تلگو ریاستوں کے چیف منسٹروں کی قومی سیاست

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ اور چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو نے قومی سطح پر اپنے سیاسی عزائم کی آبیاری کے لیے کوشاں ہے ۔ آیا حقیقتاً یہ دونوں قائدین اپنی اپنی ریاستوں کے حقوق کے لیے اپنے اصولوں پر گامزن ہیں یا ان کی آڑ میں چھپے کچھ خفیہ ہاتھ اپنے مفادات کے حصول میں مشغول کار ہیں ۔ دو تلگو ریاستوں کی قیادت بنیادی طور پر اصول پرستی ، انتہائی فہم و فراست ، کردار اور معاملہ فہمی میں قومی سطح پر جانی جاتی رہی ہے ۔ ماضی میں چندرا بابو نائیڈو نے قومی سطح پر اپنے قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے ۔ سابق این ڈی اے حکومت میں ان کی موجودگی اور ہمت و سیاسی جوانمردی کے ساتھ علاقائی سیاست کے بنیادی جز و کو نمایاں کیا تھا لیکن بعد ازاں وہ فرقہ پرستوں کے ہاتھوں اس طرح محروس ہوگئے کہ اپنی سیکولر سیاسی چھاپ کو داؤ پر لگادیا تھا اب وہ سنبھل جانے کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ نائیڈو کی دہلی میں جاری حالیہ سرگرمیوں نے تلگو ریاستوں کے تعلق سے قومی قیادت کے رویہ کو آشکار کردیا ہے ۔ نائیڈو نے اپنے عوام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کی کوشش شروع کی ہے ۔ نائیڈو سے پہلے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ قومی سطح پر خود کو سرگرم کردینا چاہتے تھے مگر سیاسی حالات اچانک اس طرح کروٹ بدلے کہ چندر شیکھر راؤ کو کچھ قدم پیچھے ہٹنا پڑا ۔ ہوا یوں کہ جن دنوں چندر شیکھر راؤ دہلی کا دورہ کرنا چاہتے تھے عین انہی دنوں نائیڈو دہلی پہونچکر قومی و علاقائی پارٹیوں کے مرکزی قائدین سے ملاقات کی ۔ پارلیمنٹ میں ہر اپوزیشن لیڈر سے بہ نفس نفیس مل کر بات چیت کی ۔ چیف منسٹر کے سی آر نے بھی 4 اپریل کو دہلی کا دورہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔ وہ اپنے 3 روزہ دورے کے دوران بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کے خلاف اپنے تیسرے محاذ کے قیام کو قطعیت دینے تمام علاقائی پارٹیوں کو تیسرے محاذ میں شامل ہونے کی ترغیب دینے والے تھے لیکن نائیڈو نے ان کے منصوبہ کو ہائی جیک کرلیا ۔ کے سی آر اب اپریل کے تیسرے ہفتہ میں دہلی کا دورہ کرنے والے ہیں ۔ مگر آئندہ دو ہفتوں کے دوران قومی سطح پر سیاسی حالات کیا رخ اختیار کرلیں گے یہ وقت ہی بتائے گا ۔ کے سی آر نے تمام علاقائی پارٹیوں کے قائدین سے ملاقات کرنے کا وقت بھی حاصل کرلیا تھا ان سے پہلے نائیڈو نے یہ کام کردیا ۔ ٹی آر ایس کے پلینری سیشن کے بعد ہی کے سی آر دہلی کا دورہ کریں گے ۔

اس وقت علاقائی سطح پر دونوں تلگو ریاستوں آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے سیاسی منظر نامے مبہم اور الجھن کا شکار نظر آرہے ہیں ۔ دلتوں کے تعلق سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد مرکز کے رول پر انگلیاں اٹھانے والے علاقائی قائدین دلتوں کی ہمدردی میں مودی حکومت پر تنقیدیں کرنے میں کسی بھی حد تک گذرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ نائیڈو کو تو قومی قائدین کی قربت اور ان کی سیاسی چالاکیوں کا تجربہ ہے ۔ مگر کے چندر شیکھر راؤ غیر ضروری غلط آدمی سے سینگ پھنسانے جارہے ہیں ۔ کیا انہیں واقعی نہیں معلوم کے قومی سطح کی قیادت سے چھیڑ خانی کے لیے کافی دم خم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تلنگانہ کے عوام نے انہیں اپنی بہبود کے لیے ووٹ دے کر سیاسی طاقت عطا کی تھی ۔ اب وہ ریاست کو چھوڑ کر ملک کا خواب دیکھنے لگے ہیں ۔ اس خواب کی تعبیر دیکھنے والوں کو دہلی کے جنترمنتر پر کن حالات سے گذرنا پڑتا ہے یہ ان سے پوچھیں جو قومی عزم کے ساتھ تو دہلی گئے تھے مگر واپسی میں انہیں خود اپنے گھر کا راستہ نہیں ملا ۔ تلنگانہ چھوڑ کر دہلی کا خواب دیکھنے والے کے سی آر کو اپنے ہی آبائی ریاست میں اپوزیشن کی طاقت میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔ ایک طرف کانگریس نے بس یاترا کے ذریعہ تلنگانہ کے عوام کے سامنے ٹی آر ایس حکومت کی ناکامیوں کی طویل فہرست پیش کرنی شروع کردی ہے ۔ دوسری طرف پروفیسر کودنڈا رام نے اپنی نئی پارٹی کے قیام کا اعلان کردیا ہے ۔ 2019 کے اسمبلی انتخابات میں ٹی آر ایس کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے چیرمین پروفیسر کودنڈا رام نے کہا کہ ان کی پارٹی حکمراں ٹی آر ایس کی نا انصافیوں کے خلاف عوام سے رجوع ہوگی ۔ کے سی آر حکومت نے جمہوری اصولوں کی دھجیاں اڑا دی ہیں ۔ ان کی پارٹی کے قیام کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ تلنگانہ کے قیام کا مقصد پورا نہیں ہوا ہے اب بھی عوام سماجی انصاف سے محروم ہیں ۔ تلنگانہ سے پہلے ہم نے سوچا تھا کہ اگر علحدہ ریاست تلنگانہ قائم ہوجائے تو اس ریاست میں دستیاب وسائل تمام شہریوں میں یکساں طور پر تقسیم ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ ہر کسی نے یہ خیال کیا تھا کہ تلنگانہ ایک مضبوط جمہوری ریاست بن جائے گی لیکن یہاں تمام جمہوری اقدار کو پامال کیا گیا ۔ کے سی آر اس وقت واحد چیف منسٹر ہیں جنہوں نے سکریٹریٹ کا منہ نہیں دیکھا اور نہ ہی عوام کی شکایات کی سماعت کی ۔

اس ریاست کے تمام عوامی اداروں کو پوری طرح مفلوج بناکر رکھدیا گیا ہے ۔ تلنگانہ میں کابینہ نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے ۔ تلنگانہ میں جب حکومت کی سطح پر کئی خرابیاں دکھائی دینے لگے تو شہری سماجی جدوجہد ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے ۔ عوام کو تلنگانہ کے قیام کے بعد جو حقوق ملنے تھے وہ نہیں مل سکے ۔ اب سیاسی تبدیلی کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ تلنگانہ عوام کے ساتھ سماجی انصاف ہوگا ۔ تلنگانہ کی ہوائیں بتا رہی ہیں کہ حکمراں کے چہرے پر پڑے نقاب نوچ کر ان کی اصلیت کا لبادہ تار تار کردیں گی ۔ بہر حال چیف منسٹر کے سی آر کی مخالفت میں ابھرنے والے اور بولنے والے قائدین کی اصل آزمائش اسمبلی انتخابات میں ہی ہوگی ۔ عوام کے ووٹوں کی عزت کرنے والوں کو ہی ووٹ ملیں گے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ بظاہر اپنے رائے دہندوں کی عزت کرتے ہیں ان کی خاطر اچھے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ ان کی خاطر ہی وہ ریاستی سیاست سے چھلانگ لگاکر دہلی کی سیاست میں قدم رکھنا چاہتے ہیں ۔ قومی سیاست کے خواب کو پورا کرنے کی حکمت عملی 27 اپریل کو منعقد ہونے والے ٹی آر ایس پلینری سیشن میں طئے کی جائے گی ۔ اس سیشن میں چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی بھی شرکت کریں گی ۔ اس بات کا ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ اس پلینری سیشن کے بعد جلسہ عام منعقد ہوگا یا نہیں کیوں کہ چیف منسٹر کے سی آر نے پلینری سیشن کے لیے تمام علاقائی پارٹیوں کے قائدین کو مدعو کیا ہے ۔ اوڈیشہ کے چیف منسٹر بی جے ڈی لیڈر نوین پٹنائک بھی شرکت کرنے والے ہیں ۔ 27 اپریل تک قومی سیاست کے لیے علاقائی سطح پر سیاسی صف بندی میں کوئی پیشرفت ہوتی ہے تو پھر تیسرے محاذ کے قیام کے لیے راہ ہموار ہوجائے گی ۔۔