تلگودیشم، ٹی آر ایس کو حکمت عملیاں بنانی ہوں گی

تلنگانہ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
ٹی آر ایس میں شامل ہونے کیلئے بے تاب سیاسی قائدین کی فہرست طویل ہوتے جارہی ہے۔ خاص کر اپوزیشن کانگریس کی صفوں میں دراڑیں پیدا کرنے والے قائدین ٹی آر ایس کے قلعہ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ تلگودیشم کے تلنگانہ قائدین نے کے سی آر کی حکومت کو بیدخل کرنے کا عہد کرلیا ہے۔ اگر سیاسی حالات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نہ آئی تو کے سی آر اپنی حکومت کی مدت پورا کرنے میں کامیاب ہوں گے لیکن جوں جوں وقت گذر رہا ہے یہ واضح ہوتا جارہا ہیکہ کے چندرشیکھر راؤ اور ان کی وزارتی ٹیم کے پاس تلنگانہ کو ترقی کے راستے پہ لانے کیلئے کوئی خاص حکمت عملی موجود نہیں ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تلنگانہ حکومت کی قلعی کھلتی جارہی ہے اور یہ ثابت ہورہا ہے کہ حکمراں ٹولے کی بنیادی سوچ میں کوئی بہت بڑی گڑبڑ ہے۔ اس لئے عالمی بینک کو پیش کردہ رپورٹ میں کے سی آر کی حکومت نے تلنگانہ کی پسماندگی کے لئے حضور نظام کے دورحکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گذشتہ 68 سال کے دوران کسی بھی پارٹی نے تلنگانہ کی پسماندگی کے لئے کچھ نہیں کیا۔ کے چندرشیکھر راؤ بھی گذشتہ ایک سال سے تلنگانہ پر اقتدار کررہے ہیں۔ ان کی حکومت کے بارے میں اجتماعی رائے یہ ہیکہ تلنگانہ میں ترقی ہونی چاہئے۔ یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب حکومت اپنے کام بخوبی انجام دے سکے۔ تلگودیشم پارٹی سے تصادم کی راہ اختیار کرنے والے کے سی آر کو ان دنوں اپنی سیاسی فراست کے استعمال میں ناکام دیکھا جارہا ہے۔ تلگودیشم لیڈر ریونت ریڈی کی ووٹ برائے نوٹ کیس میں جیل سے رہائی کے بعد تلنگانہ حکومت کی پہلی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔ تلنگانہ کا ہر سیاستداں یہ واقف ہے کہ تصادم و دشمنی کی راہ اکثر خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔ تلگودیشم سے نکل کر اپنی نئی پارٹی بنانے والے کے سی آر کو آگے چل کر اپنی حکومت کی خرابیوں سے پیدا ہونے والے پراگندہ نظام کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تلنگانہ اور آندھراپردیش کو اپنی اپنی ریاستوں میں ترقی کیلئے بہت محنت کرنی ہے مگر ابتدائی ایک سال میں ہی کام کاج چھوڑ کر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی کوشش پریشانیوں اور مسائل کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ان بگڑتے ہوئے حالات کا تقاضہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ریاست کے نئے تقاضوں کو پورا کرنے پر توجہ دے۔ اپنے رویہ میں لچک پیدا کرے۔ تلنگانہ ریاست مستحکم ہوگی تو یہاں اس پر سیاست کی جاسکے گی۔ اگر تلنگانہ کمزور پڑجائے گا تو پھر حکومت کرنے کی کوشش بے فیض ثابت ہوگی۔ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج شروع ہورہے ہیں۔ شہر میں کئی طلباء تنظیموں نے جیسے پی ڈی ایس یو، اے آئی ایس ایف، ایس ایف آئی، ٹی ڈبلیو اے آئی ڈی او، اے آئی ایف ڈی ایس اور پی ڈی ایس یو کے بند کی بھی اپیل کی تھی۔ انتخابات کے دوران کے سی آر نے کے جی تا پوسٹ گریجویٹ تک مفت تعلیم دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس پر فی الفور عمل آوری کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ تلنگانہ کی ایک سالہ حکومت میں تعلیم کیلئے کچھ نہیں کیا گیا بلکہ تلنگانہ میں مقیم افراد کو مقامی اور غیرمقامی میں تقسیم کرکے سیاسی مقاصد حاصل کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ اگر مقامی و غیرمقامی کی تشریح پھر ایک بار سیاسی کھیل کا حصہ بن جائے تو تلنگانہ میں سب سے زیادہ طلباء برادری کو نقصان ہوگا۔ حکومت مختلف عہدوں پر تقررات کیلئے اعلامیہ جاری کرنے والی ہے۔ اس سے پہلے ہی مقامی و غیرمقامی کا مسئلہ اٹھایا جارہا ہے تو تقررات کے عمل میں رکاوٹ ہوگی۔ حکومت نے ابھی اس حساس مسئلہ کواٹھایا نہیں ہے۔ تلنگانہ اسٹیٹ پبلک سرویس کمیشن کو حکومت نے چند رہنمایانہ اصول فراہم کئے ہیں جو آئندہ چند ماہ میں تقررات کا عمل شروع کرے گا۔ قواعد کے مطابق 83 فیصد ملازمتیں مقامی نوجوانوں کو دی جانی ہیں جبکہ غیرمقامی افراد کو 15 فیصد ملازمتیں دی جائیں گی۔ تلنگانہ اسٹیٹ پبلک سرویس کمیشن (ٹی ایس پی ایس سی) نے مقامی و غیرمقامی مسئلہ پر وضاحت کردی ہے اور حکومت نے امتحانات کیلئے نصاب کا طریقہ بھی بدلنے اور عمر کی حد میں نرمی کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچیکہ تلنگانہ پبلک سرویس کمیشن کو اگست 2014ء میں تشکیل دیا گیا اس کے لئے چیرمین اور ارکان کا ہنوز تقرر ڈسمبر 2014ء میں عمل میں لایا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک ایک بھی تقرراتی اعلامیہ جاری نہیں کی۔ مختلف سرکاری محکموں میں 25 ہزار نوجوانوں کو ملازمتیں دینے کا وعدہ کرنے والے چیف منسٹر کو اپنا وعدہ پورا کرنا ہوگا۔ جولائی کا ماہ شروع ہوا ہے تو 25 ہزار ملازمتوں کا سلسلہ ہوگا

اور آئندہ چند برسوں میں حکومت تقریباً ایک لاکھ مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات عمل میں لائے گی۔ اس سلسلہ میں کارروائیاں صرف کاغذی نوعیت کی نہیں عملی مظاہرہ کا انتظار ہے۔ اب تلنگانہ کے حقیقی باشندوں کو سرکاری ملازمت کے حصول کیلئے رہنما شناخت پیش کرنی ہوگی تاکہ عہدیداروں کو اطمینان ہوجائے گا وہ تلنگانہ کے ہی شہری ہیں۔ دستور کے مطابق تمام شہری مقامی یا غیرمقامی کی اصطلاح میں نہیں ہوتے۔ عام شہریوں کو یکساں حق دیا جانا چاہئے۔ بلاشبہ ایک نئی ریاست کے نئے قوانین ہوتے ہیں مگر اس سے نقصانات کا بھی جائزہ لینا چاہئے۔ حکومت کی سطح پر دیکھیں تو بہت سے ایسے معاملات ہیں جن پر اہم اتفاق رائے پیدا نہیں کرسکتے۔ سرفہرست ملازمتوں کے تقررات کا مسئلہ ہے۔ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس پر حالات کی تفہیم کی ہماری ذمہ داری ہوتی ہے۔ وہ اس میں جتنی دیر لگائے گی اس کو درپیش مسائل اتنے ہی سنگین ہوتے جائیں گے۔ اگر چندرشیکھر راؤ یہ سوچتے ہیں کہ تلنگانہ کی پسماندگی کا قصور سابق نظام حکومت پر تھوپ کر وہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار ہوجائیں گے تو ان کی یہ سوچ غلط ہے۔ خیالوں کی دنیا میں رہتے ہوئے حقیقت کو نظر انداز کرنے کا خطرہ مول لینا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ صدرجمہوریہ پرنب مکرجی حیدرآباد میں اپنی تعطیلات گذار رہے ہیں تو ان کی موجودگی میں حکومت تلنگانہ کو بعض اہم فیصلے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حیدرآباد شہر کو عالمی درجہ بنانے کا کام بہت جلد پورا ہونا چاہئے کیونکہ اس شہر کی قسمت ہیں دیگر علاقوں سے آنے والے لاکھوں شہریوں کے رہن سہن کی بھی ذمہ داری ہے۔ دیگر ریاستوں سے انسانوں کا سمندر حصول روزگار کیلئے حیدرآباد کا رخ کررہے ہیں۔ یہ رجحان حیدرآباد کو کس سطح پر لے جائے گا یہ وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال شہریوں کو دو سیاسی پارٹیوں کے درمیان تصادم سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ کرنا ہوگا۔ حیدرآباد شہر سب سے بڑا شہر ہے۔ ریاستی دولت کا سب سے بڑا حصہ بھی اس شہر سے حاصل ہوتا ہے لیکن اس شہر کے عوام آج بھی بہتر نظم و نسق کے متلاشی ہیں۔ ترقی کی راہ تک رہے ہیں جبکہ حکومت اور گورنر کے درمیان اختیارات کا جھگڑا بھی مرکز توجہ بنے ہوا ہے۔

تلگودیشم نے گورنر کا سہارا لے کر کے سی آر کو زچ کرنے کی ہر زاوئیے سے کوشش شروع کی ہے۔ افطار پارٹیوں کے اس ماحول میں سیاسی افطار پارٹیوں کے ذریعہ ہوسکتا ہے کہ دونوں ریاستوں کی حکومتوں کو خیرسگالی کے جذبہ کا اظہار کرنے کا موقع مل جائے۔ اگر ایسا موقع آتا ہے تو دونوں چیف منسٹروں کو اختلافات فراموش کرکے خوش اسلوبی سے مسائل کی جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ دو تلگو ریاستوں کے درمیان رسہ کشی بہرحال ہر دو کی ترقی کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔
kbaig92@gmail.com