تلوار کس پر گرے گی

کے این واصف
سعودی عرب میں کام کرنے والے خارجی باشندوں پر مستقبل قریب میں آنے والے مشکل حالات کے بارے میں ہم نے اپنے پچھلے کالم میں تفصیلی جائزہ پیش کیا تھا ۔ اس کا ردعمل ہم تک چند عام قارئین یا اپنے جاننے والوں کے ذریعہ جو پہنچا اس سے یہ اندازہ ہوا کہ لوگوں تک ہمارا پیام واضح طور پر پہنچ نہیں پایا جبکہ ہم نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنی باتیں رکھی تھیں۔ لہذا ہم نے ضروری سمجھا کہ اس بات کو مزید واضح طور پر ایک بار پھر پیش کردیں کیونکہ یہ معاملہ ہزاروں ، لاکھوں افراد کے مستقبل سے جڑا ہے ۔ ہم پھر ایک بار مزید واضح انداز میں بتادینا چاہیں گے کہ ’’تلوار کس پر لٹک رہی ہے‘‘ یا کن پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی ملازمت کے قائم نہ رہنے کا خطرہ ہے ۔ اس کالم کے ذریعہ ہم ہمیشہ سعودی عرب میں برسرکار خارجی باشندوں سے متعلق بالعموم اور غیر مقیم ہندوستانیوں (این آر آئیز) کے بارے میں بالخصوص گفتگو کرتے ہیں لیکن اوپر ذ کر کی گئی بات کو اب ہم صرف این آر آئیز اور بالخصوص ریاست تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے این آر آئیز تک محدود رکھیں گے ۔ سعودی عرب میں کوئی 32 لاکھ این آر آئیز موجود ہیں۔ واضح رہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ہندوستانی پاسپورٹ رکھنے والے باشندوں کی تعداد دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں پائی نہیں جاتی ۔ اس بڑی تعداد میں برسرکار ہندوستانیوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹکنوٹرائٹس ، دوسرے وہ لوگ جو کمپنی یا اداروں کے تنظیمی ڈھانچے میں متوسط درجہ میں کام کرتے ہیں ۔ تیسرا لیبر کلاس ۔ ان میں مختلف درجات کے افراد ہوتے ہیں۔ یعنی غیر فنی مزدور ، نیم فنی مزدور اور فنی مزدور۔

سعودی وزارت محنت و سماجی بہبود نے جن پیشوں کو سعودی باشندوں کیلئے مختص کیا ہے ، اس کی ایک طویل فہرست پہلے سے تھی اور حال میں اس فہرست میں مزید 12 پیشے اور شامل کئے گئے ہیں جن کی تفصیل پچھلے ہفتہ کے کالم میں پیش کی جاچکی ہے یا پھر مختصر یوں کہ تنظیمی شعبے میں سفید کالر ملازمتوں کے ابتدائی درجہ سے اوپر تک کی تمام ملازمتیں یعنی کسی شاپنگ مال کے Cashier ، سوپر وائزر اور مینجرز تک تمام عہدے سعودیوں کیلئے مختص ہیں۔ فیکٹریوں اور اداروں میں کلرک استقبال ، نیز دیگر تمام طرح کے کلرکس PRO’s ، محاسب ، سوپر وائزرس ، مینجرز ، اکاؤنٹس اور اڈمنسٹریشن کلرکس ، مینجرز اور جنرل مینجر وغیرہ وغیرہ۔ متذکرہ ان تمام عہدوں میں اکثریت آج تک بھی غیر ملکی باشندوں کی ہے اور یہ ملازمتیں حاصل کرنے میں صرف غیر ملکی باشندوں کی کوشش نہیں بلکہ خود مقامی بزنسمین ، کنسلٹنٹس ، بلڈرز وغیرہ کی مرضی یا پسند کا دخل ہے ۔ (اس کی وجہ پر ہم فی الحال گفتگو نہیں کریں گے)۔ کچھ بینکس اور اداروں نے جہاں سو فیصد سعودائزیشن پر عمل بتایا جاتا ہے کچھ غیر ملکی ٹکنورائٹس ، آئی ٹی ماہرین وغیرہ کو out source ملازمین کے طور پر رکھا ہوا ہے جو man power ایجنسی سے حاصل کئے جاتے ہیں جو ان اداروں میں کام کرنے کے باوجود ان کے ملازمین نہیں کہلاتے۔

یہاں اب سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں سعودائزیشن گراف تقریباً سو فیصد ہوچکا ہے۔ صرف محکمہ صحت ایک ایسا سرکاری شعبہ ہے جہاں آج بھی بہت بڑی تعداد میں غیر ملکی کام کرتے ہیں ۔ اس محکمہ میں بھی ہرممکن شعبہ میں سعودی باشندوں کو متعین کرنے کا عمل جاری ہے۔ جس عہدے کیلئے بھی سعودی باشندے دستیاب ہوں، ان آسامیوں کو مقامی افراد سے پر کیا جاتا ہے لیکن اگلے چھ ماہ بعد خانگی اداروں میں وزارت لیبر کی تفتیش کا عمل جب شروع ہوگا تب وہ تمام خارجی باشندے جو متذکرہ بالا آسامیوں پر کام کر رہے ہیں جو سعودی باشندوں کیلئے مختص ہیں اور جن کے اقامہ میں لکھا پروفیشن ان کے عہدے سے مختلف ہوا تو ایسے خارجی باشندوں کی ملازمت خطریمیں آجائے گی۔ ہندوستانی باشندوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹکنوکرائس ، آئی ٹی ماہرین Secretaries اور کلرکس سے لیکر ٹی بوائے اور لیبر وغیرہ تمام پیشوں میں موجود ہیں۔ مگر ہندوستانیوں کی بڑی تعداد غیر فنی ، نیم فنی یا فنی مزدوروں کے زمرے میں ہے جنہیں ابھی کئی برس تک مقامی باشندے ان کی جگہ نہیں لے سکتے لیکن چونکہ یہاں برسرکار ہندوستانیوں کی تعداد بہت بڑی ہے تو ایک اندازے کے مطابق دس تا 12 لاکھ ہندوستانی سعودائزیشن کی مہم سے متاثر ہوں گے ۔ یہ تعداد صرف گلف کے ایک ملک سعودی عرب کی ہے ۔ GCC کے دیگر پانچ ممالک میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے ۔ اگر سارے خلیجی ممالک کے این آر آئیز کی مجموعی تعداد دیکھی جائے جن کی ملازمت خطرے میں یا وہ اپنی ملازمت کھوچکے ہیں تو یہ تعداد ایک بہت بڑی تعداد ہوجائے گی ۔ جس کا اثر سارے ہندوستان پر پڑے گا ۔ اس کے علاوہ ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد کا اپنا خود کا کاروبار بھی ہے جو وہ یہاں کے کسی مقامی شہری کی کفالت میں چلاتے ہیں۔ یہ کاروبار چھوٹے اور بڑے بھی ہیں۔ اب اگر ان کاروباروں پر سعودائزیشن لاگو کرنے پر مجبور کیا جائے تو ان تاجروں کو اپنا کاروبار جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا ۔ لہذا اس شعبہ سے بھی ہزاروں ہندوستانی اپنے کاروبار ختم کر کے وطن لوٹنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ ان کے ملازمین الگ بیروزگار ہوجائیں گے ۔ ہندوستانیوں میں بہت سے افراد یہاں خانگی اسکولس بھی چلاتے ہیں۔ یہ اسکولس سعودی وزارت تعلیم سے باضابطہ لائسنس حاصل کر کے چلائے جاتے ہیں ۔ اسکولس کے اس بزنسمین دو طرح کے مسائل ہیں ۔ پہلا اسکول کا یکلخت بند کردیا جانا، جس سے طلباء تعلیمی سال کے درمیان پریشانی کا شکار ہوجائیں گے ۔ ان خانگی اسکولس میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد بھی کوئی چھوٹی تعداد نہیں بلکہ یہ تعداد بھی لاکھ تک پہنچتی ہے اور یہ خانگی اسکولس چلانے والوں کی اکثریت جنوبی ہند والوں کی ہے جس میں تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہیں۔ دوسرے اگر کوئی پنے اسکول کی سرگرمی کو جاری رکھنا چاہئے تو اسے لیبر قوانین کے مطابق سعودائزیشن پر عمل کرنا ہوگا جو کم از کم کسی اسکول چلانے والے باشندوں کیلئے مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گا ۔ خانگی اسکولس کے بند ہونے کی تیسری وجہ یہ ہوگی کہ لوگ بڑھتی مہنگائی اور فیملی فیس وغیرہ کی ادائیگی نہ کرپانے کی وجہ سے اپنے اہل و عیال کو وطن واپس بھیجنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ لہذا اگلے تعلیمی سال میں خارجی باشندوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے بچوں کو اسکول سے نکلوالیں گے ۔ بڑی تعداد میں بچوں کے اسکول سے خارج ہوجانے پر انتظامیہ کیلئے اپنی سرگرمی جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا اور جب اسکولس بندہوجائیں گے تو روزگار کھونے والوں کی فہرست مزید طویل ہوجائے گی ۔ تمام این آر آئیز چاہیں وہ اسکول چلانے والے ہوں یا دیگر تجارتی سرگرمیوں میں مشغول افراد یا ملازمت پیشہ لوگ ہوں ، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے وطن لوٹنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ جن کی تعداد بہت بڑی ہوگی۔ ہم اس کالم کے ذریعہ بار بار مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی توجہ مبذول کراچکے ہیں کہ حکومت وطن لونے والے ہندوستانیوں کی بازآبادکاری پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دے ۔ این آر آئیز کی اچانک بیروزگاری کی وجہ سے لاکھوں بچوں کے مستقبل کے خطرے میں پڑنے کا قوی اندیشہ ہے۔

ان ابتر حالات کے باوجود آج بھی ویزے بیچنے ، خریدنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ وہی ویزے جسے ہم عرف عام ’’آزاد ویزا‘‘ کہتے ہیں۔ بازار میں فروخت ہورہے ہیں اور ہنوز لوگوں کا ایسے ویژن پر یہاں آنا جاری ہے ۔ لوگ یہ ویزے اب بھی خرید کر آسکتے ہیں مگر صرف وہی لوگ جو یہاں وہ ملازمت کرنے آنا چاہتے ہیں جو سعودی باشندوں کیلئے مختص کردہ پیشوں میں نہیں ہیں ۔ دفتری کام ، کمپیوٹرز سے متعلق اور ایسی بڑی ملازمتیں حاصل کرنے کیلئے سعودی کا ویزا خریدنا ہے تو صرف اور صرف ایسا ویزا ہی حاصل کریں جس میں وہی ’’پروفیشن‘‘ لکھا ہو جس پر وہ ملازمت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اب یہاں آکر پروفیشن تبدیل کرنا ممکن نہیں۔
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے حالیہ عرصہ میں اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ این آر آئیز کیلئے حکومت تلنگانہ ایک جامع پروگرام کے بتانے پر کام کر رہی ہے ۔ تلنگانہ این آر آئیز امید کرتے ہیں کہ حکومت کا یہ پروگرام جلد مکمل ہوکر سامنے آئے گا ۔ ویسے این آر آئیز شاید Telangana Infrastructure Corporation سے واقف ہوں گے جس کے تحت حکومت نے ہر ضلع میں وسیع اراضی اس پروگرام کے تحت انڈسٹریل شڈز تیار کر کے دے گی ۔ اس پراجکٹ کے تحت صنعتیں قائم کرنے والوں کو Single Window نظام کے تحت صنعت قائم کیلئے درکار تمام اجازت نامے اور لائسنس حاصل کرنے کی سہولت مہیا کرائی گئی ہے ۔ این آر آئیز جن کا تعلق خلیجی ممالک میں بزنس سے رہا ہے وہ حکومت کی ویب سائیٹ سے ساری معلومات حاصل کر کے حکومت کی اس اسکیم سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ حکومت کی اس اسکیم کے تحت صنعتیں قائم کرنے والے این آر آئیز خلیجی ممالک کے ملازمت کھوکر وطن آنے والے افراد کو اپنی کمپنیوں میں ترجیحی بنیاد پر ملازمتیں فراہم کریں تو اس امداد باہمی سے بیروزگار این آر آئیز کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ تلنگانہ حکومت میں وزارتی سطح پر این آر آئیز امور کی نگرانی کا شعبہ بھی ہے اور ایک Infrastructur Corporation بھی ہے۔ اگر حکومت اس کارپوریشن اور Small Scale Industries Department میں خلیجی این آر آئیز کی مدد کیلئے ایک خصوصی سل قائم کرے، جس میں خلیجی این آر آئیز کیلئے کچھ مزید سہولتیں فراہم کریں تاکہ وطن واپسی پر این آر آئیز جلد از جلد یہاں قدم جماسکیں۔
knwasif@yahoo.com