تلنگانہ کے بیشتر وزراء محض ربر اسٹامپ

وسط مدتی انتخابات کے اشارے
سیاسی سرگرمیاں زوروں پر

محمد نعیم وجاہت
وسط مدتی انتخابات کے اشارے ملتے ہی تلنگانہ میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں ہر سیاسی جماعت اپنی اپنی کامیابی کیلئے خصوصی حکمت عملی مرتب کرنے میں مصروف ہوگئی ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر نے 100 اسمبلی حلقوں پر کامیابی حاصل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے انتخابی بگل بجادیا ہے ۔ وہیں اصل اپوزیشن کانگریس ہمخیال جماعتوں کے ساتھ عظیم اتحاد تشکیل دیتے ہوئے ٹی آر ایس کے ارمانوں پر پانی پھیرنے میں جٹ چکی ہے ۔ تین ریاستوں مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے عام انتخابات بی جے پی کیلئے بہت بڑا چیلنج بن گئے کیونکہ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی برسراقتدار ہے اور وہاں مخالف حکومت لہر کے سبب بی جے پی کی قومی قیادت خوفزدہ ہے ۔ ان ریاستوں میں منعقدہ ضمنی انتخابات کے نتائج بی جے پی کو فکر میں مبتلا کرچکے ہیں۔
2014 ء کے عام انتخابات کے بعد سوائے دو تین ریاستوں کے تمام ریاستوں میں بی جے پی نے کامیابی درج کی ۔ سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھرنے کے باجود تین چھوٹی ریاستوں میں دوسری جماعتوں سے تعاون سے بی جے پی نے حکومت تشکیل دی ہے ۔ ان چار سال کے دوران بی جے پی کا گراف گھٹا ہے ۔ وہ اسمبلی اور لوک سبھا کے انتخابات کا علحدہ علحدہ سامنا کرنے کے بجائے ایک ساتھ وسط مدتی انتخابات پر غورکررہی ہے ۔ حالیہ عرصے میں جہاں بی جے پی کو جھٹکے لگے ہیں وہی اپوزیشن میں اتحاد بھی قائم ہوا ہے جس کی تازہ مثال کرناٹک ہے ۔ کرناٹک میں کانگریس دوسری پارٹی بن کر اُبھرنے کے باجود اس نے بی جے پی کے بڑھتے قدم کو روکنے کیلئے جو حکمت عملی تیار کی ہے اس سے صاف اشارے مل گئے ہیں کہ کانگریس پارٹی تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی شروعات کرچکی ہے ۔ تلگودیشم کی این ڈی اے سے علحدگی اور حلیف ہوتے ہوئے بھی شیوسینا بی جے پی کے خلاف علم بغاوت بلند کرچکی ہے جس کے سبب ملک کے تازہ سیاسی صورتحال بی جے پی کے لئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہورہے ہیں ۔

15 جون کو دہلی پہونچ کر چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ہے ۔ دونوں کے درمیان وسط مدتی انتخابات کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر نے اپنے سینئر وزارء سے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ریاست کی تازہ صورتحال کا جائز لیاہے ۔ کانگریس کے سینئر قائد ڈی ناگیندر کی ٹی آر ایس میں شمولیت کے موقع پر کے سی آر نے اپوزیشن کو وسط مدتی انتخابات کا چیلنج کیا اور ٹی آر ایس کو ریاست کے 119 کے منجملہ 100 اسمبلی حلقوں پر کامیاب ہونے کاتاثر دیتے ہوئے اپوزیشن کے حلقوں میں ہلچل مچانے کی کوشش کی مگر یہ وار ٹی آر ایس کیلئے اُلٹا پڑ گیا ہے۔ چیف منسٹر کے اس اعلان کے بعد اپوزیشن سے زیادہ ٹی ْآر ایس کے حلقوں میں بے چینی دیکھی جارہی ہے ۔
2014 ء میں کانگریس پارٹی نے علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دیا مگر اُس وقت کانگریس کو اقتدار حاصل نہ ہونے کی کئی وجوہات تھی ۔ آندھرائی کانگریس قائدین نے لمحے آخر تک تلنگانہ کی مخالفت کی تھی۔ آندھرائی چیف منسٹرس نے تلنگانہ تحریک میں کئی رکاوٹیں پیدا کی تھی ، اس کے علاوہ تلنگانہ کے کانگریس قائدین میں اتحاد کا فقدان تھا اور تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی ٹی آر ایس کی تائید میں تھی ۔ تلنگانہ تحریک میں اہم رول ادا کرنے والی ٹی آر ایس کیلئے یہ سب کچھ سازگار ثابت ہوا اور 63 اسمبلی حلقوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے ٹی آر ایس نے حکومت تشکیل دی ۔کونسل میں ٹی آر ایس کی برائے نام نمائندگی تھی ، اسمبلی میں منظور ہونے والی بل کا کونسل میں منظور ہونا دستوری فریضہ ہے ۔ ٹی آر ایس نے تلگودیشم کے تمام ارکان قانون ساز کونسل کو ٹی آر ایس میں شامل کرلیا اس کے بعد کانگریس کے بھی چند ارکان کو حاصل کرتے ہوئے تلنگانہ قانون ساز کونسل کے صدرنشین کے عہدے پر قبضہ کرلیا ۔ اس کے بعد اپوزیشن کے 25 ارکان اسمبلی کو ٹی آر ایس میں شامل کرتے ہوئے اپوزیشن کو پوری طرح کمز ور کردیا اس مہم میں تلگودیشم کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے ۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی کا ایک رکن پارلیمنٹ اور تین ارکان اسمبلی بھی ٹی آر ایس میں شامل ہوگئے ۔

کے سی آر نے ان چار سال کے دوران حکومت پر اپنی گرفت مضبوط رکھی ۔ کانگریس اور تلگودیشم میں اہم مقام رکھنے والے قائدین ٹی آر ایس میں عہدے حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوگئے مگر ٹی آر ایس میں ان کی زبان بندی ہوگئی ۔ حکومت پر کے سی آر ۔ کے ٹی آر ، کویتا اور ہریش راؤ کا کنٹرول ہوگیا ۔ ٹی آر ایس حکومت میں بیشتر وزراء کو اپنے متعلقہ محکمہ جات میں مداخلت کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔ وہ ربر اسٹامپ بن کر رہ گئے ہیں ۔ تمام فیصلے پرگتی بھون میں ہوتے ہیں صرف دستخط کے لئے ان تک فائیل پہونچ جاتی ہے ۔ تلنگانہ حکومت میں تلنگانہ تحریک کے مجاہدین کو نظرانداز کیا گیا جبکہ مخالفین تلنگانہ کو وزارت کے علاوہ بورڈ و کارپوریشن کے اہم عہدوں پر فائز کیا گیا ہے ۔ منتخب عوامی نمائندوں پر سرکاری عہدوں کو اہمیت دیتے ہوئے نظم و نسق کے فیصلے کئے جارہے ہیں جس سے آہستہ آہستہ ٹی آر ایس میں ناراضگیاں دیکھی جارہی ہے ۔ وسط مدتی ہو یا عام انتخابات اپوزیشن سے زیادہ حکمراں ٹی آر ایس پارٹی کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے ۔ بظاہر تمام ارکان اسمبلی کو دوبارہ ٹکٹ دینے کا چیف منسٹر تلنگانہ و سربراہ ٹی آر ایس کے چندرشیکھر راؤ اعلان کررہے ہیں مگر انٹلیجنس کے علاوہ مختلف ایجنسیوں سے کرائے جانے والے سروے میں چونکادینے والے انکشافات ہورہے ہیں ۔ موجودہ ٹی آر ایس کے ارکان سمبلی میں 40ارکان اسمبلی کی کارکردگی مایوس کن اور ان سے عوام ناراض ہیں، بیشتر ارکان اسمبلی کا پارٹی کیڈر سے بہتر سلوک نہیں ہے جس کی وجہ سے چیف منسٹر نے ان حلقوں کو (ڈینجر زون) میں رکھا ہے اور ان حلقوں پر خاص توجہہ دینے کی چند وزراء کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری پارٹیوں سے ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے 25 ارکان اسمبلی کو ٹی آر ایس کا مقامی کیڈر ابھی تک قبول نہیں کیا ہے۔ 2014ء میں ان حلقوں سے ٹی آر ایس کے ٹکٹ پر مقابلہ کرنے والے قائدین ان کی تائید کرنے کو سیاسی خودکشی تصور کررہے ہیں جس سے پارٹی میں گروپ بندیاں اور اختلافات شروع ہوگئے ہیں ۔ ٹی آر ایس کو تنظیمی سطح پر مضبوط کرنے کیلئے ابتداء میں دوسری جماعتوں کے اہم قائدین کو ٹکٹ دینے یا اہم عہدے دینے کا وعدہ کرتے ہوئے ٹی آر ایس میں شامل کیا گیا مگر انھیں ابھی تک کچھ نہیں دیا گیا ہے جس سے وہ بھی مایوس اور ناراض ہیں ۔ گریٹر حیدرآباد کے 24اسمبلی حلقوں میں ٹی آر ایس کا زورشور نہیں ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ گریٹر حیدرآباد کے انتخابات میں 150 کے منجملہ 99 ڈیویژنس میں ٹی آر ایس نے تاریخی کامیابی درج کی ہے مگر ترقیاتی و تعمیری کاموں کی منظوری کے باوجود جی ایچ ایم سی کی جانب سے بجٹ کی عدم اجرائی کے باوجود کام ادھورے ہیں اور کارپوریٹرس یا ان کے ارکان خاندان کی بیجا مداخلت سے بھی عوام ناراض ہیں باوجود اس کے ٹی آر ایس کو ترقیاتی تعمیری اور فلاحی اسکیمات بالخصوص ریتو بندھو اسکیم اور کسان انشورنس پر مکمل بھروسہ ہیکہ اقتدار ان کے ہی قبضہ میں رہے گا ۔

دوسری جانب ٹی آر ایس اصل اپوزیشن کانگریس کو وقفہ وقفہ سے جھٹکے دیتے ہوئے سنبھلنے کا کوئی موقع نہیں دے رہی ہے مگر صدر تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی اُتم کمار ریڈی پرعزم اور بلند حوصلے سے آگے بڑھ رہے ہیں ان کی پرجا چیتنیہ بس یاترا نے پارٹی قائدین میں اتحاد اور کیڈر میں جوش و خروش بھرنے میں نمایاں رول ادا کیا ہے ۔ وہ پارٹی کے سینئر قائدین کے تجربے اور نوجوانوں کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے عوام کا دل جیتنے کی ہرممکن کوشش اور ریاست میں ایس سی ۔ ایس ٹی طبقات کیلئے محفوظ 31اسمبلی حلقوں میں کامیابی کیلئے خصوصی حکمت عملی پر کام کررہے ہیں ۔ساتھ ہی گریٹر حیدرآباد میں آندھرائی قائدین کو ٹکٹ دینے پر غور کرہے ہیں اور جن 25ارکان اسمبلی نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کی ہے ان حلقوں میں پائی جانے والی ناراضگی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرہے ہیں ۔ کانگریس سے مزید چند قائدین ٹی آر ایس میں شامل ہوسکتے ہیں اس کی فکر چھوڑکر ٹی آر ایس کے بشمول دوسری جماعتوں کے طاقتور قائدین کو کانگریس میں شامل کرنے کیلئے خفیہ ملاقاتیں کررہے ہیں ۔ ٹی آر ایس کو شکست دینے کا وہ کوئی بھی موقع ضائع کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور ضرورت پڑنے پر عظیم اتحاد تشکیل دینے کیلئے بھی تیار ہے اور اس کے لئے پارٹی ہائی کمان کے ساتھ ساتھ دوسری اپوزیشن جماعتوں سے بھی تبادلۂ خیال کررہے ہیں ۔ تلگودیشم ۔ سی پی آئی اور تلنگانہ جنا سمیتی سے اتحاد کرنے کا جائزہ لیا جارہا ہے ۔ گزشتہ عام انتخابات میں ٹی آر ایس نے تنہا مقابلہ کیا تھا ۔ کانگریس نے سی پی آئی کے ساتھ اتحاد کیا تھا اور ساتھ ہی تلگودیشم اور بی جے پی میں اتحاد ہوا تھا ۔ فی الحال تلگودیشم اور بی جے پی کا اتحاد ختم ہوچکا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے کٹر مخالف بن گئے ہیں ۔ پروفیسر کودنڈا رام نے نئی پارٹی ٹی جے ایس تشکیل دی ہے۔ سی پی ایم بہوجن لفٹ پارٹی تشکیل دیتے ہوئے مقابلہ کرنے کی تیاری کررہی ہے ۔ سدھاکر ریڈی نے تلنگانہ انٹی پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت تشکیل دی ہے ۔ تمام جماعتیں علحدہ علحدہ مقابہ کریں تو مخالف حکومت ووٹ تقسیم ہوسکتے ہیں جس سے حکمراں ٹی آر ایس کو ہی فائد ہوگا ۔ ووٹوں کی تقسیم کو روکنے کیلئے کانگریس پارٹی چند اسمبلی و پارلیمانی حلقوں کی قربانی دیتے ہوئے عظیم اتحاد تشکیل دینے کی سرگرمیاں تیز کرچکی ہے ۔ تلگودیشم کونسی پارٹی سے اتحاد کریگی اس کا ابھی تک خلاصہ نہیں کیالیکن بات صد فیصد صحیح ہیکہ تلگودیشم ٹی آر ایس سے سخت ناراض ہے کیونکہ ٹی آر ایس قیادت نے تلگودیشم کے تمام ارکان اسمبلی کو اپنی پارٹی میں شامل کرلیا ہے ۔ کانگریس کو اُمید ہے کہ تلگودیشم کانگریس سے اتحاد کرسکتی ہے ۔ عظیم اتحاد میں تلگودیشم کو شامل کرنے پر گریٹر حیدرآباد اور دیہی علاقوں میں تلگودیشم کا جو کیڈر ہے وہ ٹی آر ایس کو شکست دینے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے ۔ ساتھ ہی سیٹلرس کے ووٹ بھی عظیم اتحاد کیلئے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں ۔ کانگریس پارٹی تلگودیشم کو گریٹر حیدرآباد اضلاع کھمم اور محبوب نگر میں نشستیں چھوڑنے کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔ کانگریس اُمید کررہی ہے کہ ٹی جے ایس بھی عظیم اتحاد میں شامل ہوگی ۔ سی پی آئی اور کانگریس کے درمیان اتحاد کے لئے ابھی سے مذاکرات شروع ہوچکے ہیں ۔ تلنگانہ انٹی پارٹی نے انھیں 5 نشستیں دینے کا کانگریس سے مطالبہ کیا ہے ۔

دوسری جانب کانگریس پارٹی عظیم اتحاد کی حکمت عملی کامیاب ہونے پر اپنے 20 تا 30 امیدواروں کے ناموں کااعلان کرنے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے ۔ صدر کانگریس راہول گاندھی تلنگانہ کے انتخابات پر خصوصی توجہہ دے رہے ہیں ۔ تلنگانہ کیلئے تین اے آئی سی سی انچارجس نامزد کرتے ہوئے ہر ایک کو 40 اسمبلی حلقوں کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ انھیں تین ماہ تک مختص کردہ اسمبلی حلقوں کا دورہ کرتے ہوئے پارٹی کو بوتھ سطح سے مستحکم کرنے کے ساتھ پارٹی کیڈر میں جوش و خروش بھرنے کا حکم دیا گیاہے ۔ اسمبلی حلقوں میں مقامی سطح پر پارٹی قائدین کے درمیان جو بھی نظریاتی اختلافات پائے جاتے ہیں اس کو دور کرنے اور قائدین میں اتحاد پیدا کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ جو قائدین مستعفی ہوکر ٹی آر ایس میں شامل ہوئے ہیں اور وہ دوبارہ کانگریس میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ان کے ناموں پر بھی غور کیا جارہا ہے ۔

بی جے پی بھی تلنگانہ میں بس یاترا شروع کرچکی ہے ۔ بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ جولائی کے اواخر میں تلنگانہ کا دورہ کریں گے اور پارٹی قائدین کے ساتھ اجلاس طلب کرتے ہوئے انتخابی حکمت عملی بھی طئے کریں گے ۔ تلنگانہ میں وسط مدتی انتخابات منعقد ہو یا نہ ہو مگر انتخابی سرگرمیاں شرو ع ہوچکی ہے ۔ ہر پارٹی ایک دوسرے پر بازی مارنے کیلئے جی توڑ کوشش کررہی ہے ۔ ہر پارٹی سروے کرارہی ہے ۔ کانگریس کے سروے میں 70 تا 80 حلقوں پر کامیابی کے اشارے ملے ہیں جس کے بعد کانگریس پارٹی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کو اولین ترجیح دے رہی ہے ۔ انتخابات سے عین قبل کئی قائدین سیاسی وفاداریاں تبدیل کرسکتے ہیں کیونکہ ہر سیاسی جماعت کے قائدین کے درمیان اختلافات ، گروپ بندیاں ہیں مگر اس مرتبہ اختلافات حکمراں ٹی آر ایس میں زیادہ دیکھے جارہے ہیں اب دیکھنا ہے عوام کا فیصلہ کیا ہوگا اور وہ کس جماعت پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہیں ۔