تلنگانہ کے مسلمان ۔ کیا واقعی خوش نصیب ہیں

تلنگانہ اے پی ڈائری            خیراللہ بیگ
تلنگانہ میں ٹی آر ایس کی حکومت ہے ، کے چندر شیکھر راؤ اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل کی جانب پیشرفت کررہے ہیں مگر مرکز میں نریندر مودی سب طبل و علم کے مالک و مختار ہیں ، مسلم تحفظات کے مسئلہ پرگو ان میں شدید اختلافات ہیں۔ چنانچہ تحفظات کو’’ اِدھر ہم اور اُدھر تم ‘‘ کی مفاہمت کی نذر کرنے کا قوی امکان پایا جاتا ہے۔ تحفظات پر عمل آوری کے تعلق سے مختلف گوشوں نے اندیشے بھی پیدا کرلئے ہیں۔ سابق مرکزی وزیر ایس جئے پال ریڈی نے تلنگانہ حکومت پر مسلمٹانوں کے لئے تحفظات پر عمل آوری میں ’’ سنجیدگی ‘‘ کے فقدان کا سوال اُٹھایا ہے تو دیگر کئی سیاسی وسماجی پنڈتوں نے بی جے پی کے حق میں تاثرات ظاہر کرنے شروع کئے ہیں کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ریاست میں مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات دینے کی کوششوں کے ذریعہ درپردہ طور پر بی جے پی کو تلنگانہ میں مضبوط بننے کا موقع فراہم کیا ہے۔ کے سی آر نے گھبراہٹ کے عالم میں نہ صرف نریندر مودی کو ہمت و حوصلہ بخشا ہے بلکہ اپنے اختلاج قلب کو دور کرنے کیلئے پارٹی کے یوم تاسیس کو دھوم سے مناکر عوامی قوت کا مظاہرہ کرنے کا بندوبست کیا۔ چونکہ اقتدار کی اپنی منطق ہوتی ہے اور یہ ہر قسم کی اخلاقیات، مروت اور محبت کے جذبوں سے ماورا ہوتی ہے، اس لئے صاحبِ اقتدار کو یہ تشویش و فکر لاحق ہوتی ہے کہ دوست، دست درازی پر نہ اُتر آئیں۔ اس قسم کی پریشان کن صورتحال سے بچنے کیلئے ہی چند آزمودہ نسخے آزمائے جاتے ہیں اور کے سی آر کے لئے بہترین نسخہ مسلم تحفظات ہے۔
سیاستداں تو اپنے  ہر فائدہ کا سامان کرلیتے ہیں، اس سے بھرپور فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔’’ ایک کام دو کاج ‘‘ کے کیا معنی ہوتے ہیں یہ سمجھنے کیلئے عوام کو ٹیکس نہیں لگے گا بلکہ صرف دو سال کا وقفہ ہی کافی ہے۔ ٹی آر ایس سربراہ نے تحفظات کا مسلم فرینڈلی ظاہر کرنے کے بعد اپنے قائدین اور کارکنوں کو محنت مزدوری پر لگادیا ہے تاکہ ٹی آر ایس کی یوم تاسیس تقاریب کو پارٹی کے لیڈروں کی جانب سے انجام دی گئی مزدوری اور اس سے حاصل ہونے والی اجرت کے ذریعہ منعقد کیا جاسکے۔ ان لیڈروں کی ایک روز کی کمائی کو دیکھ یا سن کر بے چارے دن بھر سخت دھوپ میں محنت مزدوری کرنے والوں کا جسم سن ہوگیا ہوگا کیونکہ یہ مزدور اپنا خون پسینہ بہاکر بھی ایک وقت کی روٹی کا بندوبست نہیں کرسکتے ، مرکزی حکومت نے نوٹ بندی اور دیگر پالیسیوں کے ذریعہ ظلم و ستم کے اپنے گُر ایجاد کرلیئے ہیں تو ریاستی حکومت نے عوام کو ہر وقت خوش رکھنے کے اپنے طریقے ایجاد کرلئے ہیں۔ ایک دن کی محنت مزدوری کرکے پارٹی کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے جو طریقہ بھی ایجاد کرلیا گیا ان ریاستی وزراء اور حکمراں پارٹی کے قائدین نے اپنے گھروں میں کبھی فروٹ جوس تیار نہیں کیا ہوگا ، پان پر کتھا نہیں لگایا ہوگا اور نہ ہی کبھی چولہا چکی میں دلچسپی دکھائی ہوگی، جھاڑو پوچا نہیں کیا گیا لیکن پارٹی کیلئے فنڈس اکٹھا کرنے کسی سڑک کے کنارے چائے کی بنڈی، جوس سنٹر جاکر چائے فروخت کی اور لاکھوں روپئے کمائے، جوس بناکر لوگوں میں تقسیم کیا اور ہزاروں کا بل وصول کیا۔ واہ بھائی واہ !کیا  صلاحیت ہے، سونے کی دکان پر سیلس مین بن کر یا خانگی دواخانوں میں وارڈ بوائے کا کام کرکے بھی کافی رقم جمع کرلی ہے۔ عوام الناس کی نظروںکو چکاچوند کرنے والی مزدوری اور اس مزدوری سے ملنے والی اجرت ایک غریب مزدور کے ساتھ بڑا مذاق ہے۔ یہ لیڈرس اپنے گھریلو ملازمین یا زرعی شعبہ میں کام کرنے والے کھیت مزدوروں کو برابر اجرت نہیں دیتے اور خود مزدوری کرکے لاکھوں کمالیتے ہیں تو واقعی ان کا یہ ہنر ہے۔ محنت مزدوری کرکے پیسہ کمانے کے ہنر کا مظاہرہ وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ نے کیا تھا۔ ان کے بعد وزیر آبپاشی ہریش راؤ نے ٹی اسٹال پر چائے بیچی اور ترکاری فروخت کیا ۔ اس سے لاکھوں روپئے کمائے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی دختر نے بھی ساڑیاں فروخت کرکے لاکھوں روپئے کمالیئے۔ یہ سب کمال ہوگیا۔ ان کے نقش قدم پر چل کر درجنوں وزراء اور ارکان اسمبلی نے بھی دھوپ میں محنت مزدوری کی۔ ایک ایم ایل اے نے اپنی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر کالج میں طلباء کو بہتر تعلیم کرنے کی ترغیب دینے والا لیکچر سنایا تو کسی نے حجام کی دکان پر لوگوں کا سر مونڈھ کر پیسہ کمایا۔
اس میں دورائے نہیں کہ ٹی آر ایس قیادت کو عوام الناس میں تحریک پیدا کرنے کا ہنر زبردست ہے۔ تلنگانہ کے حصول کے لئے انہوں نے 12سال تک اس تحریک کو خون پسینہ دیا ہے اور ہر وقت انہوں نے جلسہ عام منعقد کرکے کثیر عوام کو جمع کیا ہے۔27اپریل کو بھی ورنگل میں ٹی آر ایس کے قیام کے 16ویں یوم تاسیس کے موقع پر منعقد شدنی جلسہ عام کے لئے عوام کی کثیر تعداد کو جمع کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ سال 2010 میں جب تلنگانہ تحریک بام عروج پر تھی تو کے سی آر نے ایک بڑا عظیم الشان جلسہ عام منعقد کیا تھا جس میں ایک اندازہ کے مطابق 25 لاکھ افراد نے شرکت کی تھی۔ کے سی آر میں مجمع اکٹھا کرنے کا ہنر ہے اور وہ اپنے نشانہ کو چھونے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ صورتحال کچھ مختلف ہے چونکہ پارٹی کو تنہا طور پر عوام کی کثیر تعداد جمع کرنی پڑے گی۔ سابق میں عوام محض تلنگانہ تحریک کے جوش و خروش میں جمع ہوتے تھے لیکن اس وقت ریاست میں مختلف عوامی گوشوں میں حکومت کے تعلق سے مختلف رائے پیدا ہوچکی ہے۔ اب بحیثیت حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کو جلسہ گاہ تک عوام کی کثیر تعداد کو اکٹھا کرنا بہت مشکل ہوگا۔ ریاست کے بیروزگار نوجوان، طلباء اور کسان حکومت سے ناراض ہیں کیونکہ حکومت نے اپنے وعدے پورے نہیں کئے ہیں۔ پارٹی قیادت نے اپنے پارٹی لیڈروں سے واضح کہہ دیا ہے کہ وہ جلسہ گاہ تک عوام کو لانے کیلئے کوئی مالی مدد نہیں کرے گی بلکہ پارٹی کے ہر ایم ایل اے اور وزیر کو اپنے  بَل یا خرچہ پر ہی عوام کو جلسہ گاہ تک لانے کا انتظام کرنا ہوگا۔ اس طرح کی ہدایت کے بعد پارٹی کے قائدین کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ لوگ عوام سے رجوع ہوکر جلسہ کی تیاریوں کے لئے زور دے رہے ہیں۔
جن قائدین نے پارٹی قیادت کا دل رکھنے کے لئے ایک لاکھ یا 50ہزار لوگوں کو  حلقہ سے جلسہ گاہ تک پہنچانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب ان کے لئے ایسا کرنا عملی طور پر مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ جب پارٹی قائدین کو عوام اکٹھا کرنے میں مشکل ہوتی ہے تو پارٹی قیادت کا مسلم تحفظات بل منظور کرانے اور اس پر عمل آوری کے لئے بھی پاپڑ بیلنے پڑیں گے کیونکہ بی جے پی کے ترجمان کرشنا ساگر راؤ نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ  ان کی پارٹی عدالت سے رجوع ہوسکتی ہے کیونکہ ریاستی حکومت نے تحفظات میں اضافہ کا بل منظور کردیا جبکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر دوراں ہے۔ کے سی آر بھی اس سے بخوبی واقف ہیں پھر بھی انہوں نے ہمت دکھائی ہے تو ان کی اس ہمت کے سہارے بی جے پی ریاست تلنگانہ میں قدم جمانے میں کامیاب ہوگی اور سب سے زیادہ برا حشر تو کانگریس کا ہوگا جس کے ریاستی قائدین نے قسمیں کھاچکے ہیں کہ کے سی آر کو اقتدار سے بیدخل کرنے تک وہ اپنی داڑھی نہیں منڈوائیں گے۔ کے سی آر کا اقتدار طوالت اختیار کرجائے تو صدر پردیش کانگریس کے چہرے کا کیا حشر ہوگا۔
kbaig92@gmail.com