تم کس کی بین پر مست جھوم رہے ہو…

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
تلنگانہ میں پورے امن و سکون کے ساتھ لو ٹ مار مچی ہوئی ہے، سرکاری دواخانوں ، خانگی کارپوریٹ ہاسپٹلس ، اسکولوں، بازاروں اور الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں عوام کو ہی لوٹ لینے کے ہنر مندوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ جرائم سے پاک ریاست بنانے میں وہ کامیاب ہورہی ہے ، مگر ہر روز مجرمین کی گرفتاریاں، دھوکہ بازوں کے خلاف شکایات کا انبار لگتا ہے۔ صحت عامہ کا مسئلہ سنگین ہے ، خانگی دواخانوں میں مریضوں سے زیادہ ان کے رشتہ داروں کے بینک اکاؤنٹ خالی کرنے اور کئی دنوں تک مریض کو آئی سی یو میں رکھ کر نعش کو وینٹی لیٹر کی ضرورت ظاہر کرکے رشتہ داروں اور لواحقین کو بے وقوف بنایا جاتا رہتا ہے، اور کہتے ہیں کہ بس دعا کرو۔ سفید کوٹ پہن کر ڈاکرس آئی سی یو کے اندر باہر ہوتے رہتے ہیں یا ہر ویزٹ کرنے والا ڈاکٹر مریض یا مردہ کی نعش پر اپنا بل تیار کرتا رہتا ہے۔ آئی سی یو کے باہر مریض کے لواحقین بے صبری و بے چینی سے اپنا بینک اکاؤنٹ خالی کرکے مردہ کو دفن کرنے خالی قبر کی قیمت معلوم کرنے کیلئے قبرستانوں کو دوڑ لگاتے ہیں۔ قبرستانوں کے ٹھیکہ دار بھی اس وقت خالص بزنس ہی کرتے ہیں، اور ایسے میں لواحقین اندازہ لگاتے ہیں کہ زندگی مہنگی پڑے گی یا موت۔ پھر وہ خالی جیب اور بھاری دل کے ساتھ موت پر ایمان لے آتے ہیں، اپنا مردہ قبرستان لے جاتے ہیں۔ پھول کی چادر چڑھانا ہو تو پھول والے بھی اپنی خالص تجارت کی بنیاد پر چادر کی قیمت لگاتے ہیں۔ موقع کو غنیمت جان کر کفن فروش اور غسال بھی اپنی جیب بھاری کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ یہ زندگی کی روزمرہ کی حقیقت ہے یہ مافیا ہے سماجی مافیا ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ اسکولوں میں ابھی تعلیمی سال کے اختتام سے قبل ہی نئے داخلوں کی دوڑ لگ جاتی ہے تو والدین کی جیب ہلکی کرنے کے سارے منصوبے اور بروچرس تیار کرلیئے جاتے ہیں۔ بازاروں، سوپر مارکٹس کو دیکھیئے اپنا پرانا مال فروخت کرنے کیلئے گاہکوں کو 50 فیصد ڈسکاؤنٹ دینے کا لالچ دیتے ہیں اور اصل قیمت سے دوگنی قیمت کے لیبل لگاکر 50فیصد کی چھوٹ کا اعلان کرتے ہیں۔ جب بڑے لوگ، بڑے لیڈروں، الیکٹرانک میڈیا پر رات دن جھوٹ بول کر عوام کو لوٹ رہے ہوتے ہیں تو ان کی لوٹ کے سامنے دیگر لٹیروں کا کام تو معمولی ہی معلوم ہوگا۔ جھوٹ پہ جھوٹ بولنے والا لیڈر ہی سب سے زیادہ کامیاب سمجھا جاتا ہے۔

آپ تلنگانہ کے ہی لیڈر کو دیکھ لیجئے، کل تک انھیں سن رہے تھے اب دیکھ رہے ہیں۔ سننے اور دیکھنے میں آپ ضرور فرق محسوس کررہے ہوں گے۔ پروفیسر کودنڈا رام اس جھوٹ کو آشکار کرنے بیروزگار نوجوانوں کا مورچہ نکال رہے ہیں، یہ غریب لیڈر اس طرح کے مورچے نکال کر کیا ثابت کرسکے گا۔ یہ بے چارے جیسے عوام کے ہمدرد لیڈرس ان دنوں صرف سوشیل میڈیا پر لائیکس اور کمنٹس کی حد تک ہی حقدار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ حکمراں طبقہ کے لوگوں کے لئے راستے کا کانٹہ بن جاتے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی کا دعویٰ کرنے والوں کی فہرست زیادہ ہے اور ان دعوؤں کی نفی کرنے والے چند ہی ہیں تو بات کا اثر بھی کم ہی ہوگا۔ مگر جب بات کہی جاتی ہے تو اثر بھی کرے گی۔ کودنڈا رام کامیاب ہوں گے تو حکومت ناکام ہوگی۔ ابھی یہ مرحلہ دور ہے۔ اس وقت تلنگانہ کو موسم گرما کا انتظار ہے خاص کر دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں موسم گرما شروع ہونے سے قبل ہی پانی کا مسئلہ اُبھررہا ہے اور حکومت یہ مان کر چل رہی ہے کہ دریائے کرشنا اور گوداوری کے پانی کے تنازعہ کو عدالتوں میں لے جائے یا بات چیت کے ذریعہ حل کیا جائے۔ شہر کو کرشنا سے پانی لانے کے باوجود کئی علاقے آبی قلت کا شکار ہیں۔مرکز نے دونوں ریاستوں آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے آبی تنازعہ کا جائزہ لینے کیلئے بجاج کمیٹی تشکیل دی اور اس نے پرگتی بھون میں چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ سے ملاقات کرکے یہی صلاح دی کہ دونوں ریاستوں کے درمیان آبی تنازعہ کو قانون کی چوکھٹ سے باندھنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعہ راستہ نکالا جائے اور پانی تلنگانہ کو لایا جائے۔

دریائے کرشنا اور گوداوری سے تقریباً 4000 ٹی ایم سی پانی دستیاب ہے لیکن تنازعہ کی وجہ سے ان ندیوں کا تقریباً 2000 تا 3000 ٹی ایم سی پانی سمندر میںضائع ہوجاتا ہے اور اس پانی کو مکمل استعمال کرنے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت اپنے حصہ کی کوششوں کو تیز کرے اور یہ بھی دیکھے کہ شہروں میں پانی کا مسئلہ فوری طور پر کس طرح دور کیا جائے۔ انتخابی وعدہ تھا کہ دونوں شہروں کو روزانہ کی اساس پر پانی سربراہ کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ وجہ صاف ہے کہ پانی ٹینکرس کے ذریعہ سربراہ کرنے والا مافیا بہت طاقتور اور سرگرم ہے۔ آپ نے یہ دیکھا ہوگا کہ دونوں شہروں میں سرکاری طور پر پانی کے ٹینکرس کے ذریعہ پانی سربراہ کیا جاتا ہے۔ وہیں خانگی طور پر بھی ٹینکرس چلانے والے سرکاری ٹینکرس کے مقابل زیادہ ہیں، خانگی ٹینکرس چلانے والوں کا کاروبار کروڑہا روپئے تک پہنچ چکا ہے۔ شہر کے اطراف کے تالابوں پر ایسے ہی مافیا کا راج ہے۔ مادھاپور میں سونم چیرو اور کموڈی چیرو، حفیظ پیٹ میں پرکاش نگر تالاب، رائے درگم میں ملکم تالاب، چندا نگر میں تنگارام تالاب مافیا کے لئے آسان طور پر پیسہ کمانے کا ذخیرہ بنے ہوئے ہیں۔ شیر لنگم پلی میں مافیا کا قبضہ ہے۔ حکومت، کلکٹریٹ اور منڈل آفیسرس سے عام شہریوں کو برقی حاصل کرنے، پانی کے لئے بورویل کھدوانے اور دیگر ضرورتوں کی تکمیل کیلئے بے شمار سخت قواعد وضع کرتے ہیں جبکہ واٹر مافیا کو کھلی چھوٹ حاصل ہے ۔ ریاستی حکومت کے پاس صرف 1000 ٹینکرس ہیں جبکہ مافیا کے پاس 5000 ٹینکرس ہیں۔ حکومت 5000 لیٹر پانی 450 روپئے میں فروخت کرتی ہے جبکہ خانگی ٹینکرس ایک ٹینکر پانی 1000 روپئے تا 1200 روپئے میں فروخت کرتے ہیں۔ گرما میں تو 1800 روپئے سے بھی فروخت ہوتا ہے اور یہ سب عہدیداروں کی ناک کے نیچے  ہوتا ہے۔ اس طرح ماہانہ 100 کروڑ روپئے کا بزنس کرلیتے ہیں۔یہ کیسے لوگ ہیں غیرت اور شرم انہیں چھو بھی نہیں سکتی۔ بدعنوانی اور مال کمانے کی ہوس ان سرکاری عہدیداروں کی ہوس پر بھی بھاری ہوتی ہے۔ سرکاری عہدیدار اربوں روپئے ڈکار لیئے بغیر ہی ہضم کرجاتے ہیں۔ اس مافیا کے ہوتے ہوئے چیف منسٹر صاحب کرشنا ندی سے پانی لانے میں کب کامیاب ہوں گے۔

آپ سب کو تلنگانہ تحریک سے قائم ہونے والی نئی ریاست مبارک ہو، کرسی مبارک ہو، آپ نے غریب کے بازو پر سیاہ پٹی باندھ کر اپنے بازو پر امام ضامن باندھنے والوں کی فوج جمع کرلی ہے۔ یہی لوگ آپ کو اوقافی جائیدادوں پر سرکاری دعویٰ کرنے کی راہ دکھاچکے ہیں تو 800 ایکر کی اراضی کو سرکاری کھاتے میں ہڑپ کرکے مسلمانوں کو صرف اسلامک سنٹرکا کاغذی وعدہ ہی تھماچکے ہیں۔ منی کنڈہ کو مسلمانوں کے لئے ہنا کونڈہ بنانے والوں نے خوب مزے کئے ہیں۔ لینڈ مافیا کی فہرست طویل ہے، یہ واٹر مافیا سے زیادہ خطرناک اور چالاک ہے جو اوقافی جائیدادوں پر راج کررہا ہے اور حکومت ان کی بین پر مست جھوم رہی ہے۔
kbaig92@gmail.com