تمنا کہیں جسے

ڈاکٹرسرورالہدیٰ
شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
’تمنا کہیں جسے‘ کے تمام مضامین پہلے ہی میری نگاہ سے گزر چکے ہیں۔ اب انھیں کتابی شکل میں دیکھنے اور پڑھنے کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ پہلے سے کچھ مختلف بھی ہے اور مماثل بھی۔ شروع ہی میں اس بات کی وضاحت کردوں کہ ’تمنا کہیں جسے‘ میں غالب سے متعلق جو مضامین ہیں وہ کسی نئے ادبی و تنقیدی ڈسکورس سے اپنی واقفیت کے اظہار کے لیے نہیں لکھے گئے ہیں۔ لیکن یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ صدیق الرحمن قدوائی کے یہاں نئے تنقیدی افکار کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ کتابی شکل میں ان مضامین کی اشاعت کا جواز کیا ہے اس بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’’دراصل غالب پر کچھ لکھنا خود کو آزمائش سے گزارنا ہے۔ مجھے اس کا شدید احساس ہے۔ شعر و ادب کی دنیا اگر جرأت اظہار پر آمادہ کرے تو اس پر نہ پشیمانی کی ضرورت ہے نہ غرور کی۔ چناں چہ میں بغیر کسی معذرت کے یہ سارے مضامین جو مختلف زمانوں میں لکھے گئے ہیں یک جا کرکے پیش کررہا ہوں۔‘‘
صدیق الرحمن قدوائی نے جس جرأت اظہار کی طرف اشارہ کیا ہے اسے عصری تنقید کے خاموش مثبت اثرات سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ گوکہ وہ تنقید کے نظریاتی مسائل میں بہت کم دلچسپی لیتے ہیں۔ صدیق الرحمن قدوائی جسے جرات اظہار کہتے ہیں ممکن ہے ان کی نظر میں یہ تنقید نہ ہو مگر تنقید بنیادی طور پر جرات اظہار ہی تو ہے۔ ادبی ذوق ایک ایسا فقرہ ہے جسے ادب تنقید میں کبھی مثبت تو کبھی منفی معنی میں استعمال کیا گیا۔ ہم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ذوق بہت بڑی چیز ہے اس کے بغیر کوئی ادب کا اچھا قاری نہیں ہوسکتا اور یہ بھی کہا جاتاہے کہ دیکھیے فلاں صاحب کی ادبی تنقید اب تک ذوق کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ تنقید میں ذوق کی کارفرمائی دراصل نظری مباحث سے خود کو بچانے کی طرف اشارہ بھی ہے۔ بالآخر ذوق تنقید کو ذاتی اور تاثراتی قسم کی چیزبنا دیتا ہے۔ صدیق الرحمن قدوائی کے یہاں بھی ذوق کی بڑی اہمیت ہے۔ لیکن مجموعی طور پر وہ متن کی قرأت کے عمل کو ذوقی اور وجدانی نہیں بناتے۔ وہ متن پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں جو اپنے بہترین لمحات میں وجدان کی گرفت سے آزاد ہوجاتی ہے۔ ان کا ادبی ذوق خاموشی کے ساتھ متن کے تجزیے کی طرف نکل آتا ہے۔ جن لوگوں کی ادبی تربیت ایک مخصوص ادبی ماحول میں  ہوئی ان کی نظر میں متن کا تجزیاتی مطالعہ متن کے ساتھ کھلواڑ کرنا ہے۔ صدیق الرحمن قدوائی نے یہاں غالب کے شعری طریقہ کار سے بھی بحث کی ہے اس عمل میں وہ بعض مخصوص الفاظ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان حصوں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتاہے کہ ایک صاحب ذوق قاری کا تاثر بار بار تنقید کی معروضیت سے ٹکراتا ہے اور اس ٹکراہٹ کے بعد جو چیز سامنے آتی ہے وہ صدیق الرحمن قدوائی کی غالب تنقید کی ایک بڑی طاقت ہے۔ انھوں نے غالب کے سیاق میں ذات، کائنات، آفاقیت، سماجی شعور جیسے مسائل سے توبھی بہت اچھی بحث کی ہے۔ اس کتاب میں ایک مضمون ’تمنا کہیں جسے‘ ہے۔ میں نے صدیق الرحمن قدوائی کے تعلق سے جس ذوق اور وجدان کا ذکر کیا ہے اس مضمون کے ان ابتدائی جملوں میں دیکھا جاسکتا ہے:’’غالب ان شاعروں میں ہیں جن کے اشعار کو بار بار پڑھنے کے باوجود کسی نہ کسی وقت ایسا لگتاہے جیسے کوئی ان سنی آواز، بے نام لذت، ہمارے احساس کو خود بخود دیوان غالب کی طرف واپس لے جارہی ہو اور پھر وہاں پہنچ کر ہم کچھ اور ڈھونڈنے لگیں، جو وہیں کہیں ہو مگر ملتا نہ ہو، تو اسے پانے یا نہ پانے کا جو مزہ ہے اس نے غالب سے ہمارا ایک رشتہ قائم کیا ہے۔‘‘
صدیق الرحمن قدوائی کی یہ بات بڑی اہم ہے کہ دیوان غالب کی طرف جانے کے بعد غالب کے یہاں کچھ اور ڈھونڈنا، پھر اس شئے کا وہاں نہ ملنا، اس پورے قاریانہ سلسلے کو انھوں نے پانے اور نہ پانے کا مزہ قرار دیا ہے۔ وہ اسی لطف اور حیرت کو غالب سے اپنے رشتے کی بنیاد بھی قرار دیتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو لطف اور حیرت کے اس بیان کو تنقیدی بیان کے ذیل میں نہیں رکھا جاسکتا اور یہ مطالبہ کیا جاسکتاہے کہ غالب کے یہاں لطف اور حیرت کی اس کیفیت اور صورت حال کو متن کے تجزیے کے ذریعے نشان زد کیا جائے۔ لیکن صدیق الرحمن قدوائی کے ان بیانات کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ وہ متن کی آزادانہ قرات پر زور دیتے ہیں اور اس عمل میں صرف ذوق اور ذات کے درمیان کسی اور چیز کو حائل کرنا نہیں چاہتے۔ انھوں نے اس مضمون میں لکھا ہے:
’’غالب کی شاعری مختلف لوگوں پر مختلف طرح سے اثر کرتی ہے بلکہ ایک ہی شخص پر مختلف لمحوں میں مختلف تاثر چھوڑتی ہے۔ بعض اوقات تو صرف الگ الگ مصرعے  ذہن کو دیر تک محو کیے رہتے ہیں۔ اس قدر شدت کے ساتھ کہ جذباتی و فکری فضا، اطراف میں پیش آنے والے واقعات و حادثات کا اثر سب مل کر تنہا لمحوں میں بعض اوقات ان مخصوص اشعار کو اپنا محور بنا لیتے ہیں۔‘‘ اس اقتباس سے بھی غالب کی آزادانہ قرات کا روشن پہلو ہی سامنے آتا ہے۔ مگر صیدق الرحمن قدوائی کسی قاری کے مخصوص نظریے کو زیربحث نہیں لاتے۔ یہ واقعہ ہے کہ مختلف زمانوں میں نقادوں اور دانشوروں نے غالب کے شعری متن کو اپنے نظریے کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی۔ ایسی صورت میں آزادانہ قرأت کا مطلب کیا ہوگا؟ قاری اتنا معصصوم اور ساہ نہیں ہوتا۔ متن کے روبرو ہونے سے پہلے ہی اس کا ذہن کسی نہ کسی فکر اور فلسفے سے متاثر ہوتاہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ قاری جس متن کی قرأت کے دوران فکری اور حسی سطح پر کسی اور دنیا کی طرف نکل جائے۔ فیض نے کہا تھا:
دل سے تو ہر معاملہ کرکے چلے تھے ساتھ ہم
کہنے میں ان کے سامنے بات بدل بدل گئے
متن اور قاری کا رشتہ صدیق الرحمن قدوائی کے نزدیک پیچیدہ تو ہے مگر وہ اس پیچیدگی کو مابعدالطبعیاتی سطح پر سمجھنا اور حل کرنا نہیں چاہتے وہ بس اتنا لکھتے ہیں کہ غالب کی شاعری مختلف لوگوں پر مختلف طرح سے اثر کرتی ہے۔ وہ مختلف لمحوں میں غالب کی بدلتی معنوی دنیا کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ ان مندرجہ بالا جملوں کو دوبارہ پڑھیے تو اندازہ ہوگا کہ اس میں قاری اور متن کے تبدیل ہوتے ہوئے رشتے اور معنی کے سیال ہونے کا تصور موجود ہے۔ اگر معنی غیرٹھہرا ہوا ہوتا تو وہ مختلف لمحوں میں ایک ہی شخص پر مختلف تاثر نہیں چھوڑ سکتا۔ صدیق الرحمن قدوائی جسے تاثر کہتے ہیں وہ دراصل معنی ہی کا مترادف ہے۔ اور ساتھ ہی اس لفظ تاثر میں گمان اور یقین کے درمیان کی صورت حال بھی شامل ہے۔ صدیق الرحمن قدوائی غالب کے شعری متن کو ایک قاری کا ذاتی اور انفرادی مسئلہ قرار تو دیتے ہیں مگر ان کی نظر باہر کی دنیا میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات کی طرف بھی جاتی ہے۔ اقتباس کے آخری حصے کو ایک مرتبہ پھر ملاحظہ کیجیے:
’’اس قدر شدت کے ساتھ کہ جذباتی و فکری فضا، اطراف میں پیش آنے والے واقعات و حادثات کا اثر سب مل کر تنہا لمحوں میں بعض اوقات ان مخصوص اشعار کو اپنا محور بنا لیتے ہیں۔‘‘
کوئی دوسرا نقاد ہوتا تو غالب کے شعری متن کی قرأت کے تعلق سے انفرادی اور اجتماعی مسائل پر جس علم و فضل کا مظاہرہ کرتا اس کا صرف اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ اکثر اوقات علم فضل کے اس مظاہرے نے مسئلے کو مزید الجھا دیا ہے۔ صدیق الرحمن قدوائی نے بہت سادگی کے ساتھ اطراف میں پیش آنے والے واقعات و حادثات اور قاری کی جذباتی اور فکری فضا کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرتے ہوئے غالب کے شعری متن کی داخلی قوت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ قاری کے جذبے اور باہر کے واقعات مل کر تنہا لمحوں میں غالب کے شعروں کو اپنا محور بنا لیتے ہیں، غالب کے تعلق سے صدیق الرحمن قدوائی نے لفظ و معنی کی طرف جو اشارے کیے ہیں وہ بظاہر سادہ معلوم ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے مروجہ اصطلاحوں کو استعمال نہیں کیا ہے۔ معنی کے سلسلے میں جو جدید ترین تصور ہے وہ اس سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن وہ شعوری طور پر ان اصطلاحوں میں گفتگو کرنا نہیں چاہتے لیکن معنی کی حقیقت خود غالب کی نظر میں کیا تھی اور وہ معنی کے تعلق سے کس الجھن کے شکار تھے یہ تمام باتیں بڑی ذہانت کے ساتھ ان کے اس مضمون میں زیربحث آئی ہیں۔ انھوں نے غالب کے عام اشعار کی مدد سے کچھ نئے گوشے کی تلاش کیے ہیں۔ وہ اتنی سہولت کے ساتھ ان مسائل سے عہدہ برآ ہوئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ عموماً ہمارے نقاد ادب اور تنقید کے بعض الجھے اور پیچیدہ مسائل کو اپنے اسلوب سے مزید الجھا دیتے ہیں، صدیق الرحمن قدوائی لکھتے ہیں:
’’معنی و مفہوم کا مسئلہ خود غالب کا ایک اہم تخلیقی مسئلہ ہے جس کا وہ طرح طرح سے ذکر کرتے ہیں… اپنے اشعارمیںا ٓئے ہوئے ہر لفظ کو گنجینہ معنی کا طلسم کہنا، نقش وفا کا شرمندہ معنی نہ ہونے کا گلہ، نالے کو رسا باندھنے کی غلطی،  سب غالب کے اسی شعور کے پہلو ہیں اور یہی بے اطمینانی ان اشعار سے ظاہر ہے۔ ان کی اس بے اطمینانی کا اظہار لفظ و معنی کی حدبندیوں کے باوجود ان کے احساس میں بسا ہوا ہے جسے حل کرنے کے لیے انھوں نے وہ صورتیں اختیار کیں جس نے شعری اظہار کی جمالیات کو نئی جمالیات سے آشنا کیا…
غالب کا متجسس ذہن خلاؤں میں سفر کرتا ہے اور اپنے اردگرد کی ٹھوس اشیا کے درمیان خلاؤں کے وجود کو بھی دریافت کرلیتاہے۔‘‘
اس اقتباس کی تین باتیں نہایت توجہ طلب ہیں۔ غالب نے معنی کے سلسلے میں جو شعر کہے ہیں ان میں پائے جانے والے تضادات کو انھوں  نے غالب کی بے اطمینانی سے موسوم کیا ہے۔ اس بے اطمینانی کو صدیق الرحمن قدوائی نے خالص تخلیقی نقطۂ نظر سے دیکھا ہے جس میں کسی خارجی جبر یانظریے کا کوئی دخل نہیں۔  اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی نگاہ میں تخلیقی عمل اور اس کے بعد وجود میں آنے والا فن پارہ فکر و احساس کی سطح پر کئی پہلوؤں کا حامل ہوتاہے۔ صدیق الرحمن قدوائی نے معنی آفرینی کے تعلق سے بے اطمینانی کی ترکیب استعمال کرکے ایک بڑے تخلیق کار کی داخلی کشمکش کے ساتھ ساتھ معنی کے تعلق سے مختلف پرانے اور نئے نظریات کی جانب اشارہ کردیا ہے۔ غالب کی خیال بندی اور تجریدیت کو صدیق الرحمن قدوائی نے مستقل موضوع نہیں بنایا مگر موقع موقع سے وہ اس جانب اشارہ ضرور کرتے ہیں، ٹھوس اشیا کے درمیان خلاؤں کے وجود کو دریافت کرلینا دراصل ان خاموشیوں کا سراغ بھی پالینا ہے  جو معنی کا سرچشمہ ہے۔ عموماً ہمارے نقاد یہ کہتے ہیں کہ غالب کی دلچسپی ٹھوس اشیا کی تجریدی کردینے میں ہے مگر صدیق الرحمن قدوائی ٹھوس اشیا کے درمیان خلاؤں کے وجود کی دریافت کہتے ہیں۔ اور ان دونوں میں فرق ہے۔ ٹھوس اشیا کے درمیان خلاؤں کو تلاش کرلینا اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتاہے جس کے بارے میں فراق نے کہا :
ہر نظارے میں ہر حقیقت میں
نظر آتاہے کچھ تضاد مجھے
ٹھوس اشیا کی تجرید کردینا ہی غالب کاایک محبوب فنی مشغلہ ہے اور ا س کی مثالیں ان کے یہاں موجود ہیں مگر صدیق الرحمن قدوائی کی بات تخلیقی حسیت کے اعتبار سے زیادہ اہم معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے لفظ ’تمنا‘ کے تعلق سے غالب کی تخلیقیت سے بہت اچھی بحث کی ہے۔ غالب کے یہاں لفظ ’تمنا‘ کی معنوی حقیقت کیا ہے اس بارے میں پہلے ہی بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ صدیق الرحمن قدوائی نے اس لفظ کے تعلق ے بالکل نئے انداز سے سوچا ہے:’’غالب نے اسے کوئی اور لفظ بنا دیا ہے جو اپنے معنی و مفہوم کی طرف لے جانے کی بجائے خیال و احساس میں بہت سی لہریں بناتاہے۔ یہ ایک سیال تصور ہے جو بے شمار شکلیں اختیار کرتا رہتا ہے۔ شاعر کی زندگی میں بار بار ایسے لمحے آتے ہیں جو کسی سانچے میں اس ’تمنا‘ کو قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس شکل کی عمر بس ایک لمحے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ‘‘
مندرجہ بالا جملوں میں لفظ ’تمنا‘ کے تعلق سے بہت سی لہریں بنانا، سیال تصور اور بے شمار شکلیں اختیار کرنا جیسے فقرے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ صدیق الرحمن قدوائی کے تنقیدی ذہن پر معاصر تنقید کے اثرات موجود ہیں۔ کہنے کو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان فقروں کے پیچھے جو تصورات ہیں انھیں پہلے بھی دوسرے الفاظ و تراکیب کے ساتھ پیش کیا جاتا رہاہے۔ مگر یہ واقعہ ہے کہ نئی تنقید نے بہت خاموشی کے ساتھ اپنے دائرہ اثر کو بڑھایاہے۔ نئی تنقید کہتی ہے کہ معنی سیال ہوتا ہے۔ ایک معنی تک ہماری رسائی بھی نہیں ہوتی کہ دوسرا معنی دستک دینے لگتا ہے۔