تلنگانہ کے مسلمانوں کو صرف ’’تسلی‘‘ مل رہی ہے

تلنگانہ  /اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کی سیاست میں لمبی زبان والے سیاستدانوں نے خوب دھوم مچارکھی ہے ۔ ایوان اسمبلی میں زبان کا نہایت ہی خوبی کے ساتھ استعمال کرنے والوں نے باہر نکل کر یہ نہیں دیکھا کہ اقلیتی اداروں کے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔ اقلیتوں کے مسائل کو کس ڈھنگ سے نمٹا جارہا ہے ۔ جب تلنگانہ تحریک چلی تھی تو ریاست کے مسلمانوں نے لمبی زبان کے لیڈروں پر کافی بھروسہ کرلیا تھا اب اقتدار پر آنے کے بعد یہ لوگ مسلمانوں کے مسائل ، ضرورتوں ، تقاضوں کے ساتھ نیم حکیم خطرے جان یا کسی گاؤں کے پیر مرشد کی طرح برتاؤ کررہے ہیں ، جن کو کچھ آتا نہیں ہے ۔ کچھ دینا نہیں ہوتا وہ صرف لمبی زبان کا بڑا وعدہ کرتے ہیں ۔ گاؤں میں اگر کسی پیر یا مرشد کو مقبولیت مل جائے تو وہ ہر مرض کا علاج ایک ہی طریقہ سے کرتا ہے ۔ یعنی کسی کو تعویذ دیدیا تو اسے ساتھ میں تسلی بھی دی جاتی ۔ لوگ بابا کی  تعویذ لے کر خوش ہوتے ۔ صحت ملے نہ ملے مگر تسلی ہوجاتی تھی کہ بابا نے تعویذ دیدی ہے ۔ جب پورے گاؤں میں کوئی پڑھا لکھا نہ ہو تو پیر و مرشد کی نکل پڑتی ہے ۔ جبکہ گاؤں والوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ بھی پڑھے لکھے نہیں ہیں تو ان سے کسی نے پوچھا کہ پڑھے لکھے نہیں ہیں تو تعویذ کیسے لکھتے ہو ۔ پیر صاحب نے کہا کہ ان پڑھ لوگ بہت جلد کسی کی بات پر یقین کرلیتے ہیں اس لئے میری بات اور تعویذ کو ہی صحت و ترقی کا ضامن مان کر حاصل کرتے ہیں ۔ پھر لوگوں کا علاج کیسے کرتے ہو تو پیر نے بتایا کہ اس نے اپنے مرشد سے صرف ایک لفظ لکھنا سیکھ لیا تھا وہی ہر تعویذ پر لکھ دیتا ہوں ۔ ان پڑھ پیر سے یہ پوچھا گیا کہ آخر مریضوں کو اس کی تعویذ سے تسلی کیسے ہوتی ہے تو پیر نے کہا کہ مرشد نے جو لفظ سیکھا تھا اس کو تعویذ میں لکھ دیتا ہوں اور لوگ یہ تعویذ لے کر خوش ہوجاتے ہیں جب تعویذ کھول کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا ’’تسلی ‘‘ ۔ یہ لفظ اتنا قوی ہے کہ جس کی زبان سے نکل جائے کئی مسائل دب جاتے ہیں ۔ مسلمانوں کو بھی اس تسلی کی تعویذ دے کر اب تک حکمرانوں نے اپنی سیاسی پیر مریدی کا فائدہ اٹھایا ہے ۔ کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ ایوان اسمبلی میں مسلمانوں کے حق میں کئے جانے والے اعلانات پر عمل آوری ہوئی ہے اگر ہوئی ہے تو اس کا راست فائدہ صرف ایوان میں بیٹھے حواریوں کو ہوا ہے ۔ اقلیتوں کے ساتھ ہمدردی کی بات کرنے والی حکومتوں نے اب تک اپنا سیاسی بزنس چمکایا ہے ۔ مسلمان اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان کی حکومت اور ان کے حکمراں بہت اچھے ہیں وہ لاکھ خرابیوں اور آزمائشوں اور ماضی کے تجربات کے باوجود اپنے آپ کو اس خوش فہمی کی قید سے آزاد نہیں کرتے ۔ مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ لیڈروں کی تسلی بھری باتوں اور اس سے حاصل ہونے والی خوش فہمی سے باہر آئیں ۔ کھلی ہوا میں سانس لیں ۔ ذہنی بیماریوں سے بچنے کے لئے آپ کا خوش فہمی کے جال سے باہر نکل آنا ضروری ہے ۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ ماضی میں کیا ہوا ۔ اب تلنگانہ تشکیل پانے کے بعد کیا ہورہا ہے ۔ اقلیتوں کی شکایات کی سماعت ان کے مسائل کی یکسوئی اور روزمرہ امور کا جائزہ لینے کے لئے بنائے گئے اقلیتی کمیشن کے ساتھ حکومت کا رویہ معاندانہ ہو تو پھر ان کی بھلائی کی توقع فضول ہوگی ۔ گزشتہ دنوں قومی اور ریاستی اقلیتی کمیشنوں کی درگت کے بارے میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں یہ آپ کی آنکھ کھول دینے کے لئے کافی ہے کہ آخر اس حکومت یا حکومتوں سے توقع کرنے کی کیا وجہ ہونی چاہئیے ۔ ریاستی اقلیتی کمیشن کو ازخود بے سروسامانی کا شکار بنادیا جارہا ہے تو ریاست کی اقلیتوں کا کیا حال ہوسکتا ہے یہ غور طلب امر ہے ۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش دونوں ریاستوں کی خدمت کرنے والے کمیشن کو عارضی دفتر فراہم کرکے در در کی ٹھوکر ہی کھلائی جارہی ہیں ۔ گزشتہ دنوں کمیشن کے دفترکو راگھوا سدن سے اچانک راتوں رات چھوٹے دو بیڈروم والے سرونٹ کوارٹر منتقل کیا گیا ۔ ریاستی کمیشن کو ادارہ کی حیثیت حاصل ہے جس کا قیام آندھراپردیش ری آرگنائزیشن ایکٹ 2013 ء کے 10 ویں شیڈول کے تحت عمل میں لایا گیا اور اس کو پارلیمانی قانون 1979 ء کی روشنی میں تقویت حاصل ہے ۔ مگر چونکہ یہ اقلیتوں کے امور دیکھتا ہے لہذا اس کے ساتھ اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی طرح ہی برتاؤ کیا جانا چاہئیے ۔ یعنی ’’گھر کا نہ گھاٹ کا ‘‘ ۔ حکومت کا نظریہ یہی دکھائی دیتا ہے تو پھر مسلمانوں کی ترقی اور تحفظات اسلامک سنٹر کے قیام دیگر امور کے لئے بے دریغ فنڈس جاری کرنے کے اعلانات صرف خوش فہمی میں مبتلا کرنے والے حربے معلوم ہوں گے ۔ یہ سب جانتے ہیں کہ اچھے کام کرنے سے آپ کی رواداری سے ، ایمانداری سے ، مثبت رویے سے آپ کو اس دنیا میں عزت ملتی ہے جس کو سنبھال کر رکھنا ہی کامیابی ہے مگر جو لوگ صرف مطلب کی بات کرتے ہیں ان کے بارے میں کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ کب کیا سلوک کرنے والے ہوتے ہیں ۔

یہ حکمراں ترقی اور شہرت کی آندھی کا شکار ہوکر اپنے آپ کا کوئی احتساب کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ سرکاری خزانے کو خالی بنانے والے متعدد اسکیمات کو ابھی شروع ہی نہیں کیا گیا ہے مگر خوش فہمی والے اعلان کے ذریعہ کہا جارہا ہے کہ منی کونڈہ کی وقف اراضی پر 40 کروڑ روپئے کے خرچ سے اسلامک سنٹر بنایا جائے گا ۔ یہ اسلامک سنٹر عالمی معیارات کا حامل ہوگا ۔ ایک اقلیتی کمیشن کو دفتر چلانے کے لئے جگہ فراہم کرنے سے قاصر حکومت خوش فہمی کی تعویذ دے کر 40 کروڑ روپئے خرچ کرنے کی بات کررہی ہے ۔ اس ایک نشست میں حکومت کے دو روپ دیکھ کر بھی آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ کس قدر خوش فہمی کی سیاست ہے ۔ حکومت کے ایوان میں اقلیتی امور پر اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کرکے جائزہ لینا اور عہدیداروں کو یہ کرو وہ کرو کی ہدایت دینا ایک اچھا مشغلہ ہے ۔ ریاست میں یتیم بچوں کے لئے رضاکار تنظیمیں اور کار خیر کا جذبہ رکھنے والے افراد بحسن خوبی سے خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ ایسی ہی ایک کوشش برسوں سے انیس الغرباء میں جاری و ساری ہے ۔ حکومت نے انیس الغرباء کے لئے 21 کروڑ روپئے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ اس کے لئے 4000 گز کی اہم اراضی بھی پہلے ہی الاٹ ہوچکی ہے ، فائیل پر دستخط بھی ہوچکی ہے ۔ توقع ہے کہ کام تیزی سے شروع ہوکر تکمیل پائے گا ۔ اردو اسکولوں اور اردو کالجس کے لئے اردو ٹیچرس کی بھرتی کے لئے ڈی ایس سی کا انعقاد عمل میں لایا جارہا ہے ۔ مکہ مسجد کے لئے  8.48 کروڑ روپئے جاری ہوئے ہیں تاکہ جامع طور پر اس کو ترقی دی جاسکے ۔ اس سے پہلے ڈپٹی چیف منسٹر نے 10 کروڑ کا اعلان کیا تھا ۔ فلک نما سرکاری جونیر کالج کے ڈگری کالج بنانے 10 کروڑ روپئے مل رہے ہیں ۔ مسلمانوں کو ترقی دینے خاصکر آئی ٹی شعبہ میں مسلم صنعت کاروں کو آگے بڑھانے کے لئے خصوصی معاشی زون کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے ۔ حکومت کے منصوبے شاندار ہیں ، عزائم بھی نیک ہیں ۔ دُعاصرف یہی ہونی چاہئیے کہ یہ پیرومرشد کی تعویذ کی طرح ثابت نہ ہوں ۔ خوش فہمی کا شکار مسلمانوں کو اداس کرنے والی خبروں سے اللہ محفوظ رکھے ۔ اونچی اڑان کے ساتھ بلند بانگ دعوے کرنے والے سیاستدانوں اور زمین پر بیٹھے اپنی پریشانیوں کا ماتم کرنے والے مسلمانوں کے لئے ایک حاصل مطالعہ قول دہرایا جاتا ہے کہ گدھ نے چکور سے کہا تیری کوئی زندگی ہے جو زمین پر بیٹھا شام گزار دیتا ہے ۔ مجھے دیکھ کیا میں اونچا اڑتا ہوں کیا میری اڑان ہے تو چکور نے جواب دیا ایسی اونچائی اور اڑان کا کیا فائدہ جس میں نظریں زمین پر پڑے مردھار کو ہی دیکھتی رہتی ہیں ۔ میں دھرتی پر رہتا ہوں مگر سوچ میں چاند رکھتا ہوں ، تو آسماں پر اڑتاہے مگر سوچ میں تیرے مردے رکھتا ہے ۔ آپ کے لئے یہی بات اہم کہ آپ نے اپنے لئے کیا مقام بنایا ہے ۔ آپ کہاں رہتے ہیں یہ زیادہ اہمیت کی بات نہیں ہے ۔ آپ کی سوچ کیا ہے اور اس کا استعمال کیا ہے یہ اہم ہے ۔
kbaig92@gmail.com