تلنگانہ کے نوجوانوں نے کیا سوچا تھا اور …

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری        خیر اللہ بیگ
تلنگانہ میں جمہوریت بہت کمزور ہوتی جارہی ہے ، حق کے لڑنے والے اور روزگار کا وعدہ کرنے والے لیڈروں، حکمرانوں کو ان کا وعدہ یاد دلانے والوں کو گرفتار کرکے ان پر قانون اور پولیس کا خوف طاری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اتفاق دیکھیئے کہ اقتدار حاصل کرنے والی طاقت اپنی بقاء کیلئے بھگوانوں،دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کروڑہا روپئے کے سونے کے زیورات کی بھینٹ چڑھا کر خوش و مطمئن ہے۔ لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کی جیب ہلکی کرنے والا شاطر حکمراں آخر کتنے دن کامیابی کیلئے مندروں کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکتا رہے گا ، ایک نہ ایک دن اسے پلٹ کر عوام کے دربارمیں پہنچایا جائے گا اور اس کے بعد عوام کا فیصلہ اس کی قسمت کو اُلٹ پلٹ کر رکھ دے گا۔ تلنگانہ کے نوجوانوں نے سوچا تھا کہ ان کے لئے حاصل کی جانے والی نئی ریاست واقعی خوشحال رہے گی۔
تلنگانہ حکومت کے وزراء کو اپنی کارکردگی پر زعم ہے اور کئی ارکان اسمبلی نے بھی چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے اب تک انجام دیئے کاموں کی ستائش کی ہے۔ پداپلی کے رکن پارلیمنٹ بی سمن نے اپنے دورہ چین کے دوران وہاں سے ٹی جے اے  سی کے چیرمین پروفیسر ایم کودنڈا رام نے کھلا مکتوب لکھ کر سوال کیا کہ آیا وہ ( کودنڈا رام ) بیروزگاری کے مسئلہ پر ریالی کیوں نکال رہے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت نے اب تک وعدہ کے مطابق لاکھوں روزگار فراہم کئے ہیں۔ علحدہ ریاست تلنگانہ کے احتجاج کے دوران جن لوگوں نے اس کاز کی حمایت کی تھی یہ لوگ تلنگانہ جے اے سی کے بیانر کے تحت جمع ہوکر پروفیسر کودنڈا رام کو طاقتور بنایا تھا، اب یہی کودنڈا رام ٹی آر ایس اور چندر شیکھر راؤ کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ کودنڈا رام کو یہ اندازہ ہے کہ حکومت روزگار کی فراہمی کے لئے کتنی دلچسپی رکھتی ہے اور اب تک اس سلسلہ میں کتنے اعلامیہ جاری کئے جاچکے ہیں۔ سمن نے کودنڈا رام کے احتجاج کو غیردرست قرار دیا۔ جب منطق اور دلیل ختم ہوجاتی ہے تو دماغ بند، زبان تیز دراز اور ہاتھ گریبانوں تک پہونچ جاتے ہیں۔22فبروری کو بھی یہی ہوا اور ایک طرف چیف منسٹر دیوی دیوتاؤں کو خوش کررہے تھے اور کروڑہا روپئے کے زیورات بھینٹ کررہے تھے دوسری طرف تلنگانہ کے نوجوانوں کو پولیس سڑکوں سے گرفتار کررہی تھی، یہ لوگ اپنے لئے روزگار مانگ رہے تھے اور پولیس ا نھیں لاٹھیاں دے رہی تھی۔ یہ واقعات ماقبل تلنگانہ کے قیام کے دوران ہونے والے سیاسی ماحول کی مثال پیش کررہے تھے۔
تلنگانہ کے قیام سے قبل آندھرائی نظام میں تلنگانہ نوجوانوں پر جس طرح طاقت کو غالب لایا جاتا تھا اسوقت میڈیا میں کبھی بات چھپ جاتی کبھی چھاپی جاتی اور کبھی اس کو زبردستی یا مجبوراً رکوالیا جاتا تھا لیکن موجودہ صورتحال میں اب کچھ چھپانا ممکن نہیں ہے نہ حقیقت سے منہ موڑنا کیونکہ سب کے ہاتھ میں موبائیل فون ہے، واٹس ایپ، فیس بک ہے، چھوٹے چھوٹے موبائیل پر بڑے بڑے واقعات ریکارڈ ہورہے ہیں، جو کچھ سامنے آجاتا ہے اس کی وضاحت دینی بھی مشکل ہے، عوام کا یقین کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔ ہمارے سامنے حکومت اور پولیس کی طاقت ہے تو عوام کے ہاتھوں میں موبائیل فون کے ذریعہ سوشیل میڈیا سرگرم ہے، اس لئے نوجوان حکومت کی طاقت اور پولیس کی زیادتیوں کا جواب دینے کے بجائے واقعات کی ریکارڈنگ تک ہی مصروف ہونے لگے ہیں، تو آپ سوچیئے کہ حالات کا رُخ کیا ہوگا۔ تلنگانہ میں احتجاج اور حکمرانی کے درمیان جو حقائق ہیں ان میں چند حقائق سے آپ تو ضرور واقف ہوں گے تو تلنگانہ میں سال 2015 میں 1358 کسانوں نے خودکشی کی، ہندوستان میں غربت کے باعث خودکشی کرنے والے 1699 کیسوں میں 839 کیس تلنگانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تلنگانہ میں ایک لاکھ کی آبادی میں265 خودکشیاں ہوئی ہیں۔ ریاست میں کم از کم 17,961پولیس جائیدادیں خالی ہیں جبکہ حکومت نے 64489 تقررات کا اعلان کیا تھا۔ تلنگانہ میں قرض یا خسارہ کا بھی بھاری بوجھ ہے۔ اس وقت تلنگانہ 1.23 لاکھ کروڑ قرض کے بوجھ سے دبا ہوا ہے۔ ریاستی وزیرفینانس ای راجندر کی جانب سے پیش کردہ بجٹ تخمینہ میں یہی بتایا گیا ہے کہ تلنگانہ مقروض ریاست ہے۔ حصول تلنگانہ سے قبل یہی ٹی آر ایس کے قائدین دعویٰ کررہے تھے کہ تلنگانہ کی زمین زرخیز ہے اور اس کے دارالحکومت حیدرآباد کی آمدنی سے ساری ریاست کا خرچ برداشت کیا جاسکتا ہے اور قرض لینے کی قطعی ضرورت نہیں ہوگی۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے چندر شیکھر راؤ نے عوام کے ٹیکسوں کی جمع کردہ رقم کا غلط استعمال کرتے ہوئے دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنا شروع کیا ہے تو اس عمل کے پیچھے کیا منطق پنہاں ہے یہ واضح ہونا چاہیئے۔
تلنگانہ کی معاشی سیاست کا بنیادی عنصر کیا ہے اس پر غور نہ کرنا بڑی غلطی ہے۔ سیاستدانوں کی سب سے عظیم دلچسپی اپنی سیاسی بقاء پر مرکوز ہوتی ہے۔ بیورو کریسی بھی اپنی ترقی کیلئے دوڑ رہی ہے، اپنے ہی جیب اور پیٹ کی فکر میں لگے ہوئے ہیں تو پھر ریاست کی حیثیت اور اس کے معاشی مفادات داؤ پر لگادیئے جاتے ہیں۔ سیاستدنوں کا اہم مفاد ہمیشہ ایک سیاستداں کے طور پر برقرار رہنے کی خواہش ہوتی ہے۔ کسی دیوی، دیوتا کو اگر اس کا بھگت اپنے عقیدہ کے مطابق کوئی چیز قربان یا بھینٹ کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کی خالص محنت کی کمائی ہوئی رقم ہونی چاہیئے۔ بلا شبہ کے چندر شیکھر راؤ نے تروملا تروپتی مندروں میں جو سونا بھینٹ کیا ہے یہ ان کی اپنی دولت سے خریدا ہوا سونا تو نہیں ہوسکتا۔ کیا یہ بھینٹ ٹیکس دہندگان کی رقم کا درست استعمال سمجھا جائے گا۔
تلنگانہ کی خوشحالی اور روشن خیالی کے ایجنڈے کا پرچار کرکے آنے والی ٹی آر ایس حکومت سے عوام نے بہت توقعات باندھی تھیں لیکن نظام زر، نظام واستو اور نظام بھینٹ میں ہی حکومت کے 3 سال گذر گئے۔ عوام کو تحفظ ملا نہ  ترقی ہوئی، اُلجھن برقرار ہے۔اس جمہوری دور میں ایک ہی نام یا خاندان اقتدار کا مالک، ریاست کا سربراہ ہے باقی ہاتھ باندھ کر مدد کی بدستور منتظر ہے، حکومت کی لاپرواہی میں محض سربراہ مملکت ہی نہیں بلکہ سب ہی حصہ دار ہیں۔ پروفیسر کودنڈا رام نے صرف صدا بلند کرکے اپنے حصہ کا چراغ جلا لیا ہے کیونکہ اب تک گمنامی میں تھے پھر سے منظر عام پر آئے ہیں لیکن حکومت نے انہیں بتادیا ہے کہ وہ جس دَر پر دستک دینے کی کوشش کررہے تھے اس دَر کے اندر محو خواب قیادت کو جگانا آسان نہیں ہے۔ حکومت کو یہی زعم ہے کہ اس نے تلنگانہ کی سیاست میں اپوزیشن کے کردار کو تقریباً ناپید کردیا ہے۔جہاں ایک مضبوط اپوزیشن اور باشعور معاشرہ نہ ہوگا وہاں حکمراں طبقہ خود کو اختیار کُل سمجھنے لگتا ہے۔
kbaig92@gmail.com