیہ بی بی کی رہائی کے قطعی وقت کا انکشاف سیکوریٹی وجوہات کی بنیاد پر نہیں کیا گیا۔ فی الحال اسے لاہور کے قریب شیخوپورہ جیل میں رکھا گیا ہے۔ یاد رہیکہ توہین رسالتؐ قانون کو 1980ء کے دہے میں سابق فوجی حکمراں ضیاء الحق کے زمانے میں وضع کیا گیا تھا جس کی رو سے توہین رسالتؐ کے مرتکب شخص کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ آسیہ بی بی اسی قانون کے تحت سزائے موت پانے والی پہلی خاتون تھی تاہم اس کی سزائے موت کو کالعدم کردیا گیا۔